دہلی میںجشن ادب

سرورالہدیٰ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
دہلی کے ادبی جلسوں کا ایک اہم حوالہ اب جشن ادب بھی ہے۔ دہلی میں ادبی و ثقافتی پروگرام بعض اوقات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ہر پروگرام میں شریک ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن دہلی کی ادبی اور تہذیبی زندگی کے لیے ان جلسوں اور سمیناروں کا ہونا نہایت ہی حوصلہ افزا ہے۔ سمیناروں اور جلسوں کے سلسلے میں تمام لوگوں کی رائے ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے کبھی ہماری خاموشی اور گوشہ نشینی کو اخلاقی جواز مل جاتا ہے۔ لیکن یہ سچائی ہے کہ اد ب و ثقافت کے نام پر مل بیٹھنے کا ایک روشن پہلو ضرور ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر جلسے میں ہماری شرکت مقرر کی حیثیت سے ہو۔ سامعین کے ساتھ بیٹھنا بھی ایک اخلاقی جہت رکھتا ہے۔ ادب کی دنیا میں سب سے محفوظ مقام تو بعض اوقات سامعین کی صف ہے۔ لیکن کمزور لمحوں میں ہم یہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم یہاں ہیں وہاں کیوں نہیں ہیں۔ یہاں اور وہاں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا نہیں جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ یہ فاصلہ وقت کے ساتھ کبھی کم ہوجاتا ہے اور کبھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ لیکن ان فاصلوں سے ہماری ذہنی اور فکری ثروت مندی میں زیادتی اور کمی اگر ہوتی ہے تو اس کی ذمہ دار ی کسی اور پر عائد نہیں ہوتی۔ دہلی کی ادبی تقریبات کی مختلف نوعیتیں ہیں اور ان تقریبات سے مختلف موقعوں پر اور مختلف طریقے سے استفادہ کرتے ہیں۔ جشن ادب نے ۱۷،۱۸،۱۹ مارچ ۲۰۱۷ کو دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں تین روزہ تقریبات کا انعقاد کیا۔اس مرتبہ ان تقریبات کو جشن شاعری سے موسوم کیا گیا۔ گرچہ ان تقریبات کے جو موضوعات اور مسائل تھے ان کا تعلق دیگر علوم و فنون سے بھی تھا۔ لیکن کسی نہ کسی شکل میں ہر جگہ شاعری موجود تھی۔ اگر شاعری کو ایک بڑے کینوس میں دیکھا جائے تو پھر یہ شکوہ نہیں ہوگا کہ غزل نہیں پڑھی گئی اور نظم نہیں سنائی گئی۔ جشن ادب کی تقریبات میں علم و ادب کے کینوس کو بڑا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کینوس پہلے ہی سے بڑا ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم شعر و ادب کی کسی ایک صنف کو سب کچھ سمجھ کر دوسرے ادبی اور تہذیبی موضوعات کی طرف سے تھوڑے غافل ہوجاتے ہیں۔جشن ادب نے اس سبق کو پھر یاد دلایا کہ خالص ادب بھی اپنی ذات کے اعتبار سے خالص نہیں ہوتا اس میں تاریخ، تہذیب، رقص، موسیقی، مصوری اور دوسرے حقائق شامل ہوتے ہیں۔ سامعین نے یہ بھی محسوس کیا کہ ہمارے آج کے مسائل ایسے نہیں جن کی طرف سے ہم آنکھیں بند کرلیں اور صرف اپنی سوچ کے مطابق ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ بلکہ دوسروں کے خیالات کو جاننا، سمجھنا اور انھیں اہمیت دینا بھی ہماری تہذیبی اور جمہوری زندگی کا حصہ ہے۔جشن ادب نے اس مرتبہ تین اہم شخصیات شمس الرحمن فاروقی، کرشنا سوبتی اور مجتبیٰ حسین کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے نوازا۔جشن ادب افتتاحی جلسہ انڈیا انٹرنیشنل کے فائونٹن لان میں ۱۷؍مارچ ۲۰۱۷ کو منعقد ہوا۔ اسٹیج پر کلدیپ نیر کو دیکھنا ایک خوش گوار تجربہ تھا۔ میں نے چند برس قبل کلدیپ نیر صاحب کو جے این یو کے ایک پروگرام میں پہلی مرتبہ دیکھا اور سنا تھا۔ کلدیپ نیر نے جشن ادب کے اس افتتاحی جلسے میں جو گفتگو کی اس کا تعلق تاریخ اور تہذیب سے تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنے خیالات کے اظہار میں بے باک اور روشن خیال نظر آئے۔ تاریخ اور تہذیب یہ دو لفظ بہت آسانی سے زبانوں سے پر آجاتے ہیں لیکن اس کی اصل روح تک پہنچنا اور اسے محسوس کرنا اب مشکل سا ہوتا جا رہا ہے۔ اس مشکل وقت میں کلدیپ نیر نے تاریخ و تہذیب کے حوالے سے جو گفتگو کی اس سے یہ پیغام بھی گیا کہ ہمیں اپنی بات کہنی چاہیے۔ دھند ایک نہ ایک دن چھٹے گی اور فضا روشن ہوجائے گی۔ کلدیپ نیر نے صاف لفظو ں کہا کہ ہمارا مقدر ایک ایسا تہذیبی ورثہ ہے جس میں مختلف زبانوں، تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا ہے اور ہر ایک کے جذبات کا احترام کرنا ہے۔ کلدیپ نیر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سب سے اچھی صورت بات چیت کرنا ہے اپنی بات منوانا نہیں۔ جب ہم دوسروں کو سنیں گے اور اس کا احترام کریں گے تو اسی سے ہم آہنگی کی فضا قائم ہوگی۔ اب اس کا وقت نہیں ہے کہ ہم اپنے ہی بارے میں بولتے رہیں اور دوسروں کی نہ سنیں۔کلدیپ نیر نے اپنی گفتگو میں جن حقائق کی جانب اشارہ کیا وہ ایک ایسے شخص کی زبان سے سامنے آئے تھے جس نے نصف صدی سے زائد کا عرصہ تاریخ، تہذیب اور سیاست کی دنیا میں گزارا ہے اور جس نے بہت کچھ دیکھا ہے ۔یہ بھی محسوس ہوا کہ کلدیپ نیر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ کلدیپ نیر کی اس فکر انگیز گفتگو کے بعد شمس الرحمن فاروقی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فاروقی صاحب نے جشن ادب کے سکریٹری کنور رنجیت چوہان اور دوسرے اراکین کو اس جلسے کے انعقاد کے لیے مبارک باددی ۔ انھوں نے اردو سے اپنی وابستگی کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ کس طرح اردو زبان و ادب سے ان کا گہرا شغف پیدا ہوا اور اب وہ اردو زبان و ادب کو عالمی ادب کے تناظر میں کس طرح دیکھتے ہیں۔ انھوں نے خود کو اردو کا ایک طالب علم بتایا اور یہ بھی فرمایا کہ اردو زبان جب سماعتوں کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے تو اس کا ایک دوسرا ہی روشن پہلو ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو بنیادی طور پر زبانی روایت کا حصہ ہے جب ہم لکھ کر پڑھتے ہیں تو اس کا بھی ایک روشن پہلو ہے لیکن سننے اور پڑھنے کا جو فرق ہے وہ بہرحال قائم رہتا ہے۔فاروقی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اس زبانی روایت کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہم اس کے مزاج سے واقف ہوسکیں۔ انھوں نے میرؔ کے کچھ اشعار کی روشنی میں یہ بتایا کہ میر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ عام الفاظ کے ذریعہ وہ معنی کی جہتیں پیدا کردیتا ہے اور اس معاملے میں میر کا کوئی ثانی نہیں۔ میر نے زندگی کے جن موضوعات کو شعر کا حصہ بنایا ان کی طرف ہماری نگاہ کم کم جاتی ہے اور اسی لیے میر کو بعض موضوعات تک محدود سمجھتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی یہاں ایک مرتبہ پھر میر کے تعلق سے ان تنقیدی مقدمات کو دہرایا جو ان کی اہم تصنیف ’شعر شور انگیز‘ کا حصہ ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے یہ بھی کہا کہ جب کوئی نوجوان مجھے پڑھنا چاہتا ہے یا مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے تو خوشی ہوتی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ لکھنا اور پڑھنا بہرحال نئی نسلوں کے درمیان کوئی معنی رکھتا ہے، ورنہ تو عمر کے اس پڑائو پہ عموماً آدمی سمٹ جاتا ہے ۔ اپنے ہی عمر کے لوگوں سے بات کرنا چاہتا ہے۔ لیکن مجھے نئے لوگ جب بلاتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے۔

شمس الرحمن فاروقی کی تقریر کے بعد رنجیت چوہان نے تمام مہمان کا شکریہ ادا کیا اس جلسے میں کرشنا سوبتی بھی موجود تھیں جو ہندی کی ایک بری ادیبہ ہیں۔ اپنی علالت کے باوجود وہ موجود تھیں ۔ کلدیپ نیر نے شمس الرحمن فاروقی اور کرشنا سوبتی کو ایوارڈ سے نوازا۔ اردو اور ہندی کا یہ سنگم پہلے بھی دیکھنے میں آچکا ہے لیکن ایک مرتبہ پھر سے دیکھنا ایک خوش گوار تجربہ تھا۔ جشن کے دوسرے دن زبان و ادب کے فروغ میں جدید ٹکنالوجی کے کردار پر مذاکرہ تھا جلسے کی نظامت آدیتی مہشوری نے کی ابھگیان پرکاش نے ٹیلی ویژن اور ریڈیو اور اس میں استعمال کی جانے والی زبان کے تعلق سے کئی اہم امور کی جانب اشارے کیے۔ سچی بات یہ ہے کہ میڈیا کی زبان پر ہم اعتراض بھی کرتے ہیں لیکن اسی زبان میں خبر پڑھنے اور سننے پر مجبور بھی ہیں۔ ابھگیان پرکاش نے زبان کے تعلق سے کھلا ذہن اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال میں حساس ہونے پر بھی زور دیا اور یہ بھی کہا کہ انٹر نیٹ نے معلومات اطلاعات اتنی فراہم کردیں ہیں کہ بعض مرتبہ زبان اور تلفظ اور مصنف کے سلسلے میں کچھ غلطیاں راہ پا جاتی ہیں۔ اس گفتگو کے اختتام پر کچھ سوالات کیے گئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ بعض اردو کے الفاظ کو میڈیا اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتی ہے اور اسے خیال نہیں رہتا کہ اصل میں زبان کا ماخذ کرتا ہے اور اس زبان میں اس کا مطلب کیا ہے۔ ۱۸؍مارچ کا ایک اہم اور یادگار پروگرام شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ ’داستان کی سیر‘ تھا۔ اس پروگرام میں زمرد مغل نے فاروقی صاحب سے داستان کے متعلق کچھ بنیادی سوالات کیے ۔ سنجیدہ لکھنے پڑھنے والوں کو ا س بات کا علم ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے داستان پر کئی جلدوں میں تنقید لکھی ہے اور وہ اردو کے تنہا ایسے قاری اور نقاد ہیں جن کے پاس داستان کی تمام اہم جلدیں ہیں اور انھوں نے داستانوں کو جس طرح پڑھا اور سمجھا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے داستان سے متعلق چند ایسی باتیں سامعین کے سامنے پیش کیں جن کی نوعیت بنیادی ہے اور جن کے بغیر داستان کی شعریات کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ اس جلسے میں دوسرے علوم و فنون کے لوگ بھی موجود تھے لہٰذا فاروقی صاحب نے داستان کی شعریات کو اختصار کے ساتھ پیش کیا۔ انھوں نے کلیم الدین احمد کا بطور خاص ذکر کیا۔ انھوں نے اردو میں داستان پر پہلی کتاب لکھی ۔ فاروقی صاحب نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ کلیم الدین احمد اتنے بڑے نقاد تھے اور انھیں دنیا کے ادب کا گہرا شعور تھا لیکن وہ یہ بات نظر انداز کر گئے کہ داستان بنیادی طور پر سنانے کی چیز تھی، لیکن فاروقی صاحب نے کلیم الدین احمد کی اس اولین کاوش کو بہت اہم قرار دیا اور یہ کہا کہ میں ان کی بڑی قدر کرتا ہوں۔
تقریبات کا ایک سیشن ادب ، سماج اور زندگی کے نام سے منسوب تھا۔ اس سیشن میں اشوک واچپئی اور سید محمد اشرف ، شمیم حنفی اور رحمن عباس تھے۔ ادب ، سماج اور زندگی کا عنوان بہت مانوس اور پرانا ہے ۔ لوگ اسے دیکھ کر بعض اوقات بھڑک جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ترقی پسندوں کا اس با ت پر اسرار ہے کہ ادب کو سماج اور زندگی کا عکس اور ترجمان بتانا ہے۔عکس اور ترجمان ہی سے مشکل پیدا ہوئی اور یہ کہا گیا کہ ادب کبھی بھی سماج یا زندگی کا عکس محض نہیںہوسکتا۔ اس پورے معاملے میں ترقی پسندوں کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے لفظ کی گرفت کی گئی مگر اس کے پیچھے جو سچی فکر تھی اسے نظر انداز کیا گیا۔ مجنوں گورکھپوری نے کتنی اچھی کتاب لکھی ’’ادب اور زندگی‘‘۔ ادب کے سماجی رشتوں پر کئی اچھی تحریریں ہمیں ترقی پسندوں نے دیں مگر دیکھیے کہ آج بھی ہم جسے مابعد جدید دور کہتے ہیں اس میں ان الفاظ اور خیالات کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جنھیں ترقی پسندوں نے ایک خاص سماجی اور سیاسی صورت حال میں پیش کیا تھا۔ یہ سیشن اس لیے اہم تھا کہ اس میں تخلیق کار بھی تھے اور نقاد بھی۔اشوک واچپئی نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا کہ سماج میں ادیب کا ایک رول ہوتا ہے اور یہ رول ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے اپنے طور پر احتجاج کرنا چاہیے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ احتجاج کی بھاشا کچھ کھلی ہوئی ہو اور کبھی گہری۔ یہ سب کچھ اس بات پر نربھر کر تا ہے کہ آپ کس وقت کیا کہنا چاہتے ہیں اور کس طرح کہنا چاہتے ہیں اور وقت کا تقاضا کیا ہے۔
اشوک واچپئی نے گزشتہ دو تین دہائیوں میں جو تخلیقات سامنے آئیں ان میں سب سے اہم تخلیق شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کو قرار دیا ۔ میں یہ بتا دوں کہ اشوک واچپئی نے بہت پہلے ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ پر جَن ستہ میں ’کبھی کبھار ‘کے عنوان سے ایک لیکھ لکھا تھا۔ سید محمد اشرف نے مخصوص انداز میں اپنے عہد کے تخلیقی منظر نامے کا جائزہ پیش کیا اور چند اہم لکھنے والوں کی خصوصیات کی جانب اشارہ کیا۔ پروفیسر شمیم حنفی نے اس بات پر رنج کا اظہار کیا کہ ہمارے یہاں تنقید اب زیادہ لکھی جا رہی ہے اور ادبی معاشرے کے لیے یہ خطرے کی بات ہے۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں دوسری زبانوں کی طرح دیگر مسائل کی جانب بھی متوجہ ہونا چاہیے تاکہ ہمارا عصری ادب آج کا ادب بھی بن سکے۔ رحمن عباس نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔  (قسط اول)
sarwar103@gmail.com