دہلی اسمبلی کی تحلیل کی درخواست کی سماعت سے اتفاق

نئی دہلی 21 فروری (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج عام آدمی پارٹی کی درخواست کی پیر کے دن سماعت سے اتفاق کرلیا۔ اِس درخواست میں پارٹی نے گزارش کی ہے کہ لیفٹننٹ گورنر کو ہدایت دی جائے کہ دہلی اسمبلی تحلیل کردیں اور لوک سبھا انتخابات کے ساتھ تازہ اسمبلی انتخابات بھی منعقد کرے۔ چیف جسٹس پی ستاسیوم کی زیرقیادت سپریم کورٹ کی بنچ نے کہاکہ وہ 24 فروری کو درخواست کی سماعت کرے گی۔ ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے عام آدمی پارٹی کی پیروی کرتے ہوئے کہاکہ دہلی میں کسی متبادل حکومت کی تشکیل کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اِس لئے لیفٹننٹ گورنر کو چاہئے تھا کہ اسمبلی تحلیل کردیتے۔ یہ مشترکہ درخواست اخباری اطلاعات کی بنیاد پر داخل کی گئی ہے اور دستیاب دستاویزات جو عام آدمی پارٹی کو عوامی ذرائع سے دستیاب ہوئے تھے، داخل کردیئے گئے ہیں۔ کجریوال کابینہ میں وزیر ٹرانسپورٹ سوربھ بھردواج کو بھی چند دستاویزات دستیاب ہوئی تھیں جو عدالت میں پیش کردی گئیں۔

عام آدمی پارٹی کی درخواست میں دہلی میں صدر راج کے نفاذ کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے جو لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ کی سفارش پر نافذ کیا گیا۔ درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایسا کانگریسی قائدین اور سابق چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کو بدعنوانیوں کے الزامات سے بچانے کے لئے کیا گیا ہے۔ درخواست میں ادعا کیا گیا ہے کہ 16 فروری کا حکمنامہ جس کے تحت صدر راج نافذ کیا گیا، مایوسی کا نتیجہ تھا جو بدعنوانی کے مقدمات کی جاری تحقیقات کی بناء پر پیدا ہوئی تھی۔ ایک ایف آئی آر اروند کجریوال حکومت کی جانب سے درج کیا گیا تھا۔ واضح طور پر پس پردہ مقصد دہلی اسمبلی کی تحلیل اور تازہ انتخابات کا انعقاد نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی پارٹی کو موقع دینا تھا جو دہلی اسمبلی انتخابات میں بُری طرح ناکام ہوگئی تھی۔ جو نومبر 2013 ء میں منعقد کئے گئے تھے۔ کئی اہم قائدین بشمول مرکزی حکومت کے وزراء اور سابق چیف منسٹر کو سنگین بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا تھا۔ بالواسطہ طور پر مرکزی حکومت کے ذریعہ دہلی اسمبلی کو معطل کرتے ہوئے اقتدار مرکز کے ہاتھوں میں دے دیا گیا۔ اِس طرح جاریہ تحقیقات کنندوں کو بھی مایوسی سے دوچار کردیا گیا۔ ایف آئی آر کے تحت بدعنوانیوں کے الزامات اُن افراد کے خلاف عائد کئے گئے تھے جو سابق حکومت کے اہم ارکان تھے۔ ایف آئی آر دہلی کی نئی حکومت نے درج کروائی تھی۔ درخواست میں کہا گیا کہ چنانچہ یہ فیصلہ نہ صرف غیر جانبدارانہ ، غیرقانونی اور دہلی کے شہریوں کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی تھا بلکہ شہریوں کو بدنام کردینے والا تھا۔ صدر راج کا نفاذ اِس لئے بھی ضروری نہیں تھا کیونکہ کجریوال حکومت کے مستعفی ہوجانے کے بعد نہ تو بی جے پی اور نہ کانگریس حکومت تشکیل دینے کے موقف میں تھی۔