دہشت گردی کے نام پر پھر مسلم نوجوانوں کی گرفتار ی کا کھیل

سیاست فیچر
عام انتخابات میں اپنے اقتدار کو بچانے اور نریندرمودی کو وزیر اعظم کی کرسی پر برقرار رکھنے کے لئے بی جے پی اور آر ایس ایس کوئی کسر نہیں چھوڑ رہیں ہیں کیونکہ کبھی وہ رام مندر کی تعمیر کیلئے قانون بنانے کی بات کرتے ہیں تو کبھی اس معاملے کے حل کے لئے غیر متنازعہ ارضی کا حصہ دینے کی اپیل کرتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اپنا موقف مستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسی دوران دہشت گردی کے نام پر گرفتاری نے پھر ایک مرتبہ اس موضوع کو گرمائے جانے کا خدشہ بھی پیدا ہوچکا ہے۔ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے ایک 17 سالا لڑکے سمیت 9 مسلم نوجوانواں کو گرفتار کیا ہے اور ان پر الزام ہیکہ یہ لوگ آئی ایس آئی ایس سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ گرفتاریاں ممبرا تھانے اور اورنگ آباد سے عمل میں آئی ہیں۔ خبر کے مطابق ان لوگوں کے پاس سے کوئی خاص ہتھیار یا دھماکہ خیز مادہ تو بر آمد نہیں ہوا لیکن کچھ کیمیکل، موبائل فون ہارڈ ڈرائیو، ایسڈ باٹل ، چاقو اور سم کارڈ وغیرہ برآمد ہوئے ہیں۔ اب اے ٹی ایس یہ تحقیق کر رہی ہے کہ آیا یہ لوگ آئی ایس آئی ایس کے سلیپر سیل کے طور پر تو کام نہیں کر رہے ہیں ؟ قبل ازیں قومی تفتیشی ایجنسی ( این آئی اے ) نے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ آئی ایس آئی ایس سے متاثر ایک (دہشت گرد ) اکائی حرکت الحرب اسلامی سے متعلق تھا، اسی طرح اس اکائی کو ہتھیار سپلائی کر نے کے الزام میں بھی ایک شخص گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے ایجنسی نے مختلف مقامات پر دھاوا کر کے بھاری مقدار میں ہتھیار اور دھماکہ خیز مادے ضبط کئے تھے۔ ابھی مزید تحقیقات کے بعد بہت سی نئی پرانی باتیں سامنے آ سکتی ہیں، مذہبی اور عوامی مقامات پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے علاوہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں پر اہم سیاسی اور سماجی شخصیات برسر اقتدار پارٹی اور سنگھ کے لیڈران وزراء اور مسلم مخالف منھ زوروں کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام بھی لگا دیا جائے۔ انتخابات قریب ہیں اور ایسے میں اس طرح کی پولس کارروائیاں ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لئے کافی ہیں، کوئی کرے نہ کرے اس طرح کی پولس کارروائیوں سے ہندو ووٹ بنک اپنے آپ ہی پولرائز ہوجاتا ہے حالانکہ نام نہاد مسلم دہشت گردی اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں اور ان کے متعلق ہتھیاروں، دھماکہ خیز مادوں، کمپیوٹروں، ان کے خطرناک تخریبی منصوبوں، سیاسی اور سماجی لیڈران کے قتل کے متعلق ان کے منصوبوں کی کہانیاں عدالتوں میں اس بری طرح پٹ چکی ہیں کہ اب حکومت و انتظامیہ اور لوگوں کو بھی اس طرح کی پولس کارروائیوں پر بالکل یقین نہیں کرنا چاہئے لیکن دراصل اس طرح کی کارروائیاں جھوٹی ہوں یا سچی وہ سیاسی طور پر استعمال کی جاتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کے لئے دانستہ ایسی کارروائیاں بغیر کسی روک ٹوک کے ہونے دیتی ہیں اور میڈیا اور عوام کا مسلم متعصب بنانے انہیں پورے ملک میں پہنچا کر ان کا کام آسان کردیتا ہے۔ ذمہ دار حکومت کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے کہ پانچ دس سال کی مقدمہ بازی کے بعد یہ کارروائیاں جھوٹی ثابت ہوئیں تو وہ عوام کو کیا جواب دیں گی کیونکہ حکومت اس طرح کی کارروائیوں پر جانبداری کا مظاہرہ کر کے عوام کے تعصب کو بڑھاکر اپنے حق میں استعمال کر نے کا کام کرتی ہے۔ حکومت پولس میڈیا اور عوام کا تعصب تو اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اب انہیں اس کی شرم بھی نہیں آتی، کھلے طور پر جانبداری برتی جا تی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔مذکورہ گرفتاریوں سے محض چند دن پہلے تھانے میں بی جے پی کے ایک لیڈر کی دکان میں سے بہت سارے ہتھیارضبط کئے گئے اسے گرفتار تو کرلیا گیا لیکن جس طرح دہشت گردی کے متعلق مذکورہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کو میڈیا نے جوشائع کیا اور اس پر جس طرح کی باتیں اور اندیشے پولس کی طرف سے ظاہر کئے گئے جس طرح ان لوگوں کو آئی ایس آئی ایس جیسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم سے جوڑ دیا گیا، جس طرح دہشت گردی کی نئی تنظیم اور سلیپر سیل کی باتیں ہوئیں بی جے پی کے اس آدمی کے متعلق وہ کچھ نہیں ہوا، نہ اسکی گرفتاری کو ہندو دہشت گردی کہا گیا، نہ اسے کسی دہشت گرد تنظیم سے جوڑا گیا نہ اس کے متعلق کسی سلیپر سیل کی تحقیقات کی بات کہی گئی اور نہ ہی اس کی تنظیم بی جے پی اور سنگھ پر دہشت گردی کا الزام لگا یا گیا، بس اس نے کہہ دیا اور مان لیا گیاکہ وہ جلد پیسہ کمانے کے لئے (غیر قانونی ) ہتھیار بیچ رہا تھا تاکہ قرضہ جات کی ادائیگی کی جا سکے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ دونوں مقدمات میں کس طرح کی تفتیش کی جاتی ہے، کس رفتار سے مقدمات چلائے جاتے ہیں اور کس طرح فیصلے ہوتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف اب تک کی گئی پولس کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد صرف تعلیم یا فتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار و ہراساں کر کے ان کا کریر تباہ کرنا اور دہشت گردقرار دے کر اور ملک میں کئی مسلم ناموں والی دہشت گرد تنظیموں کی فعال موجودگی کا اعلان کر کے پوری مسلم قوم پر دہشت گردی کا دھبہ لگا نا ہی تھا کیونکہ جس آسانی سے عدالتوں نے پولیس کی کہانیوں اور ثبوتوں کو مسترد کیا ہے اس سے ایسا نہیں لگتا کہ خود پولیس کو اور سرکاری قانونی ماہرین کو ان ثبوت و شواہد کے کمزور ہونے کا ادراک نہ ہو یعنی یہ پوری کارروائی یا تو پولیس کی ذاتی من مانی تھی یا پھر پوری مسلم قوم کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی۔