دہشت گردی اور عالمی فورم

امریکی قانون سازوں نے ایوان نمائندگان میں ایک بل پیش کرتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی کو اسپانسر کرنے والا ملک قرار دینے پر زور دیا ہے۔ امریکی کانگریس رکن ٹیڈپو جو دہشت گردی پر ایوان کی ذیلی کمیٹی کے چیرمین بھی ہیں، دہشت گردی کے خلاف جاری مہم کے حصہ کے طورپر یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دیا جائے۔ پاکستان اگرچیکہ امریکہ کا حلیف ملک ہے، اس نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ کی مکمل حمایت کرتے ہوئے فوجی کارروائیوں کے لئے تمام سہولتیں فراہم کی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود امریکی قانون سازوں کا جن میں ریبپلکن اور ڈیموکریٹس دونوں بھی شامل ہیں، حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے۔ ان کی ناراضگی اس تناظر میں ٹھیک ہے کہ دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث تنظیمیں اپنی سرگرمیوں میں شدت پیدا کردی ہیں۔ جہاں تک دہشت گردی کی سرپرستی کا سوال ہے اس پر بلا تحقیق کسی بھی ملک پر الزام لگانے کی کوشش امریکی ایوان نمائندگان کے تمام دیگر ارکان کے نزدیک کیا حیثیت رکھے گی یہ ایوان میں زیر بحث آنے والے اس بل کے ضمنی نتیجہ کے بعد ہی اخذ کئے جاسکیں گے۔ ایوان نمائندگان کے ان دو ارکان ری بپکن کے فیڈنوے اور ڈیموکریٹک کے کانگریسی رکن ڈانا روہبچر نے کہا کہ نہ صرف پاکستان ناقابل بھروسہ حلیف ملک ہے بلکہ اسلام آباد برسوں سے امریکہ کے دشمنوں کی سرپرستی کررہا ہے۔ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے سے لے کر حقانی نٹ ورک کے ساتھ مضبوط تعلقات کو فروغ دینا ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی پشت پناہی کررہی ہے۔ ایک اور رکن نے کشمیر کے اری علاقہ میں دہشت گرد حملہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی حمایت کی۔

برکس ملکوں نے بھی دہشت گردی کے بارے میں اپنی رائے کو سخت ترین بنایا ہے تو ان تمام کی توجہ اس وقت صرف پاکستان کے طرف مرکوز ہوئی ہے۔ برکس کے رکن ممالک بھی اقوام متحدہ کے تحت ایک ’’سخت ترین قانون سازی‘‘ کے خواہاں ہیں۔ اس سیشن کے خلاف بین الاقوامی معاہدہ کے لئے مذاکرات کو تیزی سے پورا کرلیا جانا چاہئے۔ برکس میں ہندوستان کے علاوہ دیگر رکن ممالک جیسے برازیل، روس، چین اور جنوبی افریقہ نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 71 ویں سیشن کے موقع پر اپنا علیحدہ اجلاس منعقد کرکے برکس ملکوں کے اندر جاری دہشت گرد سرگرمیوں پر تشویش ظاہر کیا ہے۔ اس میں خاص کر ہندوستان کی ریاست جموں و کشمیر میں حالیہ اری دہشت گرد حملہ کی مذمت کی۔ سکیوریٹی کونسل کے بشمول اقوام متحدہ کے اندر اگر جامع اصلاحات لائے جائیں تو دہشت گردی پر قابو پانے اور معاشی ترقی کے اقدامات کرنے میں مدد ملے گی۔ برکس ممالک کے نمائندوں نے خاص کر برازیل کے جوس سیرا، روس کے سریگوے لارف، ہندوستان کے مملکتی وزیر خارجہ ایم جے اکبر، چین کے وانگ پائی اور جنوبی افریقہ کے میائے نیکونا سہابتے نے دہشت گردی کی سختی سے مذمت کی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سالانہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے موقع پر تمام ممالک دہشت گردی کے موضوع کو اہمیت دیتے ہیں بعد کے دنوں میں ان ممالک کا موقف اتنا سخت نہیں ہوتا۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے طور طریقوں اور پالیسیوں یا منصوبوں میں اگر دہرا معیار پائے جائے تو اس لعنت پر قابو پانے کی کوششوں کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ماضی میں بھی ایک سے زائد مرتبہ اس طرح اجلاسوں میں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی پالیسیوں پر غور کیا جاچکا ہے۔ اس کے بعد آج ساری دنیا میں اس لعنت کے بڑھتے اثرات کم نہیں ہوئے ہیں۔ مشرق وسطی میں جس طرح کی صورتحال ہے اس پر یہ ممالک مختلف رائے رکھتے ہیں اور جب جنوبی ایشیاء کی کیفیت کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہاں کے بارے میں عالمی طاقتوں کی سوچ یکسر بدل جاتی ہے۔ اس لئے اب تک دہشت گردی کی تعریف اور عالمی موقف میں تضاد پایا جاتا ہے۔ پاکستان کو نشانہ بنانے کے ساتھ عالمی طاقتوں نے اس ملک کے تعلق سے جو رائے قائم کی ہے اس میں بھی جھول پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے موقع پر ہر ایک عالمی لیڈر سے بات چیت کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اٹھایا اور ان سے اس معاملہ میں مداخلت کی خواہش کی اور وہ مسئلہ کشمیر کو ہی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے خطاب میں مرکز توجہ بنائیں گے۔ برسوں سے عالمی فورم میں اس موضوع کے حوالے سے جو کچھ بھی بات چیت ہوتی آرہی ہے، یہ اب تک نتیجہ خیز نہیں رہی۔ لہٰذا تمام عالمی قائدین کو دہشت گردی کے بارے میں اپنے انفرادی یا اجتماعی رائے کا اظہار کرنے سے قبل حقائق کا بھی جائزہ لے کر اقدامات کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر عالمی سطح پر یہ تاثر دینے کی کوشش ہورہی ہے کہ پاکستان ہی عالمی دہشت گردی کا مبدا اور مرکز ہے تو پھر اس کے اچھے نتائج کی توقع رکھنا بھی فضول ہے۔