ڈاکٹر مجید خان
ایک ڈاکٹر جوڑا جھجکتے جھجکتے مسکراتے ہوئے مشورے کیلئے آتا ہے ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دونوں بھی تھوڑے سے شرمسار ہیں کہ میرے پاس آنا پڑا ۔ میں منکر نکیر تو ہوں نہیں مگر نہ جانے انکے دماغ میں میرے تعلق سے کیا تاثر تھا ۔ بہرحال مجھے تو یہ محسوس ہورہا تھا کہ دونوں بھی مجھ سے ملنے کیلئے نیم رضامند تھے ۔ اکثر ایسا ہوا کرتا ہے ۔ دونوں تقریباً 30 سال کی عمر کے ہونگے اور بظاہر شیر و شکر نظر آرہے تھے ۔ میں سنجیدگی سے انکی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اس انتظار میں کہ ابتدائی ہچکچاہٹ دور ہوجائے گی اور وہ لوگ ملاقات کی غرض پر روشنی ڈالیں گے ۔ دونوں پھر اپنے آپ کو قابو میں لائے اور پھر سلسلہ شروع ہوا پہلے آپ پہلے آپ کا ۔ میں اس دوران اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ معاملہ کچھ غلط فہمیوں کا ہوگا ۔ غیر معموی غصے کا ہوگا اور معاملہ ان دونوں کے تعلقات کا ہوگا ۔
میں پھر اپنے لیپ ٹاپ کی مصروفیت میں لگ گیا اور ان کو وقفہ ملا کہ وہ اپنے آپ کو تیار کریں ۔ یہ بات بھی عیاں تھی کہ یہ کوئی غور و خوض کے بعد تیار کیا ہوا منصوبہ نہیں تھا ۔ ان کے لئے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ وہ کوئی ریہرسل یا تیاری بھی نہیں کئے تھے اور ممکن ہے معمولی سی بحث کے بعد اتوار کا مضمون پڑھنے کے بعد یہ خیال آیا ہوگا کہ مشورہ کرنے میں کوئی غیرت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ شوہر صاحب اس طرح سے متکلم ہوئے ۔
ڈاکٹر صاحب ویسے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے ۔ ہم دونوں اپنے ڈاکٹری کے پیشے میں اپنا نام کماچکے ہیں ۔ ظاہرہے کافی دولت بھی آرہی ہے ۔ چھوٹی سی منصوبہ بندی کے تحت محدود کی ہوئی فیملی ہے ۔ بچے مست ہیں ۔ اپنی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے بیان کی تصدیق چاہی جو مل گئی ۔ صرف مسئلہ اتنا ہیکہ ہماری بیگم صاحبہ جھٹ خفا ہیں ۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ غصے والی ہیں ۔ ضدی ہیں ۔ سامان پٹکتی ہیں اور گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہیں اور ہم کو منت سماجت کرتے ہوئے منوانا پڑتا ہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اتنا طیش میں آئی ہوں کہ بچے خوفزدہ ہوگئے ۔ اس لئے ہم یہ محسوس کررہے تھے کہ یہ کوئی خاص نفسیاتی مسئلہ نہیں ہے ۔ کام کا دباؤ دونوں پر ہے تو انکی جھنجھلاہٹ واجبی ہی نظر آتی ہے ۔صرف آپ سے مشورہ کریں اس لئے آئے ہیں ۔آپ کی رائے کو بھی شامل حال کیا جائے ۔ بچوں کا تعلیمی مستقبل بہت درخشاں نظر آرہا ہے ۔
آپ اکثر لکھا کرتے ہیں کہ گھر کے ماحول میں کشیدگی ہو تو ہونہار بچوں کو اچھے بورڈنگ اسکول میں داخل کروانا چاہئے ۔ ہم بہترین بورڈنگ اسکول کے اخراجات بآسانی دے سکتے ہیں مگر ہم کچھ طے کرنے کے موقف میں نہیں ہیں ۔ ہمارا جذباتی لگاؤ بچوں سے اور ان کا ہم سے بہت صحتمند اور گہرا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ پیشے کی وجہ سے ہماری مصروفیت میں بچوں کو اتنا وقت نہیں دے سکتے جتنا کہ ان کو ضرورت ہے ۔ مگر پابندی سے سال میں دو مرتبہ دو ہفتوں کیلئے اچھے سے اچھے تفریحی مقام کو جایا کرتے ہیں ۔ وہ لوگ خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں مگر تمام خوشحال حالات ہونے کے باوجود وہ کونسی اندرونی طاقت ہے جو آپ تک کھینچ لائی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب میں نے انکے تیز مزاج کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ انکی زبان ضرورت سے زیادہ طنز بھرے کلمات سے لیس رہتی ہے جو مجھے دکھ پہنچاتی ہے مگر کبھی لمبی بحث و تکرار نہیں ہوئی ۔ میرا مزاج ایسا ہیکہ معمولی سی دل دکھانے والی بات کو برداشت تو کرتا ہوں مگر بھول نہیں سکتا ۔ برداشت اسلئے کرتا ہوں کہ وہ اکثر و بیشتر صحیح ہوتی ہے مگر الفاظ کا استعمال نشتر کی طرح جگر کے پار ہوجاتا ہے ۔
میرے درد کو یہ جانتی ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہیکہ ان کو مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔ میری توہین کرتی ہیں اور غالباً یہ کرتے ہوئے محظوظ ہوتی ہیں ۔ یہ سب باتیں میں چیدہ چیدہ وقتاً فوقتاً ان سے کہہ چکا ہوں اور یہ بخوبی واقف ہیں مگر یہی انکا انداز گفتگو ہے جس کو وہ بدل نہیں سکتیں ۔ مجھے اس سمت میں کسی قسم کی تبدیلی میرے موافق ہونے کی امید نہیں ہے ۔ اب یہ کوئی شکایت نہیں رہی اور یہ وہ وجہ نہیں ہے جس کے لئے ہم آپ کے پاس آئے ہیں ۔
ہم آپ سے صرف بات کرنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کے گرانقدر خیالات ہم دونوں کی غور و فکر میں کہیں جگہ بنالیں ۔ ایک دو جملے ہی سہی چونکہ آپ کی طرف سے آتے ہیں تو وہ ہماری زندگیوں کی مشعل راہ بن سکتے ہیں ۔ بیوی انکے خیالات سے پوری طرح متفق نظر آرہی تھی ۔ کبھی بھی میں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ وہ اختلاف رائے رکھتی ہیں ۔ مسلسل ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر چھائی رہی اور بے توجہی اور بے زاری کی دور سے بھی کوئی علامت کا اظہار نہیں ہورہا تھا ۔ مجھے کسی بھی موقع پر دخل اندازی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ شوہر بلاوقفہ اپنی داستان بیان کررہے تھے ۔ پھر انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ہم دونوں کی یہ شخصیتیں ہیں ۔ اس سے ہم انکار نہیں کرتے مگر یہ سلسلہ تو شادی کے روز سے چل رہا ہے مگر آج آپ کے پاس رجوع ہونے کی وجہ کیا ہے وہ میں آپ کو سمجھانا چاہوں گا ۔
ڈاکٹر صاحب ہم دونوں انتہائی محنت سے روپیہ کماتے ہیں۔ ہر فیس ایک شکر گزار مریض کی طرف سے پھولوں اور مٹھائی کے ساتھ آتی ہے اور اسکی میں قدر کرتا ہوں ۔ جیب میں بحفاظت محفوظ کرلیتا ہوں ۔ مگر ہماری بیگم صاحبہ اس معاملہ میں انتہائی لاپروا ہیں ۔ ان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ کونسا مریض کتنے پیسے دیا ہے ۔ چونکہ تھکی ہوتی ہیں اس لئے محو خواب ہوجاتی ہیں اور ہمارے گھر میں نوکروں کا راج ہے ۔ کتنے زیورات یہ کھوچکی ہیں۔ کتنی رقم نوکروں نے چرائی ہے اسکے تعلق سے اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔
یہ ایک ممنوعہ موضوع ہے ۔ اس پر کسی قسم کی بحث کی گنجائش نہیں ہے ۔ ہمیشہ یہ طعنہ دیتی ہیں کہ میری کمائی گئی ہے آپ کی تو نہیں گئی ۔ یہ کیا منطق ہے ۔ آگے بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ میں بھی انکی عادت سے معاہدہ کرچکا ہوں ۔ چنانچہ کل ہی کی بات ہے ۔ میں نے دیکھا کہ یہ گہری نیند میں ہیں اور بازو نوٹوں کا بنڈل ہے ۔ میں نے نوٹوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔ وہ جب جاگ گئیں تو سب بھول گئی تھیں ۔ میں نے پھر ذکر نہیں کیا۔ جب وہ بہت دیر کے بعد ڈھونڈنے لگیں تو میں نے کہا کہ میرے پاس ہے ، بس اتنی ہی بات ان کو ناگوار گذری اور مجھ پر چوری کا الزام لگایا اور کہنے لگی کہ میری کمائی کوہاتھ لگانے کی تمہاری ہمت کیسے ہوگی ۔ اب مجھے کوئی عقلی بحث کرنے کی گنجائش نہیں تھی ۔ خاموشی سے رقم واپس کی تو پھینک دی اور مجھ سے کہنے لگی کہ تم کبھی میرے رقمی معاملات میں دخل نہ دو ۔
یہ منطق میری سمجھ سے بالاتر تھی ۔ وہ جب چاہتیں میری اپنی کمائی ہوئی رقم سے مستفید ہوتیں اور گو کہ مجھے بعد میں مطلع کرتیں مگر ان کو معلوم ہی کہ گھر کے پورے اخراجات میں چلاتا ہوں اور ان کے لئے زیورات وغیرہ بھی میں ہی دلواتا ہوں ۔ مگر مجال ہے کہ ان کے رکھے ہوئے پیسوں میں سے دس کی نوٹ بھی لے لوں ۔بیگم صاحبہ خاموش ہی رہیں اور اس طرف سے کوئی صفائی پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کی گئی ۔ خاموشی اقبال خطا کا اظہار ہورہا تھا ۔ میں نے دونوں کے خاندانی پس منظر کے تعلق سے تفصیلات معلوم کی ۔ پتہ چلا کہ شوہر کا تعلق ایک اوسط گھرانے سے تھا اور والد ملازمت کیا کرتے تھے ۔ پیسے کی تنگی رہا کرتی تھی اس لئے ان کے ذہن میں ایک ایک روپئے کی قدر تھی۔ بجز اسکے انکی بیگم صاحبہ کا تعلق بہت ہی متمول گھرانے سے تھا اور انکے ذہن میں پیسے کی قدر نہیں تھی ۔
مگر یہ لڑکی اور انکے بھائی بہن ایک ہی بات پر لڑا کرتے تھے اور وہ تھی یہ چیز میری ہے اور وہ تمہاری ۔ مجال کہ کوئی اپنی چیز کو ہاتھ لگانے دے چاہے وہ اسکا قلم ہو یا توال ، کھلونا ہو یا زیور وغیرہ ۔ انکے والد والدہ اس انتہائی حق ملکیت کو بڑھاوا دیتے رہے ۔ کسی بھی چیز کو آپس میں بانٹ لینے کی عادت کی تائید نہیں کی گئی بلکہ اس کو ناپسند سمجھا جاتا تھا ۔
شوہر کا کہنا تھا کہ انکی بیوی کو حساب کتاب میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور انکم ٹیکس وغیرہ کے حسابات وہی کیا کرتے تھے اور وہ اپنی سہولت کے مطابق اپنی کمائی اپنے شوہر کے حوالے کرتی تھی مگر اس کی مرضی کے خلاف اسکی کسی چیز کو ہاتھ لگانا پر ہنگامہ برپا ہوجاتا تھا ۔ میں نے کہا کہ ہر شخص میں پیسوں کے تعلق سے ایک خاص ذہنی تحفظ پیدا ہوتا ہے ۔ بچپن کے حالات اور تجربات سے احساس عدم تحفظ وغیرہ کی وجہ سے رقمی طور پر اگر غیر یقینی صورتحال ہو تو الگ ذہن بنتا ہے اور اسکے برعکس افراط زر ہو تو ایک لاابالی سی ذہنی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے ۔
دونوں نے شکریہ ادا کیا کہ میں نے غیر محسوس انداز میں ان کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس معمے کو حل کیا ۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہ ہر طرح سے خوشحال جوڑا محض ایک نفسیاتی غلط فہمی کی وجہ سے اپنے تعلقات کو کشیدہ کررہے تھے اور رہنمائی چاہے ۔ یہ ایک دلچسپ مسئلہ ہے ۔ حق ملکیت اور حدود ملکیت۔
پڑھے لکھے لوگ اس عادت پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں اس میں تبدیلی لاسکتے ہیں ۔ حدود ملکیت سے میرا مطلب ہے ، اس کو سمجھانا ذرا مشکل ہے سمجھنا آسان ۔ یہ سمجھئے کہ ہر شخص دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنی خاص علحدگی اور خلوت چاہتا ہے ۔ جسمانی طور پر نہیں بلکہ ذہنی طور پر اپنی خاص جگہ چاہتا ہے جس میں کسی قسم کی دخل اندازی کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے ۔ بعض لوگوں کے خاص طور طریقے ہوتے ہیں ۔ انکا خاص مزاج ہوتا ہے جو تعلقات میں غلط فہمیاں پیدا کرسکتا ہے مگر اس پر غور و خوض کیا جائے تو اسکی نشتری صفت کو ہلکا کیا جاسکتا ہے ۔