دھرم سیاست کی ارتھی پر ناچ رہا انسان

رشیدالدین

جبری تبدیلی مذہب …ناتھورام گوڈسے دیش بھکت

فرقہ پرست طاقتیں متحد… مسلم قیادتیں خواب غفلت میں

’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ اور ’’انڈیا فرسٹ‘‘ جیسے نعرے اور 10 برسوں تک فرقہ وارانہ سیاست کو ترک کرنے کا اعلان کرنے والے نریندر مودی کی زبان آج خاموش کیوں ہے؟ نریندر مودی نے جس دستور ہند کی وفاداری اور پاسداری کا حلف لیا تھا، ان کی قیادت میں 7 ماہ کی حکومت میں بارہا اس کی دھجیاں اڑائی گئیں لیکن مودی نے زبان نہیں کھولی۔ کیا یہی وہ اچھے دن ہیں جن کا مودی نے قوم سے وعدہ کیا تھا؟ کیا سماج کی مذہبی اساس پر تقسیم اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں نفرت کو اچھے دن کہا جائے گا؟ حکومت کے اقتدار کے 7 ماہ میں عوام کو جن تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا، اس سے یہ حقیقت عیاں ہونے لگی ہے کہ بی جے پی کی سیاسی سرپرست آر ایس ایس ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے خفیہ ایجنڈہ پر تیزی سے عمل آوری چاہتی ہے اور اسی مقصد کے تحت سنگھ پریوار اور تمام محاذی تنظیموں کو متحرک کردیا گیا۔ نریندر مودی وزیراعظم کی حیثیت سے سنگھ پریوار اور اس سے وابستہ افراد پر کنٹرول میں ناکام ہوچکے ہیں یا پھر یہ سب کچھ منصوبہ کا حصہ ہے اور وزیراعظم محض کٹھ پتلی ہیں۔ ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں سنگھ پریوار کی جلد بازی سے ظاہر ہوچکا ہے کہ مودی اور ان کی حکومت کے چہرہ پر ترقی کا نقاب ہے جو الٹنے لگا ہے۔ گزشتہ 7 ماہ میں وقفہ وقفہ سے اٹھنے والے تنازعات کی فہرست کافی طویل ہے لیکن نوبت یہاں تک آگئی کہ جس دستور میں اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے اور اس کی تبلیغ کی آزادی دی ہے، اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں اور عیسائیوں کی جبراً تبدیلی مذہب کی منصوبہ بندی کی گئی تاکہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے وجود کو ختم کردیا جائے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ نریندر مودی جن گاندھیائی نظریات کی دہائی دیتے رہے اور جن کے یوم پیدائش پر ملک میں صفائی ’’سوچھ بھارت‘‘ مہم کا آغاز کیا گیا، ان کے قاتل کو دیش بھکت کہا جانے لگا۔ اسے اچھے دن کہا جائے یا بدترین دن کہ بابائے قوم کا قاتل قومی ہیرو بن گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ناتھورام گوڈسے دیش بھکت بن جائے تو باقی تمام کا شمار ملک دشمنوں میں ہوجائے گا۔ آر ایس ایس ، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے وابستہ تنظیموں نے اترپردیش کے آگرہ میں غریب مسلم خاندانوں کے ہندو مذہب قبول کرنے کا ڈرامہ رچا۔ اس پروگرام کی نہ صرف تشہیر کی گئی بلکہ 25 ڈسمبر کو علی گڑھ میں اسی طرح کا ایک اور پروگرام منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ آگرہ میں جن مسلم خاندانوں کی تبدیلی مذہب کا دعویٰ کیا گیا ، ان خاندانوں نے اسلام ترک کرنے کی تردید کردی۔ دراصل سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے ان خاندانوں کو سرکاری مراعات کا لالچ دے کر مذہبی تقریب میں شرکت کیلئے مجبور کیا گیا۔ دھرم جاگرن منچ نامی تنظیم نے ایک سال میں ایک لاکھ مسلم اور عیسائیوں کو ہندو مذہب میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کیلئے عطیات وصولی کی مہم شروع کی گئی۔ عیسائی کو ہندو بنانے کا خرچ دو لاکھ اور مسلم کو تبدیلی مذہب کیلئے پانچ لاکھ کے خرچ کا تخمینہ مقرر کیا گیا۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور بی جے پی نے ان سرگرمیوں اور اس تنظیم سے لاتعلقی کے بجائے بالواسطہ طور پر تائید کی۔ پارلیمنٹ میں مباحث کے جواب میں حکومت نے ملک بھر میں تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کی تجویز پیش کی جو ملک کے دستور کے خلاف ہے۔ چونکہ سنگھ پریوار کو ہندو مذہب سے بڑے پیمانہ پر ہونے والے کنورشن پر تشویش اور دنیا میں اسلام کے تیزی سے پھیلاؤ سے پریشانی ہے، لہذا جبری تبدیلی مذہب کی سازش تیار کی گئی۔ مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے مباحث کا جواب دیتے ہوئے اپنے آر ایس ایس بیاک گراؤنڈ پر فخر کا اظہار کیا۔ پارلیمنٹ کے باہر بی جے پی ارکان نے تبدیلی مذہب کو ’’گھر واپسی‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ اس اعتبار سے بی جے پی اور حکومت میں شامل تمام مسلم قائدین کو گھر واپسی کے نام پر شاید مذہب تبدیل کرنا پڑے گا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کی ان کوششوں کا مقصد دراصل مذکورہ مذہبی اقلیتوں کو خوف زدہ کرنا ہے۔ دراصل بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد سنگھ پریوار بے قابو ہوچکا ہے۔ انتخابی مہم سے لیکر آج تک کئی تنازعات کھڑے کئے گئے جن کے ذریعہ ہندو ووٹ متحد کرنے کی کوشش کی گئی۔ نفرت اور عداوت کا پرچار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی باتیں نریندر مودی کرتے رہے لیکن نفرت کے ان سوداگروں کو سزا کے بجائے وزارت اور عہدوں سے نوازا گیا۔ مظفر نگر فسادات کے ملزم سنجیو بلیان کو مرکزی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ مودی مخالفین کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے والے گری راج سنگھ کو وزارت کا تحفہ ملا۔ سوامی ادتیہ ناتھ نے مسلمانوں کو گجرات اور مظفر نگر یاد رکھنے کی دھمکی دی تو انہیں یو پی انتخابی مہم کی کمان سونپی گئی۔ ونے کٹیار نے ناتھورام گوڈسے کو محب وطن اور مسلمانوں کی جبری تبدیلی مذہب کی تائید کی۔ مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے کشمیر کی دفعہ 370 کی برخواستگی کی وکالت کی ۔ ساکشی مہاراج نے ناتھورام گوڈسے کو مہاتما گاندھی کے برابر دیش بھکت قرار دیا۔ وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی نے نصابی کتب کو زعفرانی بنانے کی مہم شروع کی۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے ہندو مقدس کتاب گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دینے کی سفارش کی۔ لکشمی کانت باجپائی نے تاج محل کو مندر قرار دیا۔ یہ چند مثالیں تھیں جن کے ذریعہ ہندوتوا ایجنڈہ کو مسلط کرنے کی سازش کا پتہ چلتا ہے۔

نریندر مودی نے کسی بھی مسئلہ پر لب کشائی نہیں کی اور نہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جو سماج میں بانٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں اقلیتوں کی دلآزاری کی کوئی پرواہ نہیں، صرف حکومت اور پارٹی کی شبیہ بچانے کی فکر ہے۔ ظاہر ہے کہ جس پارٹی کے صدر اور وزیراعظم کا دامن بے داغ نہ ہوں وہ دوسروں کے خلاف کیا کارروائی کریں گے۔ سادھوی نرنجن جیوتی اور ساکشی مہاراج کا جرم ناقابل معافی تھا لیکن وزیراعظم بے بس دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے سادھوی کو یہ کہہ کر بچالیا کہ وہ پہلی مرتبہ منتخب ہوئی ہے لیکن چار مرتبہ لوک سبھا کیلئے منتخب ہونے والے ساکشی مہاراج کے بارے میں کیا کہیں گے ؟ سادھوی نرنجن جیوتی کی برطرفی کے تعلق سے اپوزیشن کا انحراف باعث حیرت ہے۔ آخر اس اصولی موقف سے اپوزیشن نے اپنے قدم کیوں پیچھے ہٹالئے۔ نام نہاد سیکولر جماعتوں کو بھی صرف وقتی سیاسی فائدے کی فکر معلوم ہوتی ہے۔ سادھوی کا مسئلہ ہندو یا مسلم کا نہیں تھا بلکہ انہوں نے تمام غیر بی جے پی جماعتوں کو حرام زادے قرار دیا تھا۔
آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد سے وابستہ ایک تنظیم نے مہاراشٹرا میں ناتھورام گوڈسے کے یوم پیدائش کو ’’شوریہ دیوس‘‘ کے طور پر منایا۔ اس مسئلہ پر جب اپوزیشن نے ہنگامہ کیا تو بی جے پی نے اس واقعہ کی مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ برخلاف اس کے کئی قائدین گوڈسے کی مداح سرائی میں آگے آئے۔ ساکشی مہاراج کے ذریعہ 60 برس بعد ہی سہی آر ایس ایس نے پہلی مرتبہ اس بات کو قبول کیا کہ ناتھورام گوڈسے ان کا نمائندہ تھا۔ آر ایس ایس کا بس چلے تو وہ گوڈسے کو بھارت رتن اعزاز کی سفارش کردیں گے۔ الغرض آر ایس ایس ہو کہ بی جے پی دونوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ گاندھیائی اصولوں کی آڑ میں درحقیقت گوڈسے کے وارث ہیں۔

اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں کی سرگرمیاں کوئی نئی بات نہیں۔ مرکز میں ہندوتوا کی طاقتوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے حوصلے اور بلند ہوگئے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے ان سازشوں کے مقابلہ کی کیا تیاری کی ہے؟ کیا وقتی طور پر رسمی احتجاج مسئلہ کا حل ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ مسلم قیادتوں چاہے وہ مذہبی ہوں کہ سیاسی ، دانشور ہوں کہ سماجی مصلح تمام کو اپنا محاسبہ کرنا پڑے گا کہ وہ قوم و ملت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو کس حد تک نبھا رہے ہیں۔ آگرہ میں مسلمانوں کی جبری تبدیلی مذہب کا واقعہ محض ایک آغاز ہے اور قیادتیں اسی طرح بے حسی کا مظاہرہ کریں تو یہ سلسلہ تیز ہوسکتا ہے۔ ہمیں محاسبہ کرنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو خیر امت کا جو اعزاز بخشا ہے، ہم اس کی کس حد تک پاسداری کر رہے ہیں۔ اقامت دین کے فریضہ کو آج ہم نے بھلا دیا جس کے نتیجہ میں اسلام پر تہذیبی حملے ہورہے ہیں۔ کیا ہماری مذہبی ، سیاسی اور سماجی قیادتوں کو خواب غفلت سے بیداری کا وقت نہیں آیا کہ وہ اپنے فریضہ اور منصب کا حق ادا کرنے کی فکر کریں۔ آگرہ کے واقعہ کے بعد دیوبند اور بریلی علماء وہاں پہنچے جو خوش آئند ہے لیکن اگر ملت کے مذہبی رہنما ، علماء ، مشائخ ، زعماء ، مفکرین ، مصلحین اور دانشور اپنے اپنے دائرہ تک محدود رہنے کے بجائے قوم کو اسلامی تعلیمات سے جوڑنے کا کام کرتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ کیا ہمارے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ فرقہ ، مسلک فقہی اور فروعی اختلافات سے ابھر کر اقامت دین کا فریضہ انجام دیں۔ غیروں تک پیام اسلام کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ خود اپنوں پر توجہ کی ضرورت ہے، تاکہ کسی بھی لالچ پر وہ اسلام سے انحراف کا تصور نہ کرسکیں۔ دینی مدارس ، خانقاہوں اور بارگاہوں کے ذمہ داروں کو اب گوشہ عافیت سے باہر نکلنا ہوگا۔ کب تک فرقہ بندی اور تنگ نظری کی عینک سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہیں گے۔ آگرہ کے غریب مسلمان چند لمحہ کے لئے سہی غیر اسلامی تقریب کا حصہ بن گئے اور دیوی دیوتاؤں کے ساتھ تصویر کشی کی۔ اس کے لئے دین سے دوری کا بہانہ آسان ہے لیکن قوم کے ذمہ دار اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے۔اب تو کئی اپنے بھی سمادھیوں اور دیوی دیوتاؤں کے پاس تصویریں کھچوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں متحد ہیں اور مسلمان مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اتحاد کے بغیر کس طرح مخالف اسلام سازشوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ؟ موجودہ صورتحال پر منظرؔ بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے ؎
گاندھی جی اب دیکھ لو آکر آپ کا ہندوستان
دھرم سیاست کی ارتھی پر ناچ رہا انسان