دکن کے جنیدی صوفیہ کرام

مصنف: پروفیسر سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ
مبصر: پروفیسر مجید بیدار سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد
ہنداور عرب کے تجارتی تعلقات زمانہ قدیم سے چلے آرہے ہیں۔ اور اس تجارت میں سب سے بڑا کردار عربوں نے ادا کیا تھا۔ یہ وہی عرب ہیں جنہوں نے سرکارﷺ کی بعثت کے بعد اسلام قبول کیا۔ یہ تجارتی سلسلہ اسلام کے منور ہونے کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔ ظاہر ہے کہ یہ عرب تجار مسلمان ہی تھے۔ اس کے شواہد ہمیں بزرگ بن شہریار، سلیمان دی مرچنٹ، ابن حوکل، مسعودی اور ابن بطوطہ کی کتابوں اور سفرناموں میں ملتے ہیں۔ہندوستانی کے مغربی اور مشرقی سواحل پر مسلمان نو آبادیات کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ جنوبی ہند میں اولاً تبلیغ اسلام کا کام قاضیوں ، مفتیوںاور اماموں نے انجام دیا۔ جنوبی ہند کے علاقے میں صوفیانہ تبلیغی کوششیں سولہویں صدی عیسوی کے آس پاس شروع ہوئیں۔دکن میں صوفیہ کرام کا ذکر ہمیں بارہویں صدی سے ملتا ہے ۔ شیخ منتجب الدین زرزری زر بخش کے ہمراہ 700 پالکیوں میں اور کچھ عرصے کے بعد ان کے چھوٹے بھائی شیخ برہان الدین غریب کے ساتھ 700 پالکیوں میں کئی افراد جن میں شیخ نظام الدین اولیاءؒ اور خود ان دونوں اصحاب کے مریدین اور خلفا شامل تھے ،دکن آئے اور یہیں کے ہورہے۔ اس حقیقت کا انکشاف مصنف نے اپنی کتاب میں بطور خاص کیا ہے ۔صوفیہ کرام کے شاندار کارناموں پر کئی ایک تذکرے لکھے گئے ہیں لیکن تحقیقی کام پر آج تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس سلسلہ میں جامعہ عثمانیہ سے وابستہ اور اس کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سلیمان صدیقی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے طالب ِ علمی کے زمانے میں شعبۂ اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ کر انگریزی زبان میں شائع کیا، جس کے بعد انہوں نے انگریزی سے وابستگی کے اس سلسلہ کو جاری و ساری رکھا۔ جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اسلامیات کے پروفیسر اور صدر شعبۂ اسلامیات کی حیثیت سے اور اپنے تین سالہ دور وائس چانسلرشپ میں نہ صرف درس و تدریس کا سلسلہ اپنے شعبہ میں جاری رکھا بلکہ تحقیقی کارنامے بھی انجام دیئے۔

ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی انھوں نے دکن کے جنیدی صوفیہ کرام پر ایک اہم تحقیقی کتاب کا تحفہ اہل علم کی نظر کیا ہے جسے بلاشبہ دکن کے صوفیہ کرام کی تاریخ میں منفرد مقام حاصل ہے۔ پروفیسر محمد سلیمان صدیقی کا ذہن ابتداء سے ہی تحقیق کے ہمہ جہت میدانوں کی سیر کرتا رہا۔ انھوں نے ہمیشہ بنیادی ماخذات پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے تحقیقی کارنامے انجام دیے۔ ان کی تحقیقی کتابیں مصدقہ مواد اور معیاری تحقیقاتی اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ دلیل اور ثبوت کے بغیر وہ کسی حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور نتائج اخذ کرنے کے معاملے میں بھی عقل و فراست کو کام میں لاتے ہوئے حد درجہ متوازن رویہ کے استعمال سے قاری اور سامع کو قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی حقیقت پسندی اور روحانی کشف و کرامات کو عوام کے روبرو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی اس زیر تبصرہ کتاب میں جنیدی بزرگان دین کی ظاہری، باطنی اور علمی خدمات کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔پروفیسر محمد سلیمان صدیقی کی کتاب ’’The Junaydi Sufis of the Deccan‘‘ عصری تقاضوں سے آراستہ ایک اہم تحقیقی کتاب ہے، جس کے ذریعہ انہوں نے دکن سے وابستہ جنیدی بزرگانِ دین کے کارناموں کو متعارف کروایا ہے اور ان شجرات کے مواد کے استناد کو داخلی و بیرونی شواہد کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ انگریزی کے مایہ ناز محقق اور مصنف کارل ڈبلیو ارنسٹ نے تحریر کیا ہے جو نارتھ کرولینا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔

ڈاکٹر محمد سلیمان صدیقی نے اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلا حصہ "Historical Insight from Two Rare Scroll” پر مبنی ہے ۔اس حصے میں ایک باب ہے جو "The Significance of the Two Scroll: A Review of Sources” پر مبنی ہے۔ اس کتاب کا دوسرا حصہ شجرہ ارادت و اجازت پیشوایانِ خود کے ترجمہ پر مبنی ہے ۔ جس میں پانچ ابواب ہیں جو حسب ذیل ہیں (1) شمالی ہند کے جنیدی صوفیہ کرام (2) سید السادات علی الحسینی جیوری اور ان کے خلفا (3) عین الدین محمد گنج العلم بلہوی اور ان کے مریدین، خلفا اور طلبا (4) عین الدین گنج العلم کی درگاہ کے سجادہ نشین اور (5) عین الدین گنج العلم کے پیر بھائی۔ اس کتاب کے تیسرا حصے میں زمانہ قدیم کے چشتی، قادری اور شطاری صوفیہ کرام کا ذکر ہے۔ جس کا ترجمہ بھی پروفیسر سلیمان صدیقی نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اس کتاب کے چوتھے حصے میں پروفیسر سلیمان صدیقی نے دو ضمیمے شامل کیے ہیں جو کہ 130 صفحات پر مبنی ہے جو کہ قارئین کی علمی تشنگی کو دور کرنے کے لیے لکھے گئے ہیں جس میں چشتی ، جنیدی اور قادری سلاسل پر ان کی 30 سالہ تحقیق کے شواہد ملتے ہیں۔ اس کتاب کے آخر میں انہوں نے اپنی تحقیق کے ذریعہ فرہنگ، کتابیات اور ناموں، جگہوں، کتابوں،تصاویر، موضوعات، نقشہ جات اور اصطلاحات کا اشاریہ دیا ہے۔

اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں فاضل محقق نے جنیدی سلسلہ کی خواتین صوفیہ کرام کا بھی ذکر کیا ہے ، جس کے تحت 10خواتین کے نام شامل کیے گئے ہیں، جو عین الدین گنج العلم کی بیٹیوں اور اہلِ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جو اس جنیدی سلسلہ کے فروغ میں اہم کردار نبھاتی ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے تین نایاب دستاویز بطور ثبوت پر پیش کیے ہیںجو کہ شیخ رکن الدین جنیدی کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک دستاویز دکن میں پائے جانے والے فارسی دستاویزات میں سب سے زیادہ قدیم تصور کیا جاتا ہے۔ دوسرے دستاویز کا تعلق بہمنی دور سے ہے جس پر شیخ محمد رکن الدین کا مہر ثبت ہے۔ تیسرا دستاویز اسد خان بندہ بادشاہ عالمگیر کی مہر سے جاری کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ محقق نے اس شجرے میں دیئے گئے نفحات الانس اور کشف المحجوب کے حوالے جات کو مطبوعہ کتابوں سے تقابل کیا اور درست پایا ہے۔ قارئین کی سہولت کے لیے مذکورہ بالا دونوں کتابوں کی نقولات بھی کتاب میں شامل کیے گیے ہیں تاکہ اس شجرے میں فراہم کردہ معلومات کے صحیح ہونے کی دلیل فراہم کی جاسکے تاکہ کتاب کی اہمیت اور افادیت میں مزید اضافہ ہوجائے۔ خاندانی شجروں کے ساتھ اس کتاب میں روحانی تصرفات کے بجائے انسانیت کے لیے صوفیائے کرام کی خدمات کو تاریخی حقائق کی روشنی میں دہرایا گیا ہے۔

اس کتاب میں جنیدی صوفیہ کرام کے اقوال زرین بھی شامل ہیں جو ان کے روحانی، علمی اور فکری رجحانات کو اُجاگر کرتے ہیں۔ اس ضخیم اور معرکۃ الآراء کتاب کی ہندوستانی قیمت 1195 روپئے مقرر ہے اور یہ کتاب پریمس بکس، ویراٹ بھون مکرجی نگر، کمرشیل کمپلیکس دہلی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ پریمس بکس کی بے شمار شاخیں ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں واقع ہیں جن میں حیدرآباد ، ممبئی اور وارانسی ہی نہیں بلکہ جئے پور اور کانپور بھی شامل ہیں۔ غرض دکن کے جنیدی صوفیہ کرام کی خدمات کو انگریزی زبان میں منتقل کرنے کی پروفیسر محمد سلیمان صدیقی کی اس تحقیق کی ستائش کی جانی چاہیے۔ اس نادر و نایاب انگریزی کتاب کا اُردو ترجمہ بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے ۔ توقع ہے کہ ہندوستان کی دوسری زبانوں کے علاوہ دیگر یوروپی زبانوں میں بھی اس کتاب کا ترجمہ کیا جائے گا۔ عصر حاضر کی ضرورت کے مطابق فارسی اور اردو میں صوفیہ کرام پر لکھی جانے والی نادر و نایاب کتابوں کو انگریزی میں منتقل کرنے کا منصوبہ تیار کیا جانا چاہیے، تاکہ صوفیہ کی خدمات کو چاردانگ عالم میں متعارف کروایا جاسکے۔ یوروپ کی نئی نسلوں کو بزرگانِ دین کی خدمات سے آگاہی دینے کے لیے یہ ایک اہم ذریعہ ہے کہ جس کے وسیلے سے اسلامی تعلیمات اور روحانیت کو ساری دنیا متعارف کروایا جاسکتا ہے۔ توقع ہے کہ وقت کی اس ضرورت پر توجہ دیتے ہوئے خانقاہی نظام سے وابستہ حضرات ضرور اس کام کی تکمیل کے معاملے میں پیشرفت کریںگے۔