دکن کا خسروؔ

غوثیہ سلطانہ (شکاگو )
1994 ء کی نہیں، یہ ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے جب کہ ہرہفتے کے آخر میں امیر احمد خسروؔ (مرحوم) کے ساتھ مشاعروں میں رت جگے منانے جارہے تھے۔ اُن کی آمد پر شکاگو کی سرزمین پر ایک پیاری سی ادبی لہر دوڑ گئی تھی۔ یکجہتی اور ملاپ کی خوشبو مہک گئی تھی ۔ پھر وہ ہندوستان واپس چلے گئے ۔ اپنی شخصیت اور شعر و نغمات کے کبھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ گئے جس کا اندازہ ہم آج کی اس سوگوار شام سے لگا سکتے ہیں ۔ ادھر کچھ دنوں سے ہوا کے دوش پر اس بات کی مہک آرہی تھی کہ وہ پھر آنے والے ہیں اور اس طرح گلی گلی محلہ محلہ شعر و ادب کے چرچوں میں ڈوبنے والا ہے، لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے ۔ انہیں تو کسی اور سفر پرجانا تھا ۔ خدا غریق رحمت کرے (آمین) انا للہ و انا الیہ راجعون

اکثر ہوایوں جب کہ USA کے شہروں میں چرچے ہونے لگتے ہیں اور شعراء کرام کے آنے کی دھوم مچی رہتی ہے ۔ لیکن خسروؔ چپکے سے چلے آئے جیسے ولیؔ دکنی کی زبان میں کہ ’’ سینے میں راز آتا ہے ‘‘USA کے اس عہد رفتہ کی اردو دنیا کے چھدرے آسمان پر وہ شہاب ثاقب کی طرح ٹوٹ کر گرے اور چمک کر غائب ہوگئے ۔ قفس و آشیاں ،گل و بلبل کے سطحی تذکرے تو مل جاتے ہیں لیکن عہد رفتہ پر اپنی چھاپ لگانے کا ہنر ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ بلکہ مخصوص ہے اہل دل کیلئے ۔ یہ وصف، متاع عام نہیں۔ ہندوستان کی سوندھی مٹی میں جنم لینے والا یہ شاعر زبان اردو کی رہتی دنیا تک قائم رہے گا ۔ ایک انسان چاہے رہے نہ رہے جسم خاکی کے رہنے اور نہ رہنے سے فرق نہیں پڑتا لیکن ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کہلاتی ہے۔امیر احمد خسروؔ غزل کے شاعر ہیں لیکن ان کے خیالات کی تفسیر اور تعبیر مختلف انداز سے ممکن ہے جس کے افکار پھیلے ہوئے ہیں جس کے اندر فکر کی تہیں و بیز ہیں وہ مذہب اور عقیدت سے سرشار ہیں۔ تاریخ کے اوراق سامنے لاتے ہیں ۔ سیاست سے بھی کبھی نا معلوم انداز میں اپنا دامن الجھاتے ہیں۔ ہر چند کہ ہر ایک کا اندازِ فکر الگ ہوتا ہے، ان کے ذہن پر افکار پر مقامی اور عالمی واقعات کے اثرات اور ان کے رد عمل کا اثر ان کی تخلیقات پر مرتب نظر آتا ہے ۔غالباً یہ 1972 کی بات ہے ۔ امیر احمد خسرو پروگرام ایگزیکٹیو ،بھوپال سے ،نشر گاہ حیدرآباد تبادلہ کر کے آئے تھے ۔ وہ حیدرآبادی ہونے کے باوجود لہجے میں اتر پردیش والا انداز رکھتے تھے کیونکہ ماہر لسانیات کا خیال ہے کہ زبان پر ہوا اور پانی کا اثر ضرور پڑتا ہے جس سے لہجے میں تبدیلی آجاتی ہے ۔ سیرت اور شخصیت کی تعمیر میں ، نسلی و جسمانی خصوصیات کے علاوہ ماحول اور تربیت کا بڑا اثر پڑتا ہے ۔ زندگی کے حادثات و واقعات اس کی شخصی زندگی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔

خسرو صاحب کو تصوف سے رغبت تھی۔ ایک سچے اور پختہ عقیدے کے مسلمان تھے۔ خسروؔ صاحب کو انگریزوں کی حکومت کا مشرقی علوم اور ادب کے ساتھ نا انصافی کا احساس تھا ۔ ان کے خیال میں مشرقی علم و ادب کے عالموں کے سینے ، حکومت برطانیہ کے طرز عمل سے چھلنی ہوگئے تھے ۔ انہیں ہندوستان کے مسلمانوں کی پریشانیوں کا بھی احساس تھا جس کا تذکرہ وہ اکثر اپنے قریبی احباب کی محفلوں میں کیا کرتے تھے۔ خسرو صاحب کم گفتار مگر نظر کے کانٹے سے سبک گراں کا انتخاب کرلیتے تھے اور مزاج میں کھراپن تھا۔ قناعت پسند تھے ۔ ان کے دل میں انسانی درد اور محبت کے شریفانہ جذبات تھے۔ میرؔ یا جگرؔ کی طرح ’’بے عشق زندگی و بال اور عشق میں دل کھو بیٹھنا کمال ‘‘ نہیں سمجھتے تھے ۔ دراصل انہو ںنے ریٹائرمنٹ کے بعد مشاعروں میں شرکت اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کیا تھا ۔ آل انڈیا ریڈیو کی مصروفیت اور سرکاری بندشوں نے شاید اس وقت کھل کر شاعری کرنے کا موقع نہ دیا ہو ۔ وہ ایک وضعدار تہذیب کے مالک تھے ۔ اپنے ساتھی شعراء کا بہت خیال اور پاس و لحاظ رکھتے تھے ۔ چھوٹوں سے شفقت کا برتاو کرتے تھے ۔ہر موقع پر اشعار سنایا کرتے تھے اور بے موقع بات کبھی نہیں کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں غم دوراں اورغم جاناں کے درد کے علاوہ نعتیہ کلام میں مدحت کے پھول بھی بڑی عقیدت سے کھلائے ہیں ۔خورشید احمد جامیؔ ، ان کے بڑے بھائی نے بھی شاعری میں میدان مارا تھا ۔ ان کے کئی شاگرد آج بھی موجود ہیں۔ جامیؔ نے اپنی زندگی اردو شاعری کیلئے وقف کردی تھی۔ جامیؔ کی طرح خسروؔ بھی اپنے ساتھی شعراء کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن ’’ادبی سیاست‘‘ سے بددل نظر آتے تھے ۔ بقول شاعر

چوٹ لگنے کو تو لگتی ہے سبھی سینوں پر
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے
سچ تو یہ ہے کہ غم سب کو مشترک ہوتے ہیں لیکن حوصلے ایک نہیں ہوتے کوئی بکھر کر رہ جاتا ہے تو کوئی مسکرا دیتا ہے اور مسکرا دینے والا اپنی گہری چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔
1994 ء میں جب انہیں USA آنے کا موقع ملا تو مجھے بھی فون کیا ۔ پھر مشاعرہ میں ڈائس پر بیٹھا دیکھنے پر مجھے خیال آیا کہ اُن پر موسم خزاں کی بھر پور بہار موجود ہے ۔ کچھ دیر بعد اسٹیج سے اتر کر نیچے سامعین میں آئے ۔ مجھ سے بھی ملے ۔ 76سال کی عمر میں آگیا ہوں ۔چراغ سحری ہیں یا۔ (وہ کہہ رہے تھے ) میں نے دیکھا یہ وہی آل انڈیا ریڈیو والی شخصیت ہے ۔ جھکی جھکی سی نگاہیں ،رکا رکا سا انداز ،جیسے اخلاص کی دولت چھپا چھپا کر بانٹ رہے ہوں ۔ ایسی انسان دوست، شریف النفس شخصیتیں ٹوٹ ٹوٹ کر سنور سنور کر بنتی ہیں۔ہاں ، شاید پھر روزانہ شعر و سخن کی محفلیں گرم ہوںگی ،عصر و مغرب کے درمیان تمام شعراء جمع ہوں گے لیکن وہ اب نظر نہیں آئے گا جس کے اشعار آپس میں مربوط ہیں اور بولتا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسے میٹھے پانی کا چشمہ ابل رہا ہے، اپنی شاعری کے تخت رواں پر سامعین کو بٹھانے اب وہ نہیں آئے گا ۔ وہ چلا گیا لیکن اپنی یاد دلوں پر ثبت کر گیا ۔ خدا غریق رحمت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ۔ آمین ۔
انتقال کے وقت وہ 78 سال کے تھے ۔ اتنی لمبی عمر پانا بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔