تبصرہ نگار : سید امتیاز الدین
ہماری بے شمار کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم کبھی کوئی رسالہ کوئی کتاب پوری نہیں پڑھتے ۔ بس عنوانات دیکھتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں کسی عنوان میں دلچسپی معلوم ہوئی اس مضمون کو پڑھنے لگتے ہیں ۔ آج کل کتابوں اور رسائل کی ایسی بھرمار ہے کہ اگر کوئی کتاب یا رسالہ پورا پڑھنا چاہے تو اس کی آنکھیں جواب دے جائیں (دماغ تو پہلے ہی جواب دے چکا ہے) ۔ کچھ دن ہوئے مجتبیٰ حسین صاحب نے بتایا کہ پاکستان کا ایک رسالہ اُن کا گوشہ شائع کررہا ہے ۔ہم نے ان کی بات سنی ان سنی کردی کیونکہ ان کے بارے میں اب تک اتنا لکھا جاچکا ہے کہ غالبیات اور اقبالیات کے بعد اب مجتبیات کی باری لگتی ہے ۔ کئی اسکالرس ان پر پی ایچ ڈی کرچکے ہیں ۔ بہت سے کررہے ہیں اور بہت سے لائین میں کھڑے ہیں ۔ ہم خود محمد تقی صاحب کے اشتراک سے مجتبیٰ حسین کے فن اور شخصیت پر دو کتابیں مرتب کرچکے ہیں گو کہ ہم نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل نہیں کی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اردو سے ایم اے کیا ہی نہیں کہ پی ایچ ڈی کی نوبت آتی ۔ بس تحقیق کی دنیا میں چور دروازے سے داخل ہوئے اور مجتبیٰ حسین کے بارے میں دو ضخیم کتابیں مرتب کرنے کے بعد مستقبل کے ریسرچ اسکالرس کے لئے تھوڑا سامانِ راحت فراہم کرکے فقیرانہ آئے صدر کرچلے ۔
خیر تو بات چل رہی ہے دو ماہی رسالہ چہارسو کی جو راولپنڈی سے شائع ہوتا ہے ۔ اس وقت ہمارے سامنے جنوری ۔ فبروری 2015ء کا شمار رکھا ہے ۔ ضخامت 120 صفحات ہے ۔ اس رسالے کے بانی مشہور شاعر ضمیر جعفری تھے ۔ رسالہ معیاری ہونے کے علاوہ منفرد بھی ہے ۔ رسالے کی اشاعت کے ساتھ ہی تمام مشمولات انٹرنیٹ پر آجاتے ہیں یعنی چہارسو پھیل جاتا ہے ۔ آپ نے اکثر رسائل پر مدیر یا مدیران کی فہرست کے ساتھ مجلس مشاورت بھی دیکھی ہوگی ۔ آپ نے یہ دیکھا ہوگا کہ مجلس مشاورت میں بالعموم صاحب زر یا ذی اثر اصحاب کے نام شامل ہوتے ہیں ۔ اس رسالے کی خوبی یہ ہے اس کی مجلس مشاورت اس کے قارئین ہیں ۔ قیمت فی پرچہ یا زر سالانہ کی بجائے یہ خوش خبری دی گئی ہے کہ اگر آپ دل مضطرب اور نگاہ شفیقانہ رکھتے ہیں تو یہ پرچہ بلاقیمت پیش ہے ۔ اردو کے قاری کو اور کیا چاہئے ۔ ہم بھی تازہ شمارے پر نگاہ شفیقانہ ڈالتے ہوئے اگلے پرچے کے لئے دل مضطرب لئے بیٹھے ہیں ۔ رسالے کے مدیر گلزار جاوید صاحب ہیں ۔
چہارسو کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ شاید اس کے ہر شمارے میں کسی مشہور اہل قلم کا گوشہ شامل رہتا ہے ۔ اس بار برصغیر کے ممتاز طنزو مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے فن اور شخصیت پر کم و بیش پچاس صفحات وقف کئے گئے ہیں ۔ سوانحی خاکہ ، منظوم خراج تحسین، مجتبیٰ حسین کا ایک خاکہ ، انشایئے ، مجتبیٰ حسین پر خواجہ حسن ثانی نظامی ، پروفیسر گوپی چند نارنگ ، شمس الرحمن فاروقی ، فکر تونسوی ، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ، دلیپ سنگھ ، پروفیسر شہریار ، مشفق خواجہ ، انور سدید ، ڈاکٹر مصطفی کمال کے مضامین ، زاہد علی خان مدیر سیاست ، ڈاکٹر مظفر حنفی ، نریندر لوتھر ، پروفیسر نثار احمد فاورقی ، یوسف ناظم ، پروفیسر بیگ احساس ، پروفیسر آل احمد سرور ، جاپانی پروفیسر سوزوکی تاکیشی ، زبیر رضوی ، سلیمان اطہر جاوید اور عتیق اللہ کے اقتباسات اس سلیقے اور توازن کے ساتھ شامل کئے گئے ہیں کہ اس ممتاز مزاح نگار کے فن اور شخصیت کی مکمل تصویر قاری کے ذہن میں ابھرتی ہے ۔ تصویر پر یاد آیا کہ سرورق پر اور ٹائیٹل والے آخری صفحے پر مجتبیٰ حسین کی کچھ تصاویر مختلف مشاہیر کے ساتھ دی گئی ہیں ۔ رسالے کے ایڈیٹر گلزار جاوید کا ایک مختصر نوٹ بھی شامل ہے جس میں انھوں نے اس گوشے کی ترتیب و تدوین میں نندکشور وکرم کے تعاون کا شکریہ ادا کیا ہے ۔
مجتبیٰ حسین کے گوشے میں کئی اہل قلم نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں اور بڑے پتے کی باتیں لکھی ہیں ۔ دوچار باتیں آپ بھی سنئے :۔’’مجتبیٰ حسین کی مزاح نگاری نے ایسے ایسے لوگوں کو مزاح پڑھنے اور سمجھنے پرمائل کیا جن سے کبھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ یہ شریفانہ رویہ اختیار کرسکیں گے‘‘ ۔ یوسف ناظم
’’دہلی بلکہ ہندوستان میں کوئی جائز کام اور ضرورت پر ناجائز کام بھی آپ کو کرانا ہو تو مجتبیٰ سے رجوع کیجئے‘‘ ۔ شہریار
’’مخدوم محی الدین کے بعد مجتبیٰ حسین وہ واحد فن کار ہیں جنھیں حیدرآبادیوں نے ٹوٹ کر پیار کیا ہے ۔ جو بات انھوں نے مخدوم صاحب کے بارے میں لکھی تھی وہ اُن پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے ۔ ’’مخدوم کو حیدرآباد سے بے پناہ پیار تھا جسے وہ ہمیشہ وطن مالوف کہا کرتے تھے ۔ حیدرآباد مخدوم کے اندر تھا اور مخدوم حیدرآباد کے اندر ۔ حیدرآباد کی گلی گلی میں ان کے چرچے تھے ۔ حیدرآبادیوں نے انھیں ٹوٹ کر چاہا بھی‘‘ ۔ پروفیسر بیگ احساس
’’معاصر ظریفانہ ادیبوں میں دو ہی چار ایسے ہیں جنھوں نے طنز و مزاح کی ادبی حیثیت کو دوبارہ مستحکم کیا ہے ۔ ایسے لوگوں میں مجتبیٰ حسین کا نام بہت نمایاں ہے‘‘ ۔ شمس الرحمن فاروقی
’’مشتاق احمد یوسفی نے مجتبیٰ حسین کی تین خوبیاں بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ قلم برداشتہ لکھتے ہیں ، دوسرے اُن کے ہاں تکرار کا عمل نہیں ہے ، تیسرے اُن کی تحریروں میں تر و تازگی برقرار ہے ۔ ہمارے دور کے سب سے بڑے مزاح نگار اور طنز نگار کا مجتبیٰ حسین کو یہ خراج تحسین قابل ذکر ہے‘‘ ۔ آل احمد سرور
ان اقتباسات کو دینے کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ مجتبیٰ حسین مستند نقادوں یا ادیبوں کی تعریف و توصیف کے محتاج ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف ادیبوں کے نقاط نظر کا احاطہ ہوجائے ۔ ہمارے لئے مسرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چہارسو میں کئی ادیبوں ،شاعروں کے گوشے شائع ہوچکے ہیں لیکن حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے کسی ادیب یا شاعر کا گوشہ اب تک شائع نہیں ہوا تھا ۔ گوشے کے مرتبین نے جس محنت سے مضامین کا انتخاب کیا ہے اس سے یہ گوشہ مختصر ہونے کے باوجود نہایت مکمل اور متوازن ہے ۔ رسالے کے دوسرے حصے میں مختلف افسانے ، نظمیں ، غزلیں اور مضامین شامل ہیں جن کی شمولیت سے چہارسو ایک مکمل ادبی جریدہ بن کر سامنے آیا ہے جو اس قابل ہے کہ نہ صرف اسے وقتی طور پر پڑھا جائے بلکہ اس کی ادبی اہمیت کے پیش نظر محفوظ کیاجائے ۔