لاٹری کے نام پر عوام کو لوٹا جارہا ہے، سائبر کرائم کنٹرول بے بس
حیدرآباد 21 ستمبر (سیاست نیوز) دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں ایک مرتبہ پھر سائبر دھوکہ دہی کے معاملات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کے نام سے ایس ایم ایس کے ذریعہ لاٹری کی اطلاع دیتے ہوئے عوام کو لوٹنے کی کوششیں آئے دن بڑھتی جارہی ہیں لیکن سائبرکرائم کنٹرول کی جانب سے اِس مسئلہ کو حل کرنے میں کئی ایک دشواریاں پیش آتی ہیں چونکہ ا س طرح کے ایس ایم ایس یا ای میل بعض ایسے ممالک سے کئے جاتے ہیں جن کے نام تک کبھی سننے میں نہیں آتے۔ کوکاکولہ لاٹری، ٹویوٹا لاٹری، بی بی سی لاٹری اور اِسی طرح کے کئی ناموں سے کروڑوں روپئے کی لاٹری جیتنے کی اطلاعات ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعہ موصول ہوتے ہی اکثر افراد لالچ کا شکار ہوجاتے ہیں اور مذکورہ ایس ایم ایس اور ای میل کو صحیح سمجھتے ہوئے اِس لالچ میں آکر دھوکہ بازوں کی جانب سے دی جانے والی ہدایتوں پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں روپئے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ متعدد مرتبہ ای میل کے ذریعہ یہ باور کروایا جاتا ہے کہ لاٹری کے لئے منتخب شخص کو صرف اپنی مکمل تفصیلات روانہ کرنی ہیں لیکن ایسے ای میل کا جواب دینے کی صورت میں بھی وہ دھوکہ دہی کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ سائبر دھوکہ دہی ماہر اِن تفصیلات کے ذریعہ ای میل اکاؤنٹ میں موجود تمام ای میلس تک رسائی حاصل کرتے ہوئے تفصیلات جمع کرلیتے ہیں اور اُس کا غلط استعمال بھی ممکن ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور طریقہ سے لالچی افراد کو دھوکہ دہی کا شکار بنایا جارہا ہے اُس طریقہ کے ذریعہ لاٹری جیتنے والوں سے خواہش کی جاتی ہے کہ وہ لاٹری کے رجسٹریشن کی رقم جمع کروائیں اور جب وہ دیئے گئے اکاؤنٹ میں رجسٹریشن کی رقم جمع کرواتے ہیں تو اُنھیں بعض ایسے مقامات کے ٹیکسیس سے مطلع کیا جاتا ہے جن سے بیشتر لوگ واقف نہیں ہوتے۔ اُنھیں یہ کہا جاتا ہے کہ جیتی گئی رقم کے حصول کے لئے اُن ٹیکسیس کا ادا کرنا لازمی ہے اِسی لئے ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں لاکھوں روپئے اکاؤنٹ کے ذریعہ منتقل کروالئے جاتے ہیں۔ حیدرآباد سائبر کرائم کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اِس طرح کے جرائم کا راست روکا جانا بے انتہا مشکل ہے چونکہ لالچی افراد دھوکہ دہی کا شکار ہونے کے بعد پولیس تک پہونچنے میں جو وقت لگاتے ہیں اُس دوران میں وہ ای میل آئی ڈی اور ایس ایم ایس غیر کارکرد ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اُن تک رسائی ناممکن ہے۔ اگر اُن کی نشاندہی ہو بھی جاتی ہے تب بھی اُنھیں دوسرے ملکوں سے یہاں منتقل کرنا ایک انتہائی مشکل ترین عمل ہے۔ عہدیداروں کی جانب سے بارہا اِس طرح کے ایس ایم ایس، ای میل سے چوکنا رہنے کی خواہش کی جاتی رہی ہے کیونکہ اِس طرح کی دھوکہ دہی کا شکار ہونے سے عوام کو بچانے کیلئے واحد راستہ ایسے ایس ایم ایس اور ای میل پر ردعمل ظاہر نہ کرنا ہے۔ ای میل سرویس فراہم کرنے والی کمپنیاں جی میل، یاہو، ریڈیف کے علاوہ دیگر کمپنیوں کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً اِس بات سے متنبہ کیا جاتا ہے کہ عوام اِس طرح کے ای میل وغیرہ سے چوکنا رہیں اور کسی بھی ای میل کے ذریعہ تفصیلات طلب کرنے پر مکمل تفصیلات فراہم نہ کریں بالخصوص سیل فون کمپنیوں کے ناموں کے علاوہ بینکوں کے ناموں سے ای میلس موصول ہوتے ہیں جوکہ عمومی طور پر فرضی ناموں کا استعمال کرتے ہوئے تیار کئے جاتے ہیں اور تفصیلات روانہ کرنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ اِس طرح کے ای میلس کا اُس وقت تک جواب دینا درست نہیں ہے جب تک یہ یقین نہ ہو کہ جو کمپنی خواہ وہ سیل فون کمپنی ہو، بینک ہو یا کوئی گاڑی کا شوروم جسے ای میل موصول ہوا ہے اُس سے رابطہ کا خواہشمند نہ ہو۔ اس بات کا خصوصی خیال رکھا جانا چاہئے کہ کسی بھی کمپنی کی جانب سے آن لائن یا ای میل کے ذریعہ تفصیلات دریافت اُس وقت تک نہیں کی جاتی جب تک رابطہ قائم کرنے والے شخص سے فون پر بات چیت نہیں ہوجاتی۔