محمد افسر علی پٹیل
حالیہ عرصہ میں ایم ایل اے کوٹہ کے تحت ہوئے ایم ایل سی انتخابات کے دوران ایک ایم ایل اے کو بھاری رقم دینے کا معاملہ سیاسی حلقوں میں ایک تہلکہ مچا رکھا ہے ۔ انتخابات کے دوران دولت کے بے دریغ استعمال سے کئی طرح کے لالچ کا سلسلہ اگرچہ کہ ہمارے سیاسی معاشرہ میں پرانی بات ہے لیکن پچھلے دو ہفتے قبل تلنگانہ میں ہوئے ایم ایل سی انتخابات کا معاملہ ایک انوکھا موڑ اختیار کرگیا ہے ۔ انتخابات چاہے کوئی بھی ہوں پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک ان میں دولت کی ہی کارفرمائی ہوتی ہے۔ نام نہاد سیاسی جماعتیں جو ہر لمحہ بے داغ قائدین کے انتخاب کے حق میں وظیفے پڑھتی ہیں خود ایسی تمام جماعتیں اپنے امیدواروں کے انتخاب کے دوران ان کے معاشی پس منظر کو دیکھ کرہی اپنی جماعت کا ٹکٹ دیتی ہیں ۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کو سیاسی میدان میں اپنے قدم جمانے ہوں تو وہ پہلے دولت مند بنے چاہے وہ دولت کسی طرح سے بھی کمائی ہوئی ہو ۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اصولوں میں اور ان کو روبہ عمل لانے کے طریقہ کار میں کتنا تضاد پایا جاتا ہے ۔ اگر کوئی قائد اچھی صلاحیتیں اپنے پاس رکھتا ہے مگر وہ تب تک ایم ایل اے یا ایم پی نہیں بن سکتا جب تک کہ پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے اس جماعت کے سربراہ کو مہیا نہیں کرتا ۔ چاہے وہ دولت لوٹ کھسوٹ کی ہو یا ناجائز طریقہ سے کمائی ہوئی ، اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ۔ کیونکہ دولت سے کسی کو بھی خریدا جاسکتا ہے ۔
پچھلے دنوں تلگو دیشم کے ریونت ریڈی نے اسٹیفن کو رقم دیتے ہوئے اے سی بی عہدیداروں کے ہاتھوں پکڑے گئے ۔ ایوان مقننہ میں قوانین کو مدون کرنے والے عوامی نمائندے جو جمہوری عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ان کا رویہ اگر ایسا ہوتا ہے تو ایک عام شہری کا بھروسہ ان قائدین پر اٹھ جاتا ہے تو وہ تعجب خیز نہیں ۔
سیاست میں کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے ۔ ریونت ریڈی ٹی آر ایس کی ناکامیوں کی نشاندہی کرنے میں مصروف تھے جو ٹی آر ایس سربراہ و چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر چندر شیکھر راؤ کو پسند نہیں تھا ۔ اسمبلی کے بجٹ سیشن کے دوران بھی ریونت ریڈی کے بشمول تلگودیشم کے اراکین اسمبلی کو پورے سیشن کے اختتام تک معطل کردیا تھا بہرحال تلگودیشم اور ٹی آر ایس میں سیاسی رقابت کا سلسلہ تو تھا ہی دریں اثنا ٹی آر ایس کو موقع ملا کہ ریونت ریڈی اور اسٹیفن کے معاملے کو خوب اچھالا گیا ۔ جس کے تحت ریونت ریڈی نے اپنے آپ کو قانونی چارہ جوئی سے محفوظ نہیں رکھ پائے ان کو عدالتی تحویل میں لے لیا گیا ۔
ریونت ریڈی ہو یا کوئی اور ایسے سیاسی اعمال پر ان کی سرزنش ہونی چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سارے قائدین الیکشن کے دوران بغیر کسی دھاندلی کے منتخب ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ سب قائدین بھاری رقومات لٹا کر ہی اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں ۔ ان تمام کو باہر لانے کی ضرورت ہے اور ایسے قوانین مدون کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت کوئی بھی سیاسی قائد روپیہ کا لالچ ہرگز نہ دے سکے تب ہی تو دولت پر چلنے والی سیاست پر لگام لگائی جاسکتی ہے ۔ صرف ریونت ریڈی ہی نہیں بلکہ ماضی قریب میں جن قائدین نے ہزاروں کروڑ روپے چندے کے نام پر وصول کئے ان کا ریکارڈ بھی باہر لانا ضروری ہے ۔
ریونت ریڈی اور اسٹیفن معاملے کے پس پشت میں آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کے ہونے کا شبہ ہے جبکہ چندرا بابو نائیڈو اس معاملے سے اپنے آپ کو لاتعلق بتارہے ہیں ، کوئی بھی شخص ماورائے دستور نہیں ۔ اگر چندرا بابو نائیڈو اس معاملے میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے ۔ اس معاملہ کو مرکز سے رجوع کیا گیا اور دونوں چیف منسٹر ایک دوسرے پر تنقید کررہے ہیں ۔ ریونت ریڈی اور اسٹیفن معاملہ قانونی دائرہ کار میں ہے تویہ دونوں کیوں اپنی اپنی جگہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ۔ تنقید برائے تنقید ہونی چاہئے لیکن جس طرح یہ دونوں چیف منسٹرس آپس میں سخت لفظی جھڑپ میں اپنے آپ کو جھونک رہے ہیں وہ باعث ندامت ہے ۔
سیاسی قائدین یہ نہ بھولیں کہ جو کچھ ہورہا ہے عوام ان امور کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور عوام ہی جمہوری نظام میں بادشاہ گر ہیں ۔ ہر پانچ سال کی میعاد کے اختتام پر قائدین چاہے وہ اقتدار کے بڑے سے بڑے عہدہ پر فائز ہوں ان کو عوام کی دہلیز پر آنا ہوتا ہے ۔ قائدین اس خیال کو ذہن میں رکھ کر روز و شب کے مراحل طے کریں تو بہتر ہوگا ورنہ عوام کے غیظ و غضب کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہوگا ۔ نہ صرف ریونت ریڈی اور اسٹیفن کے معاملہ پر عوام کی نظر ہے بلکہ ان تمام سیاسی قائدین پر بھی عوام کی توجہ ہے جنہوں نے ماضی میں کئی دھاندلیاں کی ہیں ۔ ان سب کو اپنے دستوری حق ووٹ کے ذریعہ شکست دینے کے لئے تیار ہیں ۔ اب سیاسی قائدین پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کے ردعمل عوام کی جانب سے چاہتے ہیں ۔ عوام ہمیشہ صاف و شفاف معاشرہ اور ماحول کے حق میں ہوتے ہیں ۔ عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے سیاسی قائدین بھی اس کا خیال رکھیں گے تو جمہوریت کے نظام کو مستحکم کرنے میں سیاسی قائدین کو سراہا جائے گا ۔ دولت کی ایما پر چلنے والی سیاست سے معاشرہ میں بھیانک جرائم رونما ہونے کا اندیشہ ہے جس پر عام شہری دن بہ دن سیاسی معاملوں سے بدظن ہوتا جارہا ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ دولت کی سیاست کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک ؟؟