برقی شرحوں اور بس کرایوں میں اضافہ مخالف عوام فیصلہ
اپوزیشن کو اُبھرنے کا موقع
محمد نعیم وجاہت
چیف منسٹر کے سی آر نے ابھی کچھ دن پہلے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ نئی ریاست تلنگانہ دولت مند اسٹیٹ ہے اور دولتمند ریاستوں کی فہرست میں ہندوستان کی 29ویں ریاست تلنگانہ کو دوسرا مقام حاصل ہے۔ گذشتہ سال اپریل ۔ مئی میں آمدنی 6.031کروڑ تھی اور جاریہ سال آمدنی بڑھ کر 1656 کروڑ روپئے تک پہونچ گئی ہے۔ اگر آمدنی کا یہی سلسلہ جاری رہا تو مالیاتی سال کے اواخر تک آمدنی بڑھ کر 11.5000 کروڑ تک پہونچ جائے گی۔ مختلف محکمہ جات اسٹامپس اینڈ ریونیو کی آمدنی 64فیصد ہے۔ شراب سے متعلق ایکسائیز ڈپارٹمنٹ کی آمدنی 120 فیصد تک پہونچ گئی ۔ لکثرری ٹیکس کی آمدنی36 فیصد ہوئی تو سیل ٹیکس کی آمدنی 17فیصد زائد ریکارڈ ہوئی ہے۔ ان اعداد و شمار کو پیش کرتے ہوئے چیف منسٹر کے سی آر نے اعلان کیا کہ آئندہ تین سال بعد ریاست تلنگانہ کا مجموعی بجٹ 5لاکھ کروڑ روپئے ہوجائیگا۔ چیف منسٹر کے اس اعلان سے تلنگانہ کے عوام میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ غریب عوام راحت کی سانس لے رہے تھے، سرکاری ملازمین فٹمنٹ کے بقایا جات حاصل ہونے کی اُمید کررہے تھے اور بیروزگار نوجوان طبقہ روزگار کے زیادہ مواقع حاصل ہونے کی اُمید کررہا ہے۔ اس اعلان کے ایک ہفتہ بعد سنہرے خواب دکھانے والی ٹی آر ایس حکومت نے اپنے اقتدار کے دو سال کی تکمیل کے ٹھیک 22دن بعد آر ٹی سی بسوں کے کرایوں میں 10فیصد اور برقی کی شرحوں میں 7.5 فیصد اضافہ کرتے ہوئے ریاست کے غریب عوام پر 1800کروڑ کا مالی بوجھ عائد کردیا۔ سچ کہا جائے تو دولتمند اسٹیٹ کے باشندے ہونے کا گھمنڈ صرف ایک ہفتہ میں ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔
تلنگانہ ریاست کی شرح ترقی 27فیصد ہونے اور ذرائع آمدنی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے تو غریب اور متوسط طبقہ کے عوام کیلئے ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرنے پر 286 کروڑ روپئے کا بوجھ کیوں عائد کردیا گیا، تلنگانہ میں 90لاکھ عوام روزانہ آر ٹی سی بسوں سے ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاستی وزیر ٹرانسپورٹ مسٹرمہیندر ریڈی نے آر ٹی سی کرایوں میں اضافہ کی مدافعت کرتے ہوئے اضافہ شدہ قیمتوں کو پڑوسی ریاستوں سے کم تر بتاتے ہوئے عوام کے غم و غصے کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تقسیم آندھرا پردیش سے قبل آر ٹی سی کو ملک میں اعلیٰ مقام حاصل تھا تب بھی آر ٹی سی خسارے میں تھی۔ چندرا بابو نائیڈو نے اصلاحات کے ذریعہ اس کو خانگیانے کی کوشش کی تھی مگر ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی چیف منسٹر بنے تو انہوں نے آر ٹی سی کو خسارہ سے نکالنے کے اقدامات کئے۔ حکومت سے گرانٹ جاری کی اور ٹیکس میں کمی کرکے آر ٹی سی کو مالی طور پر مستحکم کرنے کے اقدامات کئے مگر وہ بھی آر ٹی سی کو مالی بحران سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
تلنگانہ تحریک میں آر ٹی سی ایمپلائز کی حصہ داری ناقابل فراموش ہے۔ 64دن تک عام ہڑتال کرتے ہوئے تلنگانہ کے آر ٹی سی ایمپلائز نے ٹرانسپورٹ اورحمل و نقل کے نظام کو پوری طرح مفلوج بنادیا تھا جس سے ریاست اور مرکز دونوں کی آمدنی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ تحریک کے دوران کے سی آر نے آر ٹی سی ایمپلائز کی تعریف کی تھی مگر جب سرکاری ملازمین کو 43فیصد پے ریویژن منظور کیا گیا تھا اس وقت آر ٹی سی ملازمین کی قربانیوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ آر ٹی سی ایمپلائز نے ان سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے مئی 2015 کو 8دن تک احتجاج کیا جس کے بعد چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے ـآر ٹی سی ایمپلائز سے مشاورت کے بعد ان کی تنخواہوں میں 44فیصد اضافہ کیا اور بجٹ میں آر ٹی سی کو مناسب بجٹ مختص کرنے کا اعلان کیا تھا اور گذشتہ سال عام بجٹ میں آر ٹی سی کیلئے 159 کروڑ روپئے ہی کا بجٹ مختص کیا گیا۔ جاریہ سال 2016-19 کے بجٹ میں آر ٹی سی کے بجٹ کو گھٹاتے ہوئے صرف 40کروڑ روپئے ہی مختص کئے گئے۔ آر ٹی سی خسارے میں کیوں ہے اس کا جائزہ لینے اور کمزوریوں و خامیوں کو دور کرنے کے بجائے چیف منسٹر نے آر ٹی سی کو بند کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے مایوس ایمپلائز کو ناراض کردیا۔
ـآر ٹی سی خسارے کا جائزہ لیں توحکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے، صرف انتظامیہ کو ہی قصوروار قرار دینا اس کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ حکومت نے خانگی ٹرانسپورٹ کو بھیمسافرین کو لانے لے جانے کا اختیار دیا ہے جس سے آر ٹی سی کو سالانہ 1000 کروڑ روپئے کا نقصان ہورہا ہے۔ طلبہ ، مجاہدین آزادی، صحافیوں اور دیگر زمروں کیلئے دیئے جانے والے رعایتی بس پاسیس پر سانہ 526کروڑ کے مصارف آتے ہیں جنہیں حکومت آر ٹی سی انتظامیہ کو ادا نہیں کررہی ہے۔ ریاست میں 23فیصد سے 27فیصد تک اضافہ کردیا گیا ہے جس سے آر ٹی سی انتظامیہ پر سالانہ 50کروڑ روپئے کا بوجھ عائد ہورہا ہے۔ ایکسائیز ٹیکس میں اضافہ سے 220 کرور کا بوجھ عائد ہورہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے ، اس طرح آر ٹی سی 2000کروڑ کے خسارے میں ہے۔آر ٹی سی میں خانگی بسیں بھی چلائی جارہی ہیں اور ساتھ ہی کافی قدیم بسیں بھی موجود ہیں ان کی جگہ نئی بسیں حاصل کرتے ہوئے آر ٹی سی کو کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔
برقی شرحوں میں9.8 فیصد اضافہ کرتے ہوئے غریب اور متوسط طبقہ پر1527 کروڑ روپئے کا اضافی مالی بوجھ عائد کردیا گیا ہے۔ گھریلو صارفین پر سیدھے سیدھے 500 کروڑ روپئے کا بوجھ عائد ہورہا ہے اور دوسروں پر 1017 کروڑ کا بوجھ عائد ہورہا ہے۔ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ غریب عوام پر اس اضافہ کا کوئی بوجھ عائد نہیں ہوگا کیونکہ ماہانہ 100 یونٹس سے کم برقی استعمال کرنے والے صارفین پر اس فیصلے سے کوئی اثر نہیں پڑیگا۔حکومت کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آجکل مزدوروں کے گھروں پر بھی ٹیلی ویژن وغیرہ موجود ہے اور ہر کوئی 100یونٹس سے زائد برقی استعمال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ تلنگانہ تحریک میں برقی ایمپلائز کی حصہ داری بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی، تقریباً ایک ماہ تک تلنگانہ برقی ملازمین نے کام کاج چھوڑ کر احتجاج میں حصہ لیا تھا۔کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے ملازمین بھی تحریک کا حصہ تھے اور اس احتجاج سے جنوبی ہند میں برقی سربراہی متاثر ہوئی تھی۔ گذشتہ دو سال کے دوران برقی کے نقصانات پر قابو پانے کیلئے کوئی اقدامات کئے گئے اور نہ ہی ایک یونٹ نئی برقی ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے پیدا کی گئی ہے ،ہاں یہ الگ بات ہے کہ پڑوسی ریاستوں سے برقی خرید کر تلنگانہ کے عوام کو بڑی راحت فراہم کرنے میں ٹی آر ایس حکومت کامیاب ہوئی ہے ۔ مگر ماہ رمضان میں برقی سربراہی غیر یقینی صورتحال کا شکار رہی ہے ۔ یاد رہے کہ جب آندھرا پردیش کی تقسیم ہوئی تھی تب علحدہ ریاست تقریبا 10 ہزار کروڑ کا فاضل بجٹ رکھنے والی ریاست تھی ۔ مگر ٹی آر ایس کے دو سالہ دور حکومت میں 90 ہزار کروڑ روپئے کا قرض حاصل کیا گیا ہے ۔ باوجود اس کے برقی اور آر ٹی سی کے کرایوں میں اضافہ کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔ ری ڈیزائننگ کے نام پر آبپاشی پراجکٹس کی قیمتوں کو 36 ہزار کروڑ سے بڑھا کر 80 ہزار کروڑ روپئے کردیا گیا ہے ۔۔
اگر تلنگانہ دولت مند اسٹیٹ ہے تو سرکاری ایمپلائز کے لیے ریویژن بقایہ جات کو ایک سال سے کیوں روکے رکھا گیا ہے اور ہر سال ریاست کے مجموعی بجٹ کا صرف 50 تا 60 فیصد بجٹ کیوں خرچ کیا جارہا ہے ۔ ابھی تک غریب و اہل افراد کو ڈبل بیڈ روم مکانات کیوں فراہم نہیں کیے گئے ۔ دلتوں کو فی کس 3 ایکڑ اراضی کیوں فراہم نہیں کی گئی ۔ ہر سال ایک لاکھ بیروزگار نوجوانوں کو روزگار کیوں فراہم نہیں کیا گیا ۔ آبپاشی پراجکٹس کی تعمیرات کے دوران نقصانات سے دوچار ہونے والے کسانوں کو 2013 کے قانون حصول اراضیات کے مطابق معاوضہ کیوں ادا نہیں کیا جارہا ہے ۔۔
پٹرولیم اشیاء اور اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ سے غریب عوام پریشان ہیں ترکاریوں اور دالیں اور چاول و دیگر غذائی اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہے اس پر قابو پانے میں حکومت پوری طرح ناکام ہوگئی ہے ۔ ان حالت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو راحت فراہم کرنے کے اقدامات کرے مگر حکومت خود اضافہ مالی بوجھ عائد کرتے ہوئے غریب عوام کی کمر توڑ رہی ہے ۔ وعدے کرنا اور اس سے انحراف کرنا سیاستدانوں کی عادت بن گئی ہے ۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد ریاست کو سنہری ریاست میں تبدیل کرنے اور تمام وعدوں کو پورا کرنے کا کے سی آر نے اعلان کیا تھا لیکن چیف منسٹر بنتے ہی وہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور اپنے آپ کو کیمپ آفس اور فارم ہاوز تک محدود کرلیا، جس دن وہ سکریٹریٹ پہونچتے ہیں اسی دن وہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے ۔ برقی اور آر ٹی سی کی شرحوں میں اضافہ کرتے ہوئے ٹی آر ایس حکومت نے اپوزیشن کے ہاتھوں حکومت کے خلاف ہتھیار دے دیا ہے ۔ ملناساگر کے متاثرین سے انصاف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور احتجاج کرتے ہوئے متاثرین کی تائید و حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں ۔ پروفیسر کودنڈا رام دم توڑتی اپوزیشن جماعتوں کے لیے سنجیونی ثابت ہوئے ہیں تو دوسری طرف کانگریس ، تلگو دیشم اور کمیونسٹ جماعتیں متاثرین کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوتے ہوئے حکومت پر دباؤ بنانے میں کامیاب ہورہی ہیں ۔ برقی اور آر ٹی سی کرایوں میں اضافہ کے خلاف کانگریس پارٹی نے اضلاع ہیڈکوارٹرس پر احتجاجی مہم کا انعقاد کیا ہے اور حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف عوام میں شعور بیدار کرنے میں کامیاب ہورہی ہے۔
نئے اضلاع کی تشکیل کا عمل بھی ٹی آر ایس حکومت کے لیے وبالِ جان بنا ہوا ہے ۔ ضلع کلکٹرس پر غیر سائنٹفیک طریقہ سے منڈل کو تقسیم کرتے ہوئے نئے اضلاع کی تشکیل کے لیے حکومت کو رپورٹس پیش کرنے کی شکایتیں وصول ہورہی ہیں ۔ تلنگانہ کے کئی اضلاع میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے ۔ بند منظم کیا جارہا ہے ، راستہ روکو احتجاج کیا جارہا ہے اور اس احتجاج میں بعض مقامات پر حکمران ٹی آر ایس کے قائدین بھی شامل ہیں اور ٹی آر ایس ارکان اسمبلی ،ارکان پارلیمنٹ بھی نہ صرف احتجاج میں کود پڑے ہیں بلکہ خود ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہورہے ہیں اور کھلے عام ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوئے تنقیدیں کررہے ہیں ۔ نئے اضلاع نظم و نسق کو عوام سے قریب کرنے کے لیے بنانے کے بجائے حکمراں ٹی آر ایس اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے بنانے کی شکایت عام ہیں ۔۔
گذشتہ 2 سال کے دوران سوائے غریب عوام ، بیواؤں اور معذورین و معمرین کو وظیفہ دینے کے حکومت نے دوسرا کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا ۔ حکومت اپنے وعدے نبھانے میں ناکام ہے ۔ صرف ہر اسکیم کی بڑی بڑی تشہیر کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت کام کررہی ہے ۔ فیس ری ایمبرسمنٹ جاری نہیں کیا گیا ۔ سرکاری ایمپلائز و جرنلسٹس کے ہیلت کارڈس جاری ہوئے ہیں مگر ہاسپٹلس اس کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں ۔ چیف منسٹر ریاست سے اپوزیشن کا صفایا کرنے کے مشن پر کام کررہے ہیں اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ ٹی آر ایس کے دور حکومت میں کانگریس تلگو دیشم وائی ایس آر کانگریس پارٹی سی پی آئی اور بہوجن سماج پارٹی کے 47 ارکان پارلیمنٹ ارکان اسمبلی ارکان قانون ساز کونسل کو ٹی آر ایس میں شامل کرچکے ہیں اور ان کے ذریعہ ہی اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حکومت کے کاموں کی ستائش کرارہے ہیں مگر ٹی آر ایس کے حقیقی قائدین و کارکنوں میں جو مایوسی ناراضگی پائی جاتی ہے اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ ابھی یہ حکومت کے خلاف پارٹی میں چنگاری ہے اگر شعلہ بن جائے تو بغاوت کا روپ بھی اختیار کرسکتی ہے ۔ یہ بات مشہور ہے کہ کوئی بھی سیاست میں مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوسکتا ہے ۔ آج ٹی آر ایس کے ستارے عروج پر ہیں ۔ ہر کوئی ٹی آر ایس کو ترجیح دے رہا ہے مگر ان کے خلاف مقابلہ کرنے والے ٹی آر ایس قائدین کیا سوچ رہے ہوں گے اس کا جائزہ لینا بے حد ضروری ہے ورنہ سیاسی تدابیر الٹی ہونے میں دیر نہیں لگتی۔