دودھ باؤلی کے ارشیتا رینبو ہوم میں 87 معصوم لڑکیاں

حیدرآباد ۔ 28 ڈسمبر ۔ شہرحیدرآباد میں غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے کئی یتیم خانے چلائے جارہے اور انہیں باضابطہ طور پر حکومت سے اچھی خاصی امداد بھی حاصل ہوتی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو خیراتی و امدادی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے چلائے جارہے یتیم خانوں و راحتی اداروں کی حالت انتہائی ابتر ہے جہاں معصوم بچوں کی نگہداشت و تربیت کے نام پر حاصل کی جانے والی رقومات کا صحیح مصرف نہیں ہورہا ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہیکہ بعض یتیم خانوں میں مقیم بچوں کے بدن پر سلیقہ کے کپڑے نہیں، حد تو یہ ہیکہ ان کے جسموں پر زخموں کے نشانات پائے گئے۔ ایسا ہی ایک ادارہ یا یتیم خانہ ارشیتا رینبو ہوم دودھ باؤلی بھی ہے۔ سال 2010ء میں قائم کردہ اس یتیم خانہ میں 87 لڑکیاں ہیں، جن کی عمریں 5 تا 14 برس کی ہیں۔ اس یتیم خانہ میں 6 مسلم لڑکیاں بھی مقیم ہیں۔ کل ایک نامعلوم فون کے ذریعہ کسی خوفزدہ لڑکی نے بتایا کہ برائے مہربانی ہمارے ہاسٹل کا بھی معائنہ کیجئے۔ یہاں کیا ہورہا ہے۔ یتیم لڑکیوں پر کیا گذر رہی ہے اس کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی۔ فون پر اس لڑکی کی تڑپ اور التجاء سن کر بہت افسوس ہوا اور فوراً ارشیتا رینبو ہوم دودھ باؤلی پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا گیا۔ وہاں معصوم لڑکیاں اپنے کپڑے خود دھو رہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ایک دوسرے کے بال بنا رہی ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کررہی ہیں۔ ان کے بدن پر میلے کچیلے کپڑے ہیں۔ 9 سالہ ثانیہ، 7 سالہ تبسم، 8 سالہ زرینہ، 9 سالہ نوری اور 8 سالہ صبیحہ کو دیکھ کر یہ جان ہی نہیں سکے کہ وہ مسلم لڑکیاں ہیں کیونکہ انہیں ایسے کپڑے پہنائے گئے تھے جس سے ان کی شناخت ہی مٹ گئی تھی۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ ایس ناگراج اس یتیم خانہ کے بانی ہیں۔ کوآرڈینیٹر پرواتولو سے بات چیت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس غیر سرکاری تنظیم کو حکومت نے سرکاری عمارت بھی الاٹ کی ہے، جس کے نچلے حصہ میں اسکول چلایا جاتا ہے اور اوپری حصہ میں لڑکیوں کو قیام کی سہولت فراہم کی گئی لیکن 87 بچیوں کیلئے یہ جگہ بہت ناکافی ہے۔ یہاں ایک ایسی لڑکی بھی نظر آئی جس کے جسم پر زخم کے نشان تھے لیکن اس نے کچھ بتانے سے انکار کردیا اور خاموشی اختیار کی۔ اس یتیم خانے میں 8 ارکان عملہ کام کرتے ہیں لیکن اتنا اسٹاف نظر ہی نہیں آتا۔ لڑکیوں نے بتایا کہ شدید سردی میں انہیں نہانے کیلئے گرم پانی نہیں دیا جاتا بلکہ یہ معصوم لڑکیاں ٹھنڈا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ ان معصوم لڑکیوں کو پہننے کیلئے سوئٹرس یا گرم کپڑے تک نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ آخر اس یتیم خانہ کا انتظامیہ اسے ملنے والی سرکاری امداد کا کیا کررہا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی یتیم خانوں اور آشرموں کے بارے میں رپورٹس شائع کئے گئے جس میں بتایا گیا کہ وہاں درجنوں مسلم لڑکیاں پرورش پا رہی ہیں۔ اس کے باوجود ہمدردان ملت ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو اس بات کی زحمت گوارا نہیں کہ وہ ان بچیوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے، ان کے ایمان کی حفاظت کیلئے کوئی عملی قدم اٹھاتے۔ ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں مسلم تنظیمیں تو بہت ہیں لیکن ایسا کوئی یتیم خانہ اور خیراتی ادارہ نہیں جہاں اس طرح کے یتیم و یسیر بچوں اور بچیوں کو رکھا جاسکے۔ اگر اب بھی ہمدردان ملت اس مسئلہ پر خاموش رہیں تو ان اداروں میں مقیم مسلم لڑکیاں جو علم دین کے حصول سے محروم ہیں اپنی مذہبی شناخت سے محروم ہوسکتی ہیں۔ اگر مستقبل میں ان یتیم و یسیر بچے ایمان کی دولت سے محروم ہوتے ہیں تو اس کیلئے ساری ملت بارگاہ رب العزت میں جوابدہ ہوگی۔ آج ہمیں بڑے بڑے تعلیمی اداروں، کالجس کے قیام کے دعوؤں کی بجائے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ ہمیں ہرگز ہرگز معاف نہیں کرے گی۔ ویسے بھی ہمارے شہر میں خوشحال خاندان کی کوئی کمی نہیں۔ وہ ان معصوم لڑکے لڑکیوں کو گود لے سکتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ اکثر و بیشتر غریب ماں یا باپ یا پھر رشتہ دار اپنے خاندان کے یتیموں کو ان اداروں میں شریک کرواتے ہیں اس طرح ریلوے اسٹیشنوں، بس اسٹانڈز اور بازاروں میں دستیاب لاوارث بچوں کو بھی ایسے یتیم خانوں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہیکہ ہمدردان ملت اس طرح کے یتیم خانوں میں مقیم مسلم بچیوں کی تعداد کا پتہ چلا کر انہیں لاولد خاندانوں کی جانب سے گود لینے کے انتظامات کریں یا پھر ایک ادارہ قائم کرتے ہوئے انہیں سہارا دیں۔ جہاں تک سرکاری امداد سے چلنے والے یتیم خانوں کا سوال ہے کلکٹر حیدرآباد کو چاہئے کہ وہ وقفہ وقفہ سے ان یتیم خانوں کا معائنہ کرتے رہیں۔ abuaimalazad@gmail.com