الفتح اور حمص میں سمجھوتے پر مذاکرات کا آغاز، دو تنظیموں میں اتحاد سے امریکہ اور اسرائیل ناراض
دوحہ ۔ 5 مئی (سیاست ڈاٹ کام) حماس کے سربراہ اور جلاوطن فلسطینی رہنما خالد مشعل اور فلسطینی اتھارٹی کے صدرمحمود عباس کی ملاقات قطر کے دارالحکومت میں پیر کے روز شروع ہوئی ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے میں حکمران فلسطینی جماعتوں کے درمیا ن ماہ مارچ کے اواخر میں طے پانے والے معاہدے کے بعد اعلیٰ ترین رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی باضابطہ ملاقات ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق دوحہ میں مذاکرات بعد از دوپہر شروع ہو چکے ہیں۔ محمود عباس ایک روز پہلے امیر قطرشیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات کیلئے دوحہ پہنچے تھے۔ پیر کو امیر قطر سے ملاقات سے پہلے انہوں نے ایک شادی کی تقریب میں بھی شرکت کی۔بعد ازاں صدر محمود عباس کی حماس کے جلاوطن سربراہ خالد مشعل کے ساتھ سے ملاقات ہوئی۔ واضح رہے خالد مشعل پچھلے دوسال سے دوحا میں ہی مقیم ہیں۔ اس سے پہلے وہ شام میں قیام پذیر رہے، لیکن شام میں خانہ جنگی کے باعث دوحہ منتقل ہو گئے۔فلسطینی جماعتوں کے ان اہم ترین رہنماؤں کے درمیان اس سے پہلے مرسی کے دور صدارت میں جنوری 2013 کے دوران قاہرہ میں بھی ایک ملاقات ہو چکی ہے۔ ایک روز پہلے غزہ میں حماس کے ترجمان نے آج کی ملاقات کا امکان ظاہر کیا تھا۔ حماس کے ترجمان سامی ابو زہری کے مطابق ملاقات کا مقصد دونوں جماعتوں کے درمیان طے پانے والے مفاہمتی معاہدے پر عمل درآمد پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔دونوں فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمتی معاہدے پر اسرائیل نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا جبکہ امریکہ نے بھی ناخوشی کا اظہار کیا تھا۔ اس سے قبل دونوں جماعتیں طویل عرصہ تک مخاصمت کا شکار رہی ہیں۔ مفاہمتی معاہدے کے بعد مخلوط فلسطینی حکومت کے قیام کے علاوہ نئے پارلیمانی انتخابات بھی کرائے جائیںگے۔محمود عباس کی تحریک الفتح کا فلسطینی نجات دہندہ تنظیم پر غلبہ ہے اور وہ مغربی کنارہ پر حکمراں ہے۔ برسوں سے خالد مشعل کی حماس کے ساتھ الفتح کی تلخ دشمنی تھی۔جبکہ اسلامی تحریک نے 2007 میںغزہ پٹی پر اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا اور اب صدر محمود عباس کی وفادار فوج کو وہاں سے نکال باہر کیا تھا۔ماضی میں سیاسی سمجھوتہ کی تمام کوششیں ناکام رہی تھی لیکن 23 اپریل کو پی ایل او اور حماس نے اعلان کیا کہ دونوں کے درمیان ایک معاہدہ طئے ہوچکا ہے جس کے تحت وہ سیاسی آزاد افراد کے ساتھ نئی حکومت تشکیل دیں گے ۔ اس معاہدہ کی خبر پر اسرائیل نے برہمی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ وہ حماس کی تائید یافتہ کسی بھی فلسطینی حکومت کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا ۔ اس طرح اس نے امن مذاکرات کے آخری مرحلہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔