ڈاکٹر داؤد اشرف
میریوسف علی خان سالار جنگ سوم کا خاندان آصف جاہی خاندان کے عہد حکومت کے امراء میں بلند مرتبہ رکھتا تھا ۔ اس خاندان کے چھ افراد آصف جاہی خاندان کے دور حکومت میں وزیراعظم کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے جس سے اس خاندان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ سالار جنگ سوم کے بزرگوں میں میر عالم کو بہت اونچا مرتبہ ملا اور شہرت حاصل ہوئی مگر سالار جنگ سوم کے دادا سر سالار جنگ اول کو اُن کی بے مثال اور شاندار خدمات کی وجہ سے جو شہرت حاصل ہوئی اس کی آب و تاب نے میر عالم اور ریاست کے دیگر وزیروں کی شہرت کو ماند کردیا ۔ سالار جنگ اول کے سب سے بڑے فرزند میرلائق علی خان سالار جنگ دوم میر محبوب علی خان آصف سادس کی 5 فروری 1884 ء کو مسند نشینی پر دیوان (وزیراعظم) مقرر کئے گئے ۔ وہ تقریباً تین سال بعد 19 اپریل 1887 ء کو اس عہدہ سے سبکدوش کردیئے گئے ۔ ان کے اکلوتے فرزند میر یوسف علی خان 14 شوال 1307 ھ م 13 جون 1889 ء کو پونا میں پیدا ہوئے ۔ ان کی پیدائش کے اندرون ایک ماہ ان کے والد سالار جنگ دوم کا 7 جولائی 1889 ء کو انتقال ہو گیا اور ایک سال کے اندر ان کے چچا منیرالملک کا سایہ بھی ان کے سر سے اُٹھ گیا ۔ اس لئے حکمراں ریاست میر محبوب علی خاں آصف سادس نے میر یوسف علی خان کی تعلیم و تربیت میں خصوصی دلچسپی اوران کی جاگیر کا مناسب و معقول انتظام کیا ۔ آصف سادس نے 29 جولائی 1907 ء کو اپنی تخت نشینی کی سالگرہ پر انہیں سالار جنگ کا خاندانی خطاب کیا۔ ان کے والد سالار جنگ دوم کے انتقال پر سالار جنگ ا سٹیٹ کے انتظامات حکومت کی نگرانی میں لے لئے گئے تھے لیکن میر عثمان علی خان آصف سابع نے حکمراں بننے کے بعد بذریعہ فرمان مورخہ 8 مارچ 1913 ء سالار جنگ اسٹیٹ پر سرکاری نگرانی برخواست کرتے ہوئے اس کے انتظامات کے کامل اختیارات سالار جنگ سوم کے حوالے کردیئے۔
جب میر عثمان علی خان 29 ء اگست 1911 ء کو حکمراں ہوئے اس وقت مہاراجہ کشن پرشاد مدارالمہام (وزیراعظم) تھے ۔ مہاراجہ بہت جلد نئے حکمراں کی ناراضگی اور بے اعتمادی کا شکار ہوئے ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ نئے حکمراں یہ شبہ کرنے لگے تھے کہ مہاراجہ اُن سازشیوں کے ساتھ سازش میں ملوث تھے جو گورنمنٹ آف انڈیا سے اُن کے تعلقات کو بگاڑنا اور ان کے موقف کو متاثر کرنا چاہتے تھے۔ میر عثمان علی خان آصف سابع نے فرمان مورخہ 11 جولائی 1912 ء کے ذریعہ مہاراجہ کشن پرشاد کو مدارالمہامی کی خدمت سے سبکدوش کرتے ہوئے سالار جنگ سوم کو مدارالمہام مقرر کیا ۔ اس فرمان میں یہ کہا گیا ’’سالار جنگ بالفعل تین سال تک تاحکم ثانی مدارالمہام مقرر کئے گئے ہیں۔ انہیں اس خدمت جلیلہ کے اہم کام اور اچھا تجربہ حاصل ہونے کے واسطے مدد اور مشورہ دینے کے لئے عماد الملک بہادر تاحکم ثانی ان کے مشیر خاص مقرر کئے گئے‘‘۔ آصف سابع نے بعد ازاں فریدو جنگ کو بھی سالار جنگ سوم کا مشیر مقرر کیا۔
تقریباً ربع صدی بعد یہ منصب جلیلہ پھر سالار جنگ خاندان میں واپس آیا تھا جس پر ساری ریاست میں بڑی مسرت کا اظہار کیا گیا ۔ سالار جنگ سوم کو کچھ عرصہ بعد اس عہدہ پر مستقل کیا گیا ۔ مدارالمہامی کے عہدہ پر مستقل کئے جانے کے بعد انہیں بیش قیمت روایتی ہیروں اور جواہرات سے مزین سراپا عطا کیا گیا ۔ اس سلسلے میں آصف سابع کا جو فرمان مورخہ 21 جولائی 1914 ء صادر ہوا تھا ۔ اُس میں آصف سابع نے یہ اطلاع دی تھی کہ ان کی تخت نشینی کی سالگرہ کے موقع پر کنگ کوٹھی میں جو دربار اور ڈنر ہوگا اس موقع پر سالار جنگ سوم کو ایک لاکھ روپئے کا سراپا دیا جائے گا ۔ سالار جنگ سوم صرف ڈھائی سال مدارالمہامی کی خدمت پر فائز رہے کیونکہ آصف سابع اُن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سالار جنگ سوم کی مقبولیت اور ریذیڈنسی سے ان کی قربتِ آصف سابع کی ناپسندیدگی کا سبب تھی ۔ آصف سابع نے فرمان مورخہ یکم ڈسمبر 1914 ء کے ذریعہ انہیں مدارالمہامی کی خدمت سے سبکدوش کردیا۔ اس فرمان میں یہ بھی اطلاع دی گئی ’’سردست سالار جنگ کی جگہ پر کسی کو مقرر کرنے کی ضرورت نہیں پائی جاتی، میں بذات خود مدارالمہامی کا کام انجام دینا چاہتا ہوں‘‘۔ آصف سابع ڈسمبر 1914 ء تا نومبر 1919 ء تک بغیر مدارالمہام ریاست کا نظم و نسق چلاتے رہے۔ آصف سابع کی حکمرانی کے اس دور کو راست حکمرانی (direct administration) کا دور کہا جاتا ہے۔
اس مضمون میں آصف سادس اور آصف سابع کے جن فرامین کے حوالے دیئے گئے ہیں ان فرامین کے اصل تلنگانہ ا سٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ ہیں۔
سالار جنگ سوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ۔ آرٹ ، علم اور ادب سے غیر معمولی رغبت ، سخاوت و فیاضی اور تعلیم کی اشاعت سے گہری دلچسپی ان کی شخصیت کے نمایاں وصف تھے۔ سالار جنگ سوم نے مدارالمہامی کی خدمت سے سبکدوش کردیئے جانے کے بعد ساری زندگی ، آرٹ اور ادب کے دخائر اکٹھا کرنے میں گزاری۔ صناعی اور ہنرمندی کے وہ سچے قدرداں تھے۔ اُن کی قدر دانی کی چاروں طرف دھوم تھی ۔ سالار جنگ میوزیم ان کی اکٹھا کی گئی ، کم یاب و نادر اشیاء کا ایک بہترین انتخاب ہے جس کی دوسری مثال اس اعتبار سے نہیں مل سکتی کہ تنہا کسی شخص نے اتنا بڑا اور عظیم ذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ یہ درست ہے کہ سالار جنگ سوم نے نظم و نسق کے ماہر کی حیثیت سے اپنے دادا سالار جنگ اول کی طرح نام روشن نہیں کیا لیکن ان کے سنہرے ذوق ، حسن نظر نے آنے والی نسلوں کے لئے ایک بے مثال ورثہ چھوڑا جو اُن کے نام کو ہمیشہ باقی اور زندہ رکھے گا۔ انہوں نے نہ صرف قدیم آرٹ کے نمونوں اور کم یاب مخطوطوں کا انتہائی بیش بہا ذخیرہ جمع کیا بلکہ حیدرآباد میں شاعروں، ادیبوں اور آرٹسٹوں کی قدردانی اور ادبی و تہذیبی سرگرمیوں کی سرپرستی بھی کی ۔ ان کا انتقال 2 مارچ 1949 ء کو آبائی رہائش گاہ دیوان دیوڑھی میں ہوا اور دائرہ میر مومن میں تدفین عمل میں آئی۔
راقم الحروف نے سالار جنگ سوم کے ایک قریبی رشتہ دار مرحوم میر فرخندہ علی خان سے سالار جنگ سوم کے بارے میں انٹرویو لیا تھا ۔ فرخندہ علی خان کا ریاست حیدرآباد کے امراء و شرفاء کے ایک اہم گھرانے سے تعلق تھا ۔ ان کے والد کا نام علی یار خان اور دادا کا نام صادم جنگ اعتصام الملک تھا۔ فرخندہ علی خان کی شادی سالار جنگ اول کے حقیقی نواسے ساجد یار جنگ کی نواسی سے ہوئی تھی ۔ اس طرح سالار جنگ کے خاندان سے ان کی قریبی رشتہ داری تھی ۔ فرخندہ علی خان ریاست حیدرآباد میں سرکاری ملازم تھے۔ 1956 ء میں ریاستی تنظیم جدید پر وہ کر ناٹک بھیجے گئے جہاں سے وہ بحیثیت کلکٹر وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔ فرخندہ علی خان ، سالار جنگ سوم کے آخری پچیس برسوں میں ان سے بہت قریب رہے ۔ اس مدت میں وہ سالار جنگ کے ہاں صبح و شام جایا کرتے تھے ۔ سالار جنگ سے ملنے کیلئے ان پر وقت کی کوئی پابندی نہیں تھی ۔ سالار جنگ سوم کی آخری علالت کے موقع پر وہ ا یک ماہ کی رخصت لے کر حیدرآباد آئے تھے اور سالار جنگ کے انتقال سے قبل ان کے اصرار پر فرخندہ علی خان ان ہی کی دیوڑھی میں مقیم رہے ۔ سالار جنگ سوم سے رشتہ داری اور گہرے تعلقات کے باعث فرخندہ علی خان سے ان کے بارے میں معتبر اور مستند معلومات حاصل ہوسکتی تھیں۔ چنانچہ میں نے سالار جنگ سوم کے بارے میں جناب فرخندہ علی خان سے انٹرویو لیا تھا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
ریاست حیدرآباد کے ایک بہت بڑے گھرانے کے واحد وارث ہونے کے باوجود ان میں بالکل غرور و گھمنڈ نہیں تھا ۔ وہ اعلیٰ اخلاق کے حامل اور بڑے اعلیٰ ظرف انسان تھے ۔ قدیم اور ضعیف ملازمین کو وہ خود جھک کر سلام کرتے تھے اور ملازمین سے کبھی سختی سے پیش نہیں آتے تھے ۔ وہ طبعاً تنہا پسند نہیں تھے ۔ اہل خاندان اور احباب ان کے گھر پر ا کثر موجود رہتے تھے۔ وہ بہت زور فہم تھے اور ان کی نظر گہری تھی ۔ وہ اپنے دادا کی طرح مردم شناس تھے اور بہت جلد اندازہ کرلیتے تھے کہ کون سا شخص کن خصوصیات کا حامل ہے۔ ان میں تعصب نام کو نہیں تھا ۔ وہ ہر مذہب اور ہر فرقہ کے افراد کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھتے تھے ۔ ان کی جاگیر اور دیوڑھی میں مسلمان اور ہندو دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کثیر تعداد میں کام کرتے تھے ۔ ریاست حیدرآباد کے اس دور میں امراء کے گھرانوں میں رواداری موجود تھی اور یہی خوبی سالار جنگ کے خاندان میں بھی پائی جاتی تھی ۔
سالار جنگ سوم کو تاریخ سے بہت لگاؤ تھا ۔ انہیں شعر و ادب سے بھی دلچسپی تھی ۔ ان کا حافظہ غیر معمولی تھا ۔ انہیں مطالعے کا شوق تھا ۔ وہ نئی نئی کتابیں خریدتے تھے ۔ نئی خریدی ہوئی کتابیں ان کے بستر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوتی تھیں۔ وہ رات میں سونے سے قبل ان کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ بعد ازاں وہ کتابیں لائبریری کو بھیج دی جاتی تھیں۔ شوقین طلبہ کو تعلیم دلوانے سے انہیں خصوصی دلچسپی تھی ۔ وہ دور کے رشتہ داروں ، نادار اور ہوشیار طلبہ کے تعلیمی اخراجات برداشت کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے بعض لڑکوں کو اپنے اخراجات سے علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم دلوائی ۔ ا نہوں نے اپنے سکریٹری ہادی علی کے فرزند احمد علی کو لندن میں اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔ انہوں نے اپنے ایک عزیز اکبر علی کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن بھیجا جنہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں ملازمت کی۔
سالار جنگ کے روزگار کا یہ معمول تھا کہ وہ دوپہر کا کھانا چالیس پچاس افراد کے ہمراہ کھایا کرتے تھے۔ رات کے کھانے پرآٹھ دس ایسے احباب اور خاندان کے افراد موجود رہتے تھے جن پر انہیں مکمل اعتماد ہوتا تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس موقع پر وہ جو کچھ باتیں کرتے تھے وہ سینوں میں ہی دفن رہیں۔ وہ کہا کرتے تھے ’’ڈنر کے موقع پر میں جو کچھ کہتا ہوں دل کی بات کہتا ہوں، یہ نہ خیال کرنا کہ میں نشہ میں باتیں کر رہا ہوں‘‘۔ ڈنر کے موقع پر موجود مہمانوں کے علاوہ کوئی اور پہنچ جاتا تو سالار جنگ کو ناگوار گزرتا تھا ۔ لیکن ان کے اخلاق ا یسے تھے کہ اس شخص کو واپس کرنا ، انہیں گوارا نہیں ہوتا تھا ۔ ماہ رمضان میں افطار کا غیر معمولی انتظام ہوتا اور ہرروز ان کے ساتھ تیس چالیس افراد افطار کرتے تھے ۔ افطار پر کھانے کی اتنی اشیاء ہوتیں کہ رات میں کھانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی تھی ۔ سالار جنگ رمضان کے تمام روزے رہا کرتے تھے ۔ عام دنوں میں ہر اتوار کو سالار جنگ کے ہاں دوپہر کے کھانے کا خصوصی اہتمام ہوتا تھا ۔ اس موقع پر ریذیڈنسی کے عہدیداروں کے علاوہ فوجی عہدیدار اور انگریز عہدیدار مدعو رہتے تھے جن میں جے این چودھری جو اس وقت بلارم میں متعین تھے ،جسٹس اصغر یار جنگ اور جسٹس لکشما ریڈی کے نام قابل ذکر ہیں۔ وہ مہمانوں کی بڑی خاطر تواضع کیا کرتے تھے۔
حیدرآباد کے امراء کے پاس قیمتی زیورات اور جواہرات تھے لیکن سالار جنگ کے پاس جو جواہرات اور جڑاؤ زیورات تھے ویسے جواہرات اور زیورات کسی کے پاس نہیں تھے ۔ وہ ہیروں اور جواہرات کے پارکھ تھے ۔ اگر کسی زیور میں کوئی نقص ہوتا یا کوئی کمی ہوتی تو وہ اسے دور کرنے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔
سالار جنگ کے اخلاق وسیع اور اعلیٰ تھے۔ وہ سب سے بڑی محبت اور مروت سے پیش آتے تھے ۔ ان کی محبت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ سالار جنگ اسے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ ان کے دادا سالار جنگ اول نے جن بیرونی مشاہیر کو حیدرآباد طلب کیا تھا ان کے خاندان کے افراد اور ریاست کے امراء بشمول ا مرائے پائیگا کے گھرانوں کے افراد سے سالار جنگ سوم کے مراسم بہت اچھے تھے ۔
ضرورت مندوں اور غریبوں کی فراخدلی سے مدد کرنا سالار جنگ کا ایک بڑا وصف تھا ۔ ہر روز صبح سے شام تک مالی امداد کیلئے جو درخواستیں وصول ہوتی تھیں رات کے کھانے کے بعد ان کی خدمت میں پیش ہوتی تھیں۔ وہ درخواستوں پر سرسری نظر ڈال کر امداد کیلئے تجاویز لکھ دیتے تھے ۔ دوسرے روز امداد کی تقسیم عمل میں آتی تھی۔ ہر ر وز تقریباً تین سو ، ساڑھے تین سو روپئے ضرورت مندوں میں تقسیم کئے جاتے تھے ۔ اس کے علاوہ خاص خاص لوگ بھی امداد کے طالب ہوتے اور امداد حاصل کرتے تھے۔
سالار جنگ سوم نادار اور شریف گھرانوں کی ایسی لڑ کیوں کیلئے جن کی عمریں شادی کے لائق ہوچکی تھیں لیکن ماں باپ ان کی شادی کرنے کے مو قف میں نہیں تھے ، معقول امداد دیا کرتے تھے۔ وہ ایسی لڑکیوں کی فہرستیں تیار کرواتے اور جس درمیانی شخص سے امداد روانہ کرتے اس کو تا کید کے ساتھ یہ ہدایت دیتے تھے کہ امداد کے سلسلے میں ان کا نام نہ لیا جائے ۔ مدد دینے کا یہ انداز تھا کہ دائیں ہاتھ سے جو امداد دیا کرتے تھے ، اس کی بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوتی تھی ۔ کسی شخص کی مدد کرنے کے بعد اس کا تذکرہ ہرگز ان کی زبان پر نہیں آتا تھا ۔ وہ بڑے رحم دل انسان تھے ۔ کسی کی تکلیف و پریشانی ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ خاندان کے افراد یا قریبی دوستوںمیں سے کوئی بیمار پڑ جاتا تو علاج کیلئے اسے دواخانے میں شریک کرواتے اور دواخانے کا بل خود ادا کرتے تھے ۔ وہ عیدین کے موقع پر نادار اور غریبوں کی درخواستوں پر خصوصی امداد دیا کرتے تھے۔ رمضان کے مہینے میں مسجدوں اور یتیم خانوں کو افطار کیلئے پیسے دیا کرتے اور ماہ محرم میں مجالس کا صرفہ برداشت کیا کرتے تھے۔
جب سالار جنگ سوم مدارالمہام بنائے گئے وہ نو عمر اور ناتجربہ کار تھے اور انہیں نظم و نسق کے امور سے زیادہ واقفیت نہیں تھی جبکہ حکمراں ریاست آصف سابع کو امور نظم و نسق پر عبور حاصل تھا ۔ اس لئے آصف سابع ان کے کام پر گرفت کرتے تھے ۔ حکمراں اور مدارالمہام دونوں ہی نوجوان تھے ۔ طبیعتوں کی تیزی کی وجہ سے نباہ نہ ہوا ۔ آصف سابع نے تقریباً ڈھائی سال بعد انہیں مدارالمہامی کے عہدہ سے سبکدوش کردیا جس کی وجہ سے آصف سابع اور سالار جنگ سوم میں دوری اور رنجش پیدا ہوئی اور آخر وقت تک دونوں کے دلوں میں کدورت باقی رہی ۔ ریاست حیدرآباد کے آخری دور میں آصف سابع انہیں صدارت عظمیٰ کے عہدہ کا پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ پرانی باتیں بھول جاؤ لیکن سالارجنگ نے یہ کہہ کر معذرت چاہ لی کہ اب حالات اتنے خراب ہیں کہ وہ یہ ذمہ داری قبول کر کے بدنامی مول لینا نہیں چاہتے۔
سالار جنگ سوم رضاکار تحریک کے سخت خلاف تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ حیدرآباد جغرافیائی حالات کی وجہ سے آزاد نہیں رہ سکتا ۔ اس لئے کوئی باعزت معاہدہ یا مناسب و معقول شرائط کے ساتھ صلح کرلینا بہتر رہے گا ۔ پولیس ایکشن کے بعد ان کے بعض ملنے والے کہتے تھے آپ یہاں بالکل تنہا ہیں، آپ اپنی دولت اور ہیرے جواہرات کے ساتھ یوروپ جاکر وہاں کے کسی ملک میں رہائش احتیار کرسکتے ہیں اور چین و اطمینان کی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ سالار جنگ ان کو یہ جواب دیا کرتے تھے کہ میرے آباو اجداد نے اس ریاست کو ریاست بنایا ، میرے بزرگ اس سرزمیں میں دفن ہیں۔ ایسے میں اس ریاست کو چھوڑ کر باہر نہیں جاؤں گا، میں یہیں مروں گا اور یہیں دفن ہوں گا ۔
سالار جنگ کی میت پر ہندو، مسلم ، عیسائی ، پارسی سب ہی چیخیں مار مار کر رو رہے تھے ۔ بیرسٹر سری کشن نے اس منظر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اور خود روتے ہوئے کہا تھا ’’یہ ہم حیدرآبادیوں کا اتحاد و اتفاق ہے اور یہ ہماری محبت اور باہمی دوستی کا ثبوت ہے‘‘۔
انٹرویو کے اختتام پر میر فرخندہ علی خان نے کہا کہ وہ اپنی طویل زندگی میں بے شمار لوگوں سے مل چکے ہیںلیکن انہیں سالار جنگ سوم جیسے وسیع اخلاق اور بلند کردار رکھنے والا کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آیا۔