دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں

مودی توا کی لہر…کانگریس کا صفایا
متنازعہ امور پر مودی کا امتحان
رشیدالدین
عام انتحابات میں بی جے پی کی کامیابی نے میڈیا کے اگزٹ پول کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔ آخر بی جے پی کے ایسے کیا کارنامے تھے کہ ملک کے رائے دہندوں نے اسے اقتدار تک پہنچادیا ۔ یوں تو بی جے پی صرف یو پی اے حکومت کی ناکامیوں کو انتخابی موضوع بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی لیکن نریندر مودی کی لہر نے اسے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کی ۔ مودی کی لہر سارے ملک پر کچھ اس طرح چھائی کہ کانگریس سمیت دوسری تمام اپوزیشن جماعتیں اس کا شکار ہوگئیں۔ ہندوتوا کی طرح اس مرتبہ ’’مودی توا‘‘ کی لہر نے نریندر مودی کی اس اپیل کو ووٹوں میں تبدیل کردیا جس میں انہوں نے ’’یہ دل مانگے مور‘‘ کہا تھا ۔ انہوں نے تو صرف 272 نشستوں کیلئے یہ اپیل کی لیکن رائے دہندوں نے ان سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔ ویسے بھی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی ترقی کے نعرے کے ساتھ عوام میں خواب بیچ رہے تھے۔ مودی نے انتخابی مہم کی قیادت کرتے ہوئے 30 سال قبل صرف دو لوک سبھا نشستوں سے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والی پارٹی کو تنہا اپنی طاقت پر تشکیل حکومت کے موقف میں کردیا

اور وہ ملک کے 14 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام درج کرائیں گے۔ 30 برس کے طویل وقفہ کے بعد ملک میں مخلوط حکومتوں کے دور کا خاتمہ ہوچکا ہے جو پارلیمانی جمہوریت کیلئے اچھی علامت ہے۔ ایک پارٹی کی حکومت ہو تو آزادانہ طور پر فیصلے کئے جاسکتے ہیں اور ہر معاملہ میں حلیف جماعتوں کا دباؤ نہیں رہتا۔ کسی ایک پارٹی کی حکومت کے وقت اپوزیشن کا کمزور ہونا بھی جمہوریت کے استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ 2014 ء عام انتخابات میں کانگریس زیر قیادت یو پی اے اتحاد تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا ۔ یو پی اے نے کانگریس کی قیادت میں 10 برسوں تک ملک پر حکمرانی کی لیکن حیرت یہ ہے کہ اس مدت نے اپنی کارکردگی کے انمٹ نقوش عوام کے دل و دماغ پر چھوڑنے میں وہ ناکام ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ اگر کارنامے ہوتے تو یقیناً اس کا اثر رائے دہندوں کی تائید کی صورت میں ظاہر ہوتا۔ یو پی اے کے ابتدائی پانچ سال میں عوام کو کسی قدر مطمئن دیکھا گیا لیکن دوسری میعاد بدعنوانیوں ، اسکامس اور بے قاعدگیوں سے پر رہی جس کا نتیجہ بی جے پی کو واضح اکثریت کی صورت میں برآمد ہوا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وزیراعظم جو کہ حکومت کے سربراہ ہوتے ہیں، انہیں خود کو وزیراعظم ثابت کرنے جدوجہد کرنی پڑی

، پھر بھی وہ خود کو ایک آزاد اور بااختیار وزیراعظم کے طور پر پیش نہ کرسکے۔ وزیراعظم جس کے ہاتھ حکومت کا ریموٹ کنٹرول ہوتا ہے اگر وہی ریموٹ کنٹرول وزیراعظم اور کسی کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن جائیں تو ایسی حکومت کا زوال یقینی ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ چونکہ سیاستداں نہیں تھے لہذا ایک مدبر اور شریف النفس انسان کی حیثیت سے انہوں نے عہدہ کے وقار کو برقرار رکھنے ہر طرح کی توہین کو برداشت کرلیا اور کبھی زبان پر شکایت کے الفاظ نہیں لائے ۔ حکومت کا کام کاج 7 ریس کورس روڈ پر واقع وزیراعظم کی قیامگاہ سے چلتا ہے لیکن یو پی اے حکومت 10 جن پتھ سے چلتی رہی۔ صدر کانگریس اور نائب صدر کانگریس ماورا دستور اتھاریٹی کی طرح کام کرتے رہے۔ کانگریس قیادت اور یو پی اے حلیفوں کو کبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ عوام پر حکومت کے بارے میں کیا تاثر پیدا ہوگا ؟ حد تو یہ ہوگئی کہ وزیراعظم کے فیصلوں کو نہ صرف تبدیل کیا گیا بلکہ ایک مرحلہ پر کانگریس کے یوراج نے کابینہ کے فیصلہ کو احمقانہ (نان سینس) کہہ دیا۔ کانگریسی قیادت دوسری مرتبہ اقتدار ملنے پر کچھ ایسے بے قابو ہوگئی تھی کہ اس نے جمہوری طرز حکمرانی کو شاہی تصور کرلیا جس کا خمیازہ نہ صرف اقتدار سے محرومی کی شکل میں بھگتنا پڑا

بلکہ لوک سبھا میں اصل اپوزیشن کی مسلمہ حیثیت کا ملنا بھی دشوار ہوچکا ہے۔ لوک سبھا میں اصل اپوزیشن کے موقف کیلئے 54 ارکان کی ضرورت پڑتی ہے لیکن کانگریس کو صرف 45 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔ حکومت کا زوال اور پارٹی کی بدترین شکست دراصل کانگریس کے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ بی جے پی اور نریندر مودی کی لہر سے زیادہ مخالف حکومت لہر کا فائدہ بی جے پی نے بھرپور انداز میں اٹھایا۔ 120 سال کی حامل اس پارٹی کو پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد پہلی مرتبہ اس قدر شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ 1971 ء سے آج تک کے لوک سبھا میں انتخابات میں کبھی بھی کانگریس کو اس قدر کم نشستیں حاصل نہیں ہوئیں۔ گزشتہ 11 عام چناؤ میں کانگریس کا سب سے کمزور مظاہرہ 1999 ء میں دیکھا گیا جب پارٹی کو 114 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس سے قبل 1996 ء میں 140 ، 1998 ء میں 141 اور پھر 2004 ء میں 145 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا ۔ جس دن ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سیاست سے کنارہ کشی اور راہول گاندھی کے تحت کام کرنے کا اعلان کیا ، اس دن سے کانگریس کے زوال کا آغاز ہوگیا۔ عوام کے ذہنوں میں یہ بات جاگزیں ہوگئی کہ کانگریس میں متبادل قیادت کا فقدان ہے اور پارٹی خاندانی وراثت کے ذریعہ حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔

کانگریس کی شکست اور بی جے پی کی کامیابی کے بارے میں سیاسی مبصرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کمزور قیادت، خاندانی تسلط اور حکمت عملی کی کمی نے پارٹی کو انتہائی درجہ تک پہنچادیا۔ 7 ریاستوں میں کانگریس ایک بھی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی اور کسی بھی ریاست میں اس کے ارکان کی تعداد 10 سے تجاوز نہ کرسکی۔ نریندر مودی نے اترپردیش میں بی جے پی کو جتنی نشستیں دلائی ہیں، کانگریس کو ملک بھر میں بھی اتنی نشستیں حاصل نہیں ہوئیں۔ اترپردیش کی 80 نشستوں میں بی جے پی نے 73 پر قبضہ کرلیا جبکہ کانگریس کو ملک بھر میں صرف 45 نشستیں حاصل ہوئیں۔ اترپردیش میں گاندھی خاندان اپنی دو نشستیں بچانے میں کامیاب رہا۔ کانگریس کے بعض فیصلوں کا اثر آندھراپردیش میں دیکھا گیا۔ جس ریاست نے گزشتہ لوک سبھا میں کانگریس کو ملک کی کسی بھی ریاست سے زیادہ یعنی 32 نشستیں فراہم کی تھیں ، آج اس ریاست سے کانگریس کا صفایا ہوچکا ہے ۔ علاقائی جماعتوں میں ترنمول کانگریس ، انا ڈی ایم کے ، بیجو جنتا دل ، تلگو دیشم اور ٹی آر ایس کا مظاہرہ متاثر کن رہا۔ جبکہ جنتا دل یونائیٹیڈ ، راشٹریہ جنتا دل

، سماج وادی پارٹی کو بھاری نقصان ہوا ۔ بی ایس پی اور ڈی ایم کے اپنی ریاستوں میں کھاتہ بھی نہیں کھول پائیں۔ بائیں بازو جماعتوں کی جانب سے تیسرے محاذ کی تشکیل کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔ سیکولر جماعتوں میں انتشار کا بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ عام آدمی پارٹی جس نے کرپشن فری سماج کا خواب دکھاکر دہلی کے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی تھی اسے دہلی کی عوام نے دل سے نکال دیا۔ ملک میں انقلاب کے سنہرے خواب دکھا کر 400 نشستوں پر مقابلہ کرنے والی عام آدمی پارٹی صرف 4 نشستوں تک سمٹ کر رہ گئی ۔ دراصل اس پارٹی نے کانگریس کے ووٹ تقسیم کرتے ہوئے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔ بی جے پی نے نریندر مودی کی صورت میں تجربہ کار اور مضبوط قیادت کے ذریعہ کانگریس کو چیلنج کیا تھا لیکن کانگریس نے ایک ناتجربہ کار اور قیادت کی صلاحیت کے امیج سے عاری راہول گاندھی کو مقابل کردیا جو قائدین منموہن سنگھ کے متبادل بننے کی صلاحیت رکھتے تھے، ان میں سے ایک کو راشٹرا پتی بھون بھیج کر راہول کے راستے کی رکاوٹ دور کردی گئی تو دوسرے قائد کے ساتھ پتہ نہیں کس طرح کا برتاؤ کیا گیا کہ انہوں نے انتخابات سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ عوام ملک کی ترقی اور مسائل کے حل کیلئے مضبوط قیادت کے حق میں ہیں اور وہ خاندانی وراثت کی سیاست کو برداشت کرنے ہرگز نہیں تیار نہیں۔ ایک طرف نریندر مودی فن خطابات کے جوہر دکھاتے ہوئے عوام کے دلوں میں اترنے میں کامیاب ہوئے تو دوسری طرف راہول گاندھی کا بچکانی انداز عوام پر الٹا اثر کر رہا تھا۔ کانگریس اور اس کے حلیفوں میں ایک بھی قائد ایسا نہیں تھا جو اپنے زور خطابت سے مودی کا جواب دے سکے۔ اب جبکہ نریندر مودی کی قیادت میں حکومت تشکیل پا رہی ہے، واضح اکثریت کے باوجود مودی نے تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا اور ہر شہری کے ساتھ یکساں انصاف کا وعدہ کرتے ہوئے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ دیا۔ دراصل وہ عوام میں اپنا امیج بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کے دامن پر گجرات فسادات کے دھبوں کو دھو سکیں۔ دنیا کی کسی بھی فیکٹری کا تیار کردہ صابن مودی کے دامن پر لگے ان دھبوں کو صاف نہیں کر پائے گا۔ ہندوستانی جمہوری نظام کی طاقت کہئے کہ اقتدار کی کرسی پر فائز ہوتے ہی کٹر سے کٹر شخص کو زبان پر قابو کرنا پڑتا ہے۔ یہ بڑی خوش آئیند بات ہوگی اگر نریندر مودی انتخابات اور رائے دہندوں کی اصطلاح میں سوچنے کے بجائے رائے دہندوں کو ہندوستانی شہری کے طور پر دیکھیں گے اور مساوی ترقی، سیکولرازم اور بھائی چارہ کی باتوں کو عملی جامہ پہنائیں گے ۔ وزارت عظمیٰ مودی کیلئے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے اور رائے دہندوں نے ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک طرف انہیں کٹر پنتھی طاقتوں سے دوری اختیار کرنی ہوگی تو دوسری طرف بی جے پی منشور میں شامل متنازعہ نکات کو معرض التواء میں رکھنا ہوگا، جس طرح اٹل بہاری واجپائی نے کیا تھا۔ رام مندر یکساں سیول کوڈ اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی تنسیخ جیسے حساس موضوعات کو چھیڑ کر حکومت کے استحکام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہ موضوعات نہ صرف ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے مغائر ہیں۔ کثرت میں وحدت دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت ہے اور اسی جذبہ کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔ کوئی بھی حکومت اقلیتوں کا اعتماد حاصل کئے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ مودی کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ مسلمان ملک کی بڑی اقلیت کے ساتھ دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ ملک کے مقدر کا کوئی بھی فیصلہ مسلمانوں کی شراکت کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا۔ برسر اقتدار آنے کی صورت میں عوام جن اندیشوں کا شکار تھے مودی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کے ذریعہ ان کا ازالہ کریں۔ صرف اکثریت کا حاصل ہونا مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضمانت نہیں ہوسکتی۔ اگر تمام طبقات کو اعتماد میں نہ لیا جائے تو اکثریت کے تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت ترقی کی راہ پر گامزن رہے گی یا پھر حقیقی ایجنڈہ پر واپس ہوگی۔ خمار بارہ بنکوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
اب جاکے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں