سیاست فیچر
دنیا کیلئے برقی کے بغیر زندگی گذارنے کا تصور محال ہوچکا ہے اور چند برسوں میں دنیا بھر میں پیدا ہورہی برقی، پانی وغیرہ جو انسانی زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں وہ تباہ ہوجائیں گے تو ایسی صورت میں انسانیت کیا کرے گی۔ انسان کیا ان حالات کیلئے تیار ہے کہ اُسے سورج کی راست شعاعوں کے نیچے زندگی گذارنی پڑے گی اور برقی و پانی کی سہولت سے وہ بڑی حد تک محروم ہوجائے گا۔’ ناسا ‘ کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بہت تیزی سے دنیا تباہی کی سمت گامزن ہے۔ ’ ناسا ‘ کے سائنسدانوں کے مطابق ہر برس دنیا کی تباہی کے 12فیصد اثرات نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جس صورتحال سے عصری ٹکنالوجی پر انحصار کرتے ہوئے زندگی گذارنے والا انسان جن حالات کا سامنا کرنے جارہا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ چونکہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرۂ ارض پر ہر شئے تباہ ہونے والی ہے اور اس تباہی کی وجوہات کا سائنسدانوں نے جب جائزہ لیا تو انہیں اس بات کا احساس ہوا ہے کہ عالمی حدّت میں آرہی شدت کے باعث سورج کی راست شعاعیں سیارہ کرہ ارض پر اثر انداز ہورہی ہیں جو کہ مستقبل میں تیزی سے ان تمام سرکٹ بورڈز کو خاک کردیں گی
،جو مائیکرو الکٹرانک کہلاتے ہیں۔ ’ ناسا ‘ کے مطابق جو صورتحال پیدا ہوگی اس کے اثرات سارے مواصلاتی نظام پر مرتب ہوں گے جس کے سبب سیل فون ٹاورس، انٹرنیٹ سسٹم، ریڈیو، کمپیوٹر، موبائیل اور دیگر اشیاء بھی غیر کارکرد ہوجائیں گی۔ سرکٹ بورڈز ناقابل استعمال ہوجائیں گے اور برقی سربراہی مفقود ہوجائے گی۔ ان حالات کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے ناسا کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اگر یہ صورتحال وقوع پذیر ہوتی ہے تو اس کے اثرات سینکڑوں نیوکلیائی پاور پلانٹس پر بھی مرتب ہوں گے۔ خاص طور پر شمالی امریکہ میں چلائے جانے والے ڈیزل کے جنریٹرس اور کولنگ پمپس کے غیر کارکرد ہونے کے سبب اطراف و اکناف کے نیوکلیائی پاور پلانٹس سینکڑوں ’’ فیکوشیما ‘‘ تباہی کی یاد تازہ کریں گے
اور ان نیوکلیائی پاور پلانٹس سے فاسد مادے کا اخراج بہت بڑی تباہی کا موجب ثابت ہوگا۔ ماہرین فلکیات و موسمیات کے مطابق خلاء میں آب و ہوا کی تبدیلی اور زمین پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ شعاعوں کے کرۂ ارض پر راست اثرات کے سبب یہ حالات انسانیت کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں۔ اس تجزیہ و تحقیق کے متعلق ماہرین کا یہ ادعاء ہے کہ ایسے حالات پیدا ہونے کی بنیادی وجہ برقی و ٹکنالوجی پر انحصار کے علاوہ عالمی حدّت میں آنے والی تیز رفتار تبدیلی ہے اور یہ کہا جانا مشکل ہے کہ جب برقی و دیگر عصری ٹکنالوجی جس کی انسانیت عادی ہوچکی ہے اس کے بغیر زندگی کا کس طرح تصور کیا جائے گا۔ چونکہ اس خوفناک صورتحال کے متعلق کسی بھی طرح سے کرۂ ارض پر زندگی گذارنے والے افراد تیار نظر نہیں آتے چونکہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ دنیا کس قدر تیز رفتار ی سے تباہی کی طرف گامزن ہے۔ جب یہ تباہی شروع ہوگی اس وقت بہت کم لوگ اس بات کو سمجھیں گے چونکہ وہ اب بھی اس بات کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں کہ آخر یہ تباہی کس نوعیت کی ہوگی اور کس طرح دنیا بھر میں چند لمحات میں الکٹرانک سرکٹس میں تباہی پھیلے گی۔ آج انسان اپنی ضروریات کے نام پر اپنے معیار زندگی کو جس بلندی پر پہنچا چکا ہے، اس سے فوری طور پر واپس ہونا اس کے لئے دشوار ہوگا لیکن وہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ غذا، پانی، ایر کنڈیشنڈ کے علاوہ معاشی مصروفیات اور شخصی احساس تحفظ کے بغیر کیسے زندگی گذار سکے گا۔ ناسا کے ماہرین کی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 2012ء کے موسم سرما میں ہی اس چیز کو محسوس کیا گیا تھا اور ممکن ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں یہ صورتحال دوبارہ رونما ہوگی۔ چونکہ ہر صدی میں 12فیصد راست اثرات کے باعث یہ صورتحال پیدا ہورہی ہے جو آئندہ صدیوں کے دوران مزید تیز رفتار ہوسکتی ہیں۔ انسان فی الحال حمل و نقل اور سفری ضروریات کے نام پر نہ صرف زمین کا استعمال کررہا ہے
بلکہ زمین پر چلنے والی مختلف گاڑیوں کے علاوہ فضائی سفر کے ذریعہ تیز رفتار زندگی گذار رہا ہے، لیکن اس تیز رفتار زندگی گذارنے والے انسان کو آئندہ چند لمحات کی زندگی باقی رہنے کا بھی بھروسہ نہیں ہے، مگر جب دنیا کی مکمل تباہی کے متعلق سوچ پیدا ہوتی ہے توانسان ایسی صورت میں یکلخت سکتہ میں آجاتا ہے مگر ناسا کی اس تحقیق اور تباہی کے خدشات و وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو حالات رونما ہونے والے ہیں ان حالات کیلئے خطۂ زمین پر موجود انسان پوری طرح سے تیار نہیں ہے۔ ماضی قریب میں انسانی ضروریات کے نام پر غذا، ہوا، پانی کے علاوہ چند ایسی اشیاء ہوا کرتی تھیں جو زندگی کا اہم عنصر تصور کی جاتی تھیں/ لیکن گذشتہ 20 تا 25برسوں کے دوران جو تیز رفتار ترقی کا مظاہرہ ہوا ہے اس نے نہ صرف انسانی زندگی کی رفتار کو تیز کردیا ہے بلکہ یہ رفتار کئی نقصانات کا موجب بھی بن رہی ہے۔ مثال کے طور پر عموماً یہ کہا جارہا ہے کہ سیل فون ٹاورس سے نکلنے والی شعاعیں انسانی صحت کیلئے مضر ہیں اور کئی محققین اس بات کو ثابت کرچکے ہیں کہ سیل فون ٹاورس کے قریب پرندے اپنے گھونسلے نہیں بناتے بلکہ سیل فون ٹاورس کے اطراف و اکناف سے گذرنے سے بھی پرندے گریز کرتے ہیں۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی حدت میں ہورہی نمایاں تبدیلی میں صرف سمندر کی سطح میں اضافہ ہی وجہ نہیں ہے برفانی علاقوں میں جو تموج پیدا ہورہا ہے اس کیلئے بھی ٹکنالوجی بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ انسان جتنی مشین وغیرہ استعمال کرتا ہے ان سب کے ماحولیات، فضاء، حدت و دیگر پر منفی و مثبت اثرات ہونا واجبی ہے لیکن جس رفتار سے جنگلات کی تباہی اور آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے وہ انسانیت کے تباہی کیلئے کافی تصور کیا جارہا ہے۔ ناسا کی تحقیق کے درست ہونے کا جواز پیش کرتے ہوئے محققین کا کہنا ہے کہ کسی بھی تحقیق کی بنیاد ماضی کے حالات کے ساتھ نمایاں ہونے والی تبدیلیوں پر ہوتی ہے اور ناسا کرۂ ارض پر ہورہی تیز رفتار تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے اس تحقیق کو انجام دے رہا ہے۔