دنیا بھر میں اسلام دشمنی کی تازہ لہر پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

(مولانا)سید احمد ومیض ندوی
اس وقت یوروپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں اسلام دشمنی اور مسلم آزاری کی ایک لہر سی اٹھی ہوئی ہے،گذشتہ چند ہفتوں کے دوران جس قسم کی خبریں اخبارات اور میڈیا کی سرخیوں میں رہی ہیں اُس سے عام مسلمانوں کی تشویش میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے،آسٹریا سے آئی تازہ اطلاعات کے مطابق وہاں کی حکومت نے سات مساجد کو مقفل اور متعدد ائمہ کو برخواست کردیا ہے،حکومت کا کہنا ہے کہ غیر ملکی اقتصادی مدد لینے کے باعث یہ قدم اٹھا یا گیا ہے، آسٹریاکے چانسلر سیبا سٹین کورز نے کہا ہے کہ یہ کارروائی مسجدوں کے سیاسی استعمال کے خلاف کی جارہی ہے، فی الحال سات مساجد اور اُن سے وابستہ ائمہ تک کارروائی کو محدود کردیا گیا ہے لیکن حکومت نے اعلان کیا ہیکہ وہ آنے والے دنوں میں ایسے کئی مزید ائمہ کو ملک بدر کردے گی،جنہیں باقاعد گی سے غیرممالک سے مالی معاونت حاصل رہی ہے، مقفل کی گئی سات مساجد کے تعلق سے حکومت کا کہنا ہے کہ ان مساجد سے ملکی سلامتیکو خطرات کا سامنا ہوسکتا تھا،آسٹریا کے چانسلر کے مطابق یہ فیصلہ مذہبی معاملات کے نگران ادارے کے کئی ہفتوں سے جاری تفتیشی عمل کے بعد کیا گیا ہے،چانسلر کا کہنا ہے کہ وہ مذہب اسلام کے خلاف نہیں ہیں، ان کی یہ کارروائی بعض افراد کی جانب سے اسلام کے سایہ میں جاری سیاسی ایجنڈے کے خلاف ہے، حالیہ مساجد مخالف حکومتی مہم کے دوران حکومت نے جہاں دارالحکومت ویانا کی ایک ایسی مسجد کوبھی تالالگوادیا ہے جو ترک قوم پرستوں کے زیر انتظام تھی،وہیں اُس نے عرب کمیونٹی نام کے ایک مذہبی گروپ کو بھی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ مذہبی گروپ کم از کم چھ مساجد کا انتظام وانصرام کرتا تھا،اب تک دوائمہ کے معاہدے منسوخ کردئیے گئے ہیں اور دیگر پانچ کے معاہدوں کی تجدید نہیں کی گئی ہے،آسٹریا کے اس اقدام کے خلاف ترکی نے سخت نوٹ لیا ہے، ترک صدر طیب اردگان نے کہا ہے کہ یہ حرکت اسلام سے ڈر پیدا کرنے والی نسلی تشدد اور بھیدبھاو? سے بھری ہے، ترک صدر کے ترجمان نے ٹیوٹر پر لکھاہے کہ یہ اوچھی سیاست کے لئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اردگان نے آسٹریا میں درجنوں ائمہ کے ملک بدر کرنے کے فیصلہ کو اسلام دشمنی قراردیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلہ سے دنیا میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان جنگ بھڑکنے کا اندیشہ ہے،انہوں نے کہا کہ اگر آسٹریا یہ عمل انجام دے گا تو جوابی رد عمل سامنے آئے گا،مغربی ممالک کو درست سمت میں فیصلے کرنے چاہئے،واضح رہے کہ آسٹریا میں قریب تین لاکھ ساٹھ ہزار ترک نژاد افراد مقیم ہیں،جن میںایک لاکھ سترہ ہزار ترک شہری ہیں،حکومت کا حالیہ اقدام ترک دشمنی کے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے، جن ائمہ اور مساجد کے خلاف یہ قدم اٹھایاجارہا ہے انہیں ترکش اسلامک یونین آف آسٹریا کی توثیق حاصل ہے، ترکش اسلامک یونین کے منظور شدہ ساٹھ ائمہ اور ان کے افراد خاندان کو بے دخل کردیا گیا ہے، آسٹریائی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام ملک میں مذہبی معاملات کے نگران ادارہ کی جانب سے کئی گئی تفتیش کے بعد کیا ہے، مذکورہ ادارہ نے یہ تفتیش رواں برس ان تصاویر کی اشاعت کے بعد شروع کی تھی جن میں ترکی کی حمایت یافتہ مساجد میں بچے پہلی عالمی جنگ کی گیلی پولی لڑائی کو پیش کرنے کے دوران مرنے اور مارنے کے مناظر کی اداکاری میں مصروف دکھائے گئے تھے،یہ تصاویر جرمن شہر کولون میں واقع ایک ترک اسلامی ثقافتی مرکز کی جانب سے شائع کی گئی تھیں۔

آسٹریا میں مساجد کے خلاف اٹھا یا گیا قدم دراصل اُس اسلاموفوبیا کے اثرات کا ایک حصہ ہے جس کی لپیٹ میں آج پورا یوروپ آچکا ہے،یوروپ میں اسلام دشمنی کی لہر کی شدت کا یہ عالم ہے کہ ہر تھوڑے وقفہ سے کسی نہ کسی یوروپی ملک میں کوئی نہ کوئی اسلام مخالف قدم ضرور اٹھا یاجاتا ہے،آسٹریائی حکومت نے مساجد کے خلاف جو الزامات لگائے ہیں،وہ ٹھوس ثبوت سے عاری ہیں، مساجد کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قراردینا وہی ذہنیت ہے جس پر اسلام دشمن طاقتیں برسوں سے کاربند ہیں،مساجد امن وآشتی اور انسانیت ورواداری کے گہوارے ہیں،خدائے واحد کی عبادت اور روحانی ارتقا کے مراکز ہیں، مساجد کے ممبروں سے دنیا بھر میں اخلاق انسانیت اور بقائے باہم کا پیغام جاتا ہے یہ اسلام دشمن صلیبی اور صیہونی سوچ ہے کہ مساجد جیسے امن کے گہواروں کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قراردیا جائے۔
یوروپ میں اسلامی حجاب کے خلاف مہم کافی عرصے سے جاری ہے،آسٹریا،فرانس،بلجیم وغیرہ میں حجاب پر امتناع پہلے سے عائد ہے، گذشتہ مئی 2016کو ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے بھی نقاب اور برقعے پر پابندی کا قانون منظور کرلیا،جب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لایاگیا توپابندی کے حق میں 75 اور مخالفت میں30 ووٹ پڑے۔اور 74ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا،ڈنمارک میں یکم اگست 2016 ہی سے نقاب پر پابندی کا قانون نافذ العمل ہوچکا ہے، اس قانون کی منظور ی سے ڈنمارک بھی ان یوروپی ممالک میں شامل ہوگیا جہاں نقاب پر امتناع ہے، ڈینش حکومت اگرچہ عوامی سطح پر اس قانون سازی کو برقعہ بینڈ یعنی برقعہ پر پابندی کا قانون کہہ رہی ہے لیکن درپردہ یہ مکمل حجاب کے خلاف مہم ہے، اس قانون کے تحت عام لوگوں کو، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یہ اجاز ت توہوگی کہ وہ اس وقت اپنے چہر ہ کو مکمل طورپر ڈھانک لیں جب ایساکرنا مجبوری ہو یا قانونی طورپر لازمی،مثلا ایسا انتہائی شدید موسمی حالات میں یا ڈینش قانون کے تحت موٹر سائیکل چلاتے ہوئے کیا جاسکے گا جو افراد پہلی مرتبہ اس قانون کی خلاف ورزی کریں گے اُن پر ایک ہزار کرونے تک جرمانہ عائدہے جو 156امریکی ڈالر کے برابر بنتا ہے، باربار اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو دس ہزار کرونے جرمانہ اور چھ ماہ سزائے قید ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی فرد کسی کوزبردستی یا دھمکی دے کر کوئی ایسا لباس یا برقعہ وغیرہ پہننے پر مجبور کرتے ہوئے پایا گیا جس سے دوسرے فرد کا پورا چہرہ چھپ جاتا ہو توایسے کسی بھی مجرم کو جرمانہ کے علاوہ دوسال کی قید ہے۔
ستر اور حجاب فطرت انسانی میں داخل ہے یہی وجہ ہے کہ جب ممنوعہ پھل کھانے کے بعد حضرت آدم اور حوا علیھما السلام کے جسموں سے کپڑے اترگئے تودونوں نے بے ساختہ جنت کے درختوں کے پتوں سے جسموں کو ڈھانکنا شروع کیا (الاعراف)مرد کی بنسبت عورت میں ستر اور جسم کو چھپائے رکھنے کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے، عورت کو اردو میں صنف نازک کہا جانا انتہائی معنی خیز ہے، عورت کی فطری بناوٹ اور اس کی تخلیقی ساخت کا تقاضہ ہے کہ اسے حجاب میں رکھا جائے، لیکن یوروپ فطرت کے خلاف اس لئے جاتا ہے کہ اس کی تہذیب روز اول ہی سے غیرفطری بنیادوں پر قائم ہے اہل یوروپ ہر اس چیز کو گلے لگاتے ہیں جوخلاف فطر ت ہوتی ہے، ہم جنس پرستی غیرفطری عمل ہے، مگر اہل یوروپ کے یہاںیہ انسانی حق ہے حتی کہ بہت سے یوروپی ملکوں میں ہم جنس پرستوں کے آپسی نکاح کو قانونی درجہ تک حاصل ہے، حجاب اگر صنف نازک کا فطری تقاضہ نہ ہوتا تویوروپ میں سب سے زیادہ خواتین مشرف باسلام نہ ہوتیں، بہت سی اسلام میں داخل ہونے والی یورپی خواتین نے اپنے قبول اسلام کا سبب ’’حجاب‘‘ کو بتلایا ہے،اور وہ خاندانی مسلم خواتین سے زیادہ حجاب کی پابند ہیں، ایسی نومسلم خواتین اس بات کا برملااعلان کرتی ہیں کہ حجاب عورتوں کے لئے وقار اور ناموس نسواں کا محافظ ہے، یورپ کی حجاب دشمنی دراصل اس کی اسلام دشمنی کی مظہر ہے، یوروپی حکمراں حجاب،مساجد،ڈاڑھی اور دیگر اسلامی شعائر پر اس لئے امتناع عائد کرنا چاہتے ہیں کہ کہیں اسلامی تہذیب یورپ میں جڑنہ پکڑلے،حجاب کی مخالفت کا اصل مقصد اسلامی تشخص کا خاتمہ اور اسلامی تہذیب کو پھلنے پھولنے سے روکنا ہے، نائن الیون کے بعد سے گذشتہ دودہائیوں کے دوران یوروپ اور دنیا کے دیگر خطوں میں اذان،نماز،روزہ،پردہ اور مسلمانوں کا ہروہ عمل جویوروپ اور پوری دنیا میں اسلام کے تعارف کا ذریعہ بن سکتا ہو شدت سے اُسے نشانہ بنایا جارہا ہے،گذشتہ دوہفتوں کے دوران اس قسم کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں، یوروپ میں اسلام دشمنی کا جادو اب اس قدر سرچڑھ کر بولنے لگاہے کہ اُسے اب اذان میں بھی فضا ئی آلودگی نظر آنے لگی ہے، اس قسم کے اظہار خیال کا مقصد محض اذان کی مخالفت اور صحت کے بہانے اُس پر روک لگانا ہے، ہمارے ملک میں بھی اسلام سے خداواسطے بیر رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے، گذشتہ دوسال قبل ملک کی راجدھانی دہلی میں آئی سی ایس ای اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتاب کے ایک چاپٹرکے تحت ایک ایسی تصویر شامل کی گئی تھی جس میں اذان کو صوتی آلودگی کے ایک ذریعہ کے طورپر پیش کیا گیا تھا،جب چوطرفہ اس پر تنقید ہونے لگی تو پبلشر نے معافی مانگتے ہوئے اگلے ایڈیشن میں تصویر کو ہٹانے کا وعدہ کیا، سیلینا پبلشر کی جانب سے شائع ہونے والی سائنس کی نصابی کتاب میں صوتی آلودگی سے متعلق ایک باب ہے جس کے تحت دی گئی تصویر میں ٹرین،کار،ہوائی جہاز،اور ایک مسجد کے ساتھ تیز آواز کی عکاسی والے نشان ہیں جس کے سامنے ایک شخص دکھا یا گیا ہے جس نے اپنے کان بندرکھے ہیں یہ دراصل شعائر اسلام سیلوگوںکو متنفر کرنے اور اسلام کے تعلق سے طلبہ کے ذہن کو مسموم کرنے کی سوچی سمجھی شرارت ہے، جب ملک میں اس مسئلہ کو اٹھایا گیا توبعض ہندی اخبارات نے لکھاتھا کہ آواز اتنی ہو کہ مسجد کی عمارت سیباہر نہ جائے، حیرت ہے جن لوگوں کادھرم ہی ناچناگانا اور شورمچانا ہے بھلا انہیں صوتی آلودگی سے کیا لینا دینا؟
حالیہ دنوں میں رمضان سے عین قبل ڈنمارک سے ایک خبر آئی ہے کہ ڈنمارک کے وزیر سوزبرگ نے ملک کے مسلمانوں کو مشورہ دیاہیکہ وہ رمضان میں باضابطہ چھٹی لے کر گھر پر رہیں،دس گھنٹے سے زیادہ وقت بھوکے پیاسے رہ کر کام کرنا ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، اس میں درپردہ روزہ رکھ کر ملازمت کرنے والے مسلمانوں کو دھمکی ہے کہ یاتو وہ روزہ رکھ کر گھر بیٹھے رہیں یا ملازمت چھوڑدیں، یہ خیرخواہانہ پیرایہ میں رمضان کے روزوں سے بغض ونفرت کا اظہار ہے جبکہ روزہ انسانی تربیت کا بہترین نسخہ ہے، روزہ دار مسلمان ملک کاایک بااخلاق اور ذمہ دار شہری بنتا ہے،روزہ سے غصہ اور شہوت پر کنٹرول ہوتا ہے یہی وہ دوحالتیں ہیں جن میں انسان ہر قسم کے شہوانی اور دیگر جرائم کا ارتکاب کرتا ہے، انسان کو باکرداربنانے میں روزہ کا کلیدی کردارہوتا ہے اس سے آدمی کے اندر غریبوں سے ہمدردی اور بھوکوں کوکھلانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس ملک میں روزہ کے عادی شہری جتنے زیادہ ہوں گے وہاں جرائم کی شرح اُتنی ہی کم ہوگی،علاوہ ازیں یہ بات زیادہ وزن نہیں رکھتی کہ روزہ ملازمت پر اثر اندازہوتا ہے،یوروپ کی ٹھنڈی فضا میں جہاں بیشتر ملازمین اے سی میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں،بھوک وپیاس کا کوئی احساس نہیں رہتا،محض مسلمانوں کو روزوں سے دوررکھنے کے لئے اس قسم کا شوشہ چھوڑاجارہا ہے۔

چین سے بھی حالیہ دنوں میں اسی قسم کی ایک اطلاع آئی ہے،چین میں گذشتہ کچھ عرصہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے،حالیہ دنوں میں چینی حکومت نے اپنے ایک فرمان میں اعلان کیا ہے کہ اب ہر مسجد میں حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے قومی جھنڈانصب کرنا ہوگا، سال گذشتہ رمضان سے قبل مسلم اکثریتی صوبے ’’سنکیانگ‘‘ میں روزہ پر پابندی لگائی گئی تھی،اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اسلام سے تعلق رکھنے والی تمام اشیاء حکام کے حوالہ کردیں جن میں قرآن پاک کے نسخے اور جائے نماز بھی شامل ہے،اس نئے حکومتی اعلان کے بعد اب کوئی بھی مسلمان مذہبی اشیاء نہیں رکھ سکتا،اسی طرح مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہوئے حکومت نے ’’سنکیانگ‘‘ کے مسلمانوںکے ڈی،این،ائے ٹسٹ،بلڈ گروپ ٹسٹ،اور آئی اسکین شروع کردیا تھا، چینی میڈیا کے مطابق ’’ایغور نسل‘‘کی ایک کروڑ مسلم آبادی کا ڈی،این،ائے،بلڈ گروپ،آئی اسکین، فنگرپرنٹ اور بائیومیٹرک ڈیٹا اکھٹا کیا جارہا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے، صوبہ ’’سنکیانگ‘‘کے مسلمانوں سمیت پورے چین کے مسلمانوں کو حکومت کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اسلامی تشخص کو اس طرح تبدیل کریں کہ چینی معاشرے میں ضم ہوسکیں،مساجد پر چین اور کمیونسٹ پارٹی سے محبت والے نعروں کے بڑے بڑے بیانر آویزاں کئے جانے کی تاکید کی جارہی ہے،سنکیانگ کے لاکھوں مسلمانوں کو پابند سلاسل کردیا گیا ہے،جیلوں میں محروس لاکھوں مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی جاتی ہیں حتی کہ انہیں خنزیر کا گوشت کھانے اور شراب پینے پر مجبور کیا جاتا ہے، نیز انہیں بلانکاح جنسی تعلق قائم کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، پورے چین میں اس طرح کے چار مراکز قائم کئے گئے ہیں جنہیں اسکول کا نام دیا گیا ہے لیکن یہ وسیع ترقیدخانے ہیں، چینی حکومت کی مسلم دشمنی کی انتہا ہے کہ حکومت سوشیل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف مواد کی سرپرستی کرتی ہے،چین میں ہر سال کی طرح امسال بھی رمضان مشکل سے گذرا،اور مسلمانوں کو روزہ نہ رکھنے پر مجبور کیا جاتا رہا،اسکولوں، کالجوں اور سرکاری دفاتر میں کھانے پینے کی چیزیں رکھی گئیں،اور وہاں آنے والے طلبہ اورعام مسلمانوں کو زبردستی کھانے پر مجبور کیا گیا،چین میں اس سے قبل ڈاڑھی پر امتناع عائد کیا گیا تھا، اور عوامی مقامات پر برقع پہننا ممنوع قراردیا گیا تھا، سنکیانگ صوبہ میں 2014سے تاحال رمضان کے روزوں پر پابندی عائد ہے، یہاں نماز کی ادائیگی کو بھی گھروںتک محدود کردیا گیا ہے،اور بچوں کے لئے مذہبی تعلیم پر بھی پابندی ہے،مسلمانوں کے لئے سرکاری ٹی وی چینلوں کا دیکھنا ضروری قراردیا گیا ہے۔

جرمنی میں بھی مسلم دشمنی میں کافی اضافہ ہوا ہے،2017میں جرمنی میں مسلمانوں پر 950 حملے ہوئے،جن میں ساٹھ کے قریب مساجد اور دیگر اسلامی سنٹر پرہوئے،حجاب پہننے پر بھی خواتین کوحملوںکا نشانہ بنایا گیا جن میں تقریباً34مسلمان زخمی ہوئے،اسپین میں 2017میں 546کے قریب اسلامو فوبیا کیکیس ریکارڈ ہوئے جن میں 346میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نفرت پھیلانے کے سلسلے میں سامنے آئے۔2015سے یوروپ میں اسلام دشمنی کی لہر میں کافی شدت آئی ہے، چناںچہ یورپی جمہوریہ چیک میں پہلی مرتبہ چیک کے صدر نے یوروپ میں اسلام دشمنی کے خلاف تقریر کی،اس کے بعدجرمنی میں پگیڈا نامی ایک اسلام دشمن تحریک کی بنیاد ڈالی گئی، جس نے اسلام اور مسلمانوں کیخلاف نفرت پھیلانے میں اہم کردار اداکیا،اس دوران حالات میں اس قدر شدت آئی کہ یوروپی ملک سلواکیہ کیوزیراعظم نے یوروپ سے مطالبہ کیا کہ وہ پوریخطہ میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندی لگادے،یوروپ میں اسلام دشمنی کی شدت کا یہ عالم ہے کہ اسلام دشمنی میں کلیدی کردار اداکرنے والے ہنگریا کے وزیر اعظم کو یورپ میں ہیروقراردیا گیا۔
سوال یہ ہیکہ اس قسم کی حرکتوں کے ذریعے اسلام دشمن عناصر آخر کن مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں، مغرب اور یورپ کی اسلام دشمنی کی وجہ کیا ہے؟اور وہ اسلام دشمنی کے ذریعے کیا اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے؟اس سلسلہ میں عصر حاضر کے معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا یہ اقتباس بڑاچشم کشا ہے،ڈاکٹر صاحب لکھتیہیں:

’’اس ضمن میں سب سے پہلی بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام دنیا کاواحد مذہب ہے جو انسانیت کو مکمل ضابطہ حیات دیتاہے اور معتدل اور متواز ن ترین نظام عدل عطاکرتا ہے، جسیمغرب کے دانشور اپنے نظاموں کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کاخیال ہے کہ اسلامی تہذیب ہماری تہذیب کو نگل لے گی،لہٰذا انہوں نے اسلام کے خاتمہ کیلئے چار اہداف مقررکئے،جن میں سب سے پہلا ہدف یہ ہے کہ قرآن حکیم جو دنیا کی واحد آسمانی کتاب ہے جو من وعن محفوظ ہے اُسے متناز ع بنادیاجائے، تاکہ یہ کتاب مقام حجت سے ہٹ کر بحث ومباحثہ کاموضوع بن جائے، ایسی کوششیں ماضی میں بھی بہت ہوئی ہیں،یعنی کبھی اس کے عنوان سے ایسی تحریکیں شروع کرادیں جواسلام سے متصادم تھیں،جس کی سب سے بڑی مثال قادیانی مذہب،اور پرویزی مکتب فکر کی ہے،دوسراہدف قرآن حکیم کے جہاد فی سبیل اللہ کو وحشیانہ عمل قراردیا جائے،تاکہ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو ختم کیاجاسکے اس کے لئے بھی انہوں نے مسلمانوں کے اندر اپنے ایجنٹ پھیلادئیے،جنہوں نے جہادوقتال کے تصور کو قطعی غلط قراردیا چناںچہ مرزا غلام احمدقادیانی نے نعرہ لگایاتھا ؎
دیں کے لئے حرام ہے اب دوستو قتال
جس پر علامہ اقبال مرحوم نے بھپتیچست کی تھی؎
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب نہیں رہی تلوار کارگر
مغرب کا تیسرا ہدف نبی ﷺ کی ذات اقدس ہے،جسے وہ اپنی گھٹیاذہنیت کے ذریعہ متنازع بناناچاہتے ہیں،تاکہ مسلمانوں کے قلب وذہن سے آپﷺ کااحترام ختم ہوجائے،کیوں کہ مغرب کاخیال ہے کہ جب حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کی امتیوں کے مابین احترام اور محبت کا تعلق ہوگا، مسلمانوں کوکمزور نہیں کیاجاسکتا،مغرب کی اسی ذہنیت کوعلامہ اقبال ؒ نے اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے ؎
یہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
یہی وجہ ہے کہ کبھی گستاخانہ خاکے بنائے گئے،اور پاکستان میں نادان عیسائیوں کے ذریعے گستاخیاں کروائی گئیں،اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کو پناہ دی گئی اور اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ سلمان رشدی کو ادب کیمیدان میں ’’SIR‘‘کے خطاب سے نوازا گیا اور یہ حرکت روشن خیال اور انسانی حقوق کے چمپئن ملک برطانیہ نے سرانجام دی،مغرب کی اسلام دشمنی کے ضمن میں چوتھا ہدف حضورﷺ کا اسوہ مبارکہ ہے،اور یہ اسوہ ہمیں احادیث کی کتب سے ملتا ہے،لہٰذا کوشش کی جارہی ہے کہ احادیث کے بارے میں گمراہ کن خیالات عام کردئے جائیں اور ان کو مشکوک بنادیا جائے،یہی وجہ ہے کہ شعائر اسلام ڈاڑھی،عمامہ،ٹوپی،ساترلباس،مسواک اور زلفوں اور دیگر سنتوں کو دقیانوسیت قراردیاجاتا ہے ان اعمال کے اختیار کرنے والوں کا استھزاء اور تضحیک کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ملکوں کے میڈیا پر جن لوگوں کو علماء اور دانشوروں کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے وہ ڈاڑھی منڈھے اور ننگے سرہوتے ہیں‘‘

اسلام دشمنی کی اس عمومی فضاء میںبس ہمیں دوکاموں پر خصوصی توجہ دینی ہوگی ایک یہ کہ ہم اسلام کے خلاف مغرب کی پروپیگنڈہ مہم کا پوری قوت اور تمام تروسائل کے ساتھ مقابلہ کریں،مغر ب اسلام فوبیا کا شکار ہے،مغربی دانشور اور حکمراں لوگوں کے سامنے اسلام کوخطرہ باورکرانے کے لئے اس بات کا خوب چرچاکرتے ہیں کہ اسلام یوروپ میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے،اگر اہل یوروپ نے احتیاطی تدابیر کو نہ اپنایا تویوروپ میں مسلمان اکثریت میں آجائیں گے اور ہمارا تہذیبی وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا، حالاں کہ آبادی کے لحاظ سے مسلمان اتنے نہیں ہیں کہ مستقبل قریب میںیوروپ میں تناسب کو تبدیل کردیں محض اسلام اور مسلمانوں کاخوف دلانے کے لئے وقفہ وقفہ سے ایسی رپورٹیں سامنے لائی جاتی ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام تیز رفتاری کے ساتھ پھیل رہا ہے اس کے لئے یوروپ میں باضابطہ ادارے قائم ہیں،امریکہ میں ایک ادارہ ’’پیرورریسرچ سنٹر‘‘کے نام سے قائم ہے، جو ہر چند سالوں میں اس قسم کے جائزے پیش کرتا رہتاہے اسی ادارہ کی حالیہ ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ 2050تک یوروپ کی آبادی میں ساٹھ فیصد مسلمان ہوں گے،یہ ایک منفی پروپیگنڈہ ہے، ہمارے ملک کی ہندوتواطاقتیں بھی مسلم آبادی میں اضافہ کاہواکھڑا کرتی رہتی ہیں،تاکہ ہندواکثریتی طبقہ کو خوف دلاکر مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا جائے،اس میں شک نہیںکہ اس وقت پوری دنیامیں اسلام ہی واحد مذہب ہے جوتیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے چوںکہ وہ دین فطرت ہے اس لئے اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے اور سب سے زیادہ اسلام یوروپی معاشروں میں لوگوں کے دلوں کو جیت رہا ہے،قبول اسلام سے متعلق ساری تحقیقاتی رپورٹیں بے اصل نہیں ہیں لیکن مسلمانوں کو چوکنا رہنا چاہئے اور اصل حقائق کو سامنے لاتے رہناچاہئے، نیز میڈیا پر اسلام اور تعلیمات اسلام کی جو غلط شبیہ پیش کی جاتی ہے اس کا ازالہ بھی ضروری ہے۔
دوسرا کام یوروپ اور مغربی معاشروںمیںمسلمان اسلامی تعلیمات واخلاق کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے دعوت اسلام پر سار ا زور صرف کریں کہ دعوت ہی اس وقت واحد راستہ ہے جس سے ہماری مشکلات دورہوسکتی ہیں۔