دل مرتضیٰ سوز صدیق دے

محمد مصطفی علی سروری
ماہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہوچکا ہے مسلمانوں کے شب و روز کی مصروفیات بدل چکی ہیں۔ ٹیلی ویژن پر تفریحی چیانلس کی جگہ مذہبی چیانلس اور پروگراموں نے لے لی ہے۔ موسیقی کے بجائے حمد و نعت سننے سنانے کا اہتمام چل رہا ہے ۔ واٹس اپ پرلطائف کی جگہ دینی پیغامات اور احادیث مبارکہ و اقوال زرین ایک دوسرے کو بھیج رہے ہیں۔ فیس بک پر بہترین حلیم کے ذائقوں کو تلاش کیا جارہا ہے۔ Swiggy اور Zomato پر حلیم منگوانے کیلئے ڈسکاؤنٹ کوپن کے تذکرے چل رہے ہیں۔ مساجد کے اطراف و اکناف بڑی شان و شوکت کے ساتھ عارضی دوکانیں سج چکی ہیں۔ تراویح کی نمازیں کس مسجد میں سب سے جلد اختتام پذیر ہورہی ہیں ، اس کے متعلق مشورے چل رہے ہیں اور لوگوں سے چندے جمع کر کے افطار کی عوامی دعوتیں منعقد کی جارہی ہیں۔ خیراتی ادارے زکوٰۃ و عطیات کی وصولی کے لئے اپیلیں کر رہے ہیں۔ اشتہارات شائع کروائے جارہے ہیں۔ غرض ہر طرح سے بابرکت مہینے کی مصروفیات دنیا بھر کو دکھائی دے رہی ہے۔ کیا یہی رمضان المبارک ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعا سکھائی تھی کہ اے اللہ تو برکت دے ، رجب و شعبان میں اور پہونچا ہم کو رمضان میں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
ہم نے رمضان المبارک کے مہینے کو عبادت سے زیادہ ایک تہوار بنالیا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اس مقدس مہینے کے دوران بھی ہم مسلمانوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔

پہلی خبر دہرہ دون سے 25 مئی کو رپوٹ کی گئی کہ اترکھنڈ کے ایک مندر میں ہندو نوجوانوں نے ایک مسلم نوجوان کو ایک ہندو لڑکی کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھ لیا اور جب ہندو نوجوانوں نے اس مسلمان نوجوان کو سبق سکھلانے کا فیصلہ کیا اور مندر کا دروازہ بند کر کے اس مسلم نوجوان کو پکڑنے کی کوشش کی تو اس وقت اترکھنڈ پولیس کا ایک سردار پولیس والے نے مسلم نو جوان کو بچا کر باہر نکالنے میں مدد کی ۔
رمضان المبارک میں بھی مسلمان مساجد کا راستہ بھول گئے ہیں اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ ایک مسلم نوجوان ایک غیر مسلم ہندو لڑکی سے ملاقات کرنے مندر کے احاطہ میں جاتا ہے ، کیا مسلمانوں کو اس بات کا بھی ہوش نہیں کہ اس وقت حکمراں جماعت کون ہے اور ہمارے پرامن سماج میں اس طرح کے واقعات پر کس قدر ہنگامہ آرائی کی جارہی ہے اور آگے بھی کی جاسکتی ہے ، یہ تو اترکھنڈ سے آنے والی خبر تھی۔
29 مئی کو اخبار دکن کرانیکل نے سکندر آباد ریلوے پولیس کی جانب سے 39 برس کی ایک مسلم خاتون ذاکرہ بیگم کو گرفتار کرنے کی خبر شائع کی ۔ اس خاتون کے متعلق سکندرآباد ریلوے پولیس کے سپرنٹنڈنٹ جی اشوک کمار نے بتلایا کہ ذاکرہ بیگم کے قبضے سے پولیس نے ریلوے مسافرین سے لوٹے جانے والے 9 تولہ سونے کے زیورات بھی برآمد کرلئے ۔ یہ خاتون اس سے قبل بھی ریلوے مسافرین کو لوٹ لینے کی 5 وارداتوں میں ملوث پائی گئی ہے۔
24 مئی کی ایک اور خبر شہر کے کوکٹ پلی پولیس اسٹیشن کے حدود سے رپورٹ کی گئی کہ موسیٰ پیٹ کے لیبر اڈے پر کام کرنے والے سید پاشاہ کا وہاں پر واقع ایک تاڑی خانے میں اپنے کسی ساتھی سے 100 روپیوں کو لیکر جھگڑا ہوگیا ۔ پینٹر کا کام کرنے والے پاشاہ کو تاڑی خانے میں ہی جھگڑے کے دوران دوسرے ساتھی نے مارک ہلاک کردیا ۔ خبر میں بتلایا گیا کہ پاشاہ کی بیوی اور دو بچے ہیں۔ ہماری امت کو کیا ہوگیا ہے کہ جو کام ہم سال بھر کرتے رہتے ہیں، ان سے بچ کر رہنا (اب مقدس ماہ کے دوران ) ہمارے لئے مشکل ہوگیا ہے۔ پینٹر عام دنوں میں دوستوں کے ساتھ تاڑی پینے جاتا تھا اور رمضان المبارک کے دوران بھی اس کی مصروفیات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور پھر تاڑی خانے کے جھگڑے نے بالآخر اس کی جان ہی لے لی ۔ ہمارے سماج میں کتنے ایسے محنتی لوگ ہیں جو صبح سے لیکر شام تک محنت کرتے ہیں، تب ہی جاکر ان کے گھر میں چولہا جلتا ہے اور اپنی دن بھر کی تھکن کو اتارنے کتنے لوگ ایسے ہیں جو نشہ کرتے ہیں ۔ ان کی اصلاح کرنا کس کی ذمہ داری ہے ۔ کیا کوئی ہے جو اس مسئلہ پر غور کرنا چاہتا ہے ۔
کتنی خبریں ہیں، کتنی اطلاعات ہیں جن پر میں قارئین اکرام آپ حضرات کی توجہ مبذول کرواسکتا ہوں۔ ان خبروں کو ہم لوگ ابھی تک اکا دکا واقعات کہہ کر نظر انداز کرتے رہے لیکن ان کی اصلاح کے لئے اُٹھ کھڑے ہونے کی ذمہ داری کسی فرشتوں کی جماعت کی نہیں ہے۔ پاشاہ کی طرح اور بھی مسلم ہیں جو پینٹر کا کام نہیں کرتے لیکن نشہ کی عادت میں ملوث ہیں۔ مسلم نوجوانوں سے نشہ کی عادت چھڑانے کے لئے کون کام کر رہا ہے۔
اگر ذاکرہ بیگم 39 سال کی عمر میں ریلوے مسافرین کو لوٹنے کا کام کر رہی ہے تو وہ کون لوگ ہیں جن کا پیٹ پالنے کیلئے ذاکرہ کو یہ کام کرنا پڑ رہا ہے ۔ کیا ذاکرہ کا شوہر بھی کام دھندا نہیں کرتا اور نشہ کا عادی ہے ، ایسا ہوسکتا ہے ۔ ورنہ کوئی عورت یوں ہی چوری کرنے کیلئے گھر سے باہر نہیں نکلتی۔ ذاکرہ اگر غریبی کے سبب چوری کرنے پرمجبور ہے تو کیا خدائے تعالیٰ مجھ سے سوال نہیں کرے گا کہ میں اپنی زکوٰۃ کی رقم ذاکرہ جیسی ضرورت مند غریب مستحقین تک کیوں نہیں پہونچا رہا ہوں ؟ سوچنا ہوگا غور کرنا ہوگا ۔

ذاکرہ اب رمضان کا بقیہ حصہ عورتوں کی جیل میں گزارے گی جب تک اس کی ضمانت نہیں ہوتی یا اس کو بیل (Bail) نہیں ملتی ، میری کیا ذمہ داری ہے ؟ کیا میں عورتوں کی جیل میں قید مسلم خواتین کو سحری اور افطاری پہونچاکر سکون کی سانس لے سکتا ہوں۔ ان عورتوں کو جو جیل میں قید ہے ، انہیں اسلام کی صحیح تعلیمات سکھلانے کی ضرورت ہے ۔ صرف عورتوں کو ہی کیوں کیا وہ مسلمان مرد جو جیل میں قید ہیںانہیں افطاری و سحری پہونچانا اہم ہے یا ان کی کونسلنگ اور انہیں اسلامی تعلیمات و دینیات سکھلانا ضروری ہے لیکن یہ کام کرے گا کون ؟ مسلمانوں کی کوئی ایسی NGO بھی نہیں ہے جو قیدیوں کی اصلاح کیلئے سرگرم عمل ہو۔ قیدیوں کی اصلاح تو چھوڑیئے نشہ کی عادتوں کو ترک کروانے کیلئے مسلمانوں میں کام کرنے والوں کی ضرورت ہے ۔ دعا تو یقیناً مومن کا ہتھیار ہے اور ہم لوگ یوں ہی دعا کرتے رہیں گے یا کوئی عملی صورت گری بھی کی جائے گی۔ اس رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ٹاسک فورس سنٹرل زون کی ایک ٹیم نے عابڈس پولیس کی مدد سے جوا کھلانے والے سات لوگوں کو ایک اپارٹمنٹ سے گرفتار کرلیا ۔ اخبارات نے ان لوگوں کے جو نام شائع کئے ہیں ، وہ سب کے سب مسلمانوں کے ہیں ، پرانے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ عابڈس کے علاقہ میں ایک اپارٹمنٹ کرایہ پر لیکر وہاں پر لوگوں کو جوا کھلایا کرتے تھے ۔ پولیس نے ان لوگوں کو حراست میں لے لیا ۔ ان کے قبضہ سے 104 کارڈز اور آٹھ سیل فونس بھی ضبط کرلئے ۔ یہ لوگ روزانہ رات گیارہ بجے سے لے کر صبح چار بجے تک لوگوں کو فی کس 500 روپئے لیکر کارڈز کھیلنے کا موقع فراہم کرتے تھے۔
رمضان کے علاوہ دنوں میں ہماری عادات اس قدر پختہ اور مضبوط ہوگئی ہیں کہ رمضان المبارک میں شیطان کو قید کردینے کے باوجود وہ عادتیں ہم سے چھوٹی نہیں جارہی ہیں ۔ کیا یہ تشویش کی بات نہیں ہے ؟ مسلمانوں کی اس پستی کا کون افسوس کرے گا اور قوم کو اس دلدل سے باہر نکالنے کیلئے کیا اقدامات کرنا چاہئے ۔ کس کس چیز کا رونا روئیں؟

24 مئی جمعرات کو پہاری شریف پولیس نے یو پی سے آکر شہر حیدرآباد میں سکونت اختیار کرلینے والے دو مسلم نو جوانوں کو گرفتار کر کے میڈیا کے روبرو پیش کیا ۔ ان دونوں نوجوانوں پر پولیس نے الزام عائد کیا کہ یہ لوگ دن کے اوقات میں جانوروں کے شیڈس دیکھ لیا کرتے تھے اور پھر رات میں چاقو اور چھریوں سے لیس ہوکر جانوروں کے اس شیڈ میں گھس کر جانور ذبح کرتے اور انہیں کاٹ کر گوشت پلاسٹک کے تھیلیوں میں بھر کر لے جاتے اور اس گوشت کو بیچ دیتے ۔ پولیس نے ان دو مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے قبضے سے چار لاکھ مالیتی گوشت اور نقد رقم برآمد کی ۔ جانوروں کو چوری کر کے پھر انہیں کاٹ کر بیچنے والوں کی اس گرفتاری پر بھی ہمیں کوئی فکر نہیں ہے۔ ہم تو اس بات پر خوش تھے کہ رمضان کے مہینے میں بھی ہمیں مارکٹ کی قیمت سے کم قیمت پر گوشت مل رہا ہے۔ یا الٰہی یہ مجھے کیا ہوگیا ہے ۔ رمضان المبارک کے دوران بھی مجھے سب سے زیادہ فکر اگر کسی چیز کی ہورہی ہے تو اچھے کھانے اچھے مشروبات اور صرف اچھی غذاؤں کے بارے میں ہی سوچ رہا ہوں۔
قارئین میں نے ابھی اس خبر کا ذکر ہی نہیں کیا ہے جو اس ماہ مبارک کے آغاز میں ہی ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑنے کا سبب بنی تھی کہ کس طرح دبیر پورہ علاقہ میں ایک مسلم خاتون کو جان سے مارنے کے بعد اس کی نعش کو پلاسٹک سے پیاک کر کے ریلوے ٹریک کے بازو پھینک دیا گیا تھا اور اس مسلم خاتون کا قتل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا شوہر ہی تھا ۔
کچھ بھی تو نہیں بدلا غیرے رمضان میں جو جو چیزیں ہوتی تھی سب کچھ وہی تو ہورہی ہیں لیکن کیا ان چیزوں کو آپ غلط سمجھتے ہیں۔ اگر نہیں تو تعجب ہے۔ مسلمان اگر جسم واحد ہیں تو انہیں یہ درد محسوس ہونا چاہئے ۔ رمضان صرف دکھاوے کامہینہ نہیں ہے۔ رمضان تربیت کا تزکیہ نفس کا مہینہ ہے ، کسی اور کی تربیت نہیں کم سے کم اپنی اور اپنے گھر والوں کی تربیت کی ہی فکر کرلیں۔ انشاء اللہ بہتر شروعات ہوگی ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اوران لوگوں کا راستہ چلا جن کی بخشش کا اس ماہ مبارک کے دوران اللہ نے وعدہ فرمایا ہے ۔ آمین ۔ بقول علامہ اقبال ؎
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضیٰ سوز صدیق دے
sarwari829@yahoo.com