دلیپ کمار کی آپ بیتی حقیقت اور پرچھائیاں ۔ ایک نظر میں

ڈاکٹر مسعود جعفری
ہندوستانی سنیما کے شہرہ آفاق اداکار دلیپ کمار نے پچھلے سات دہوں میں پردہ سیمیں پر اپنی اداکاری کے گہرے نقوش ثبت کئے۔ اپنے فن سے کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ دیوآنند اور شاہ رُخ خان کے بعد قدرت کی اس انمول ہستی نے اپنی بائیو گرافی کے موتیوں کو اوراقِ سادہ پر بکھیر دیا ہے۔ اُنھوں نے اس سوانح عمری کو خود نوشت قرار دیا ہے۔ لغوی معنی میں یہ خود نوشت نہیں کہی جاسکتی ہے۔ اسے فلمی صحافی اودے تارا نائر نے تحریر کیا ہے۔ دلیپ کمار اپنے حالات زندگی شستہ اُردو میں بولتے چلے گئے۔ اسے ٹیپ کیا جاتا رہا۔ مختلف نشستوں میں یہ کام انجام دیا جاتا رہا۔ 2004 ء سے اِس کا آغاز ہوا۔ اودے تارا نے شہنشاہِ جذبات کے رومانی، شاعرانہ، جمالیاتی فصیح و بلیغ تاثرات کو نقی احمد کی مدد سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ یہ سلسلہ ابتداء سے انتہا تک چلتا رہا۔ اپنی سوانح حیات کو دوسروں سے قلمبند کرانا کوئی نئی بات نہیں۔ ایسا تجربہ شیخ عبداللہ اور قتیل شفائی نے کیا ہے۔ دونوں کی کتابیں آتش چنار اور گھونگھرو ٹوٹ گئے کے نام سے چھپ چکی ہیں۔ دلیپ کمار اپنی والدہ کو اماں اور والد کو آغا جی بلاتے ہیں۔ اُنھوں نے کتاب کو والدین کے نام معنون کرتے ہوئے ان اشعار کا حوالہ دیا ہے :

سکون دل کے لئے کچھ تو اہتمام کروں
ذرا نظر جو ملے پھر انھیں سلام کروں
مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجئے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
ان نکہت و نور میں ڈوبے ہوئے اشعار سے دلیپ کمار کی اپنے والدین سے بے پناہ محبت و مودت کا پتہ چلتا ہے۔ انھیں اپنے والد محمد سرور خان اور والدہ عائشہ بیگم سے غیرمعمولی اُنسیت رہی۔ وہ اپنے بھائی بہنوں کو بھی ٹوٹ کے پیار کرتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی بہنوں کی دیکھ بھال، کفالت، تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہیں کی۔ بڑی بہن سکینہ آپا مجرد ہی رہیں۔ اُنھوں نے چھوٹی بہن اختر کو لندن میں تعلیم دلائی۔ اختر سے بہت سی توقعات تھیں۔ جب وہ اپنی عمر سی دوگنی عمر والے ہدایت کار کے آصف کے ساتھ فرار ہوگئیں تو دلیپ کمار کو بہت رنج و ملال ہوا۔ وہ اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ اُنھوں نے مغل اعظم کے پریمیر شو میں شرکت سے انکار کردیا۔ ان کی حساس طبیعت کا اندازہ ان کی فلم کی ہیروئین کامنی کوشل کی سرد مہری اور تعلقات کے ٹوٹنے سے ہوتا ہے۔ مشہور رقاصہ ستارہ کے بیان کے مطابق دلیپ کمار کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ بے حد غمگین تھے۔ کامنی کوشل کے بھائی نے ان سے فون پر کہا تھا کہ وہ ان سے کبھی نہیں ملے گی۔ وہ اس سے بات کرنے یا ملاقات کرنے کی کوشش نہ کریں۔ کامنی کوشل کی بے وفائی سے دلیپ کمار بکھر گئے تھے۔ اسی طرح مدھو بالا اور اس کے باپ عطاء اللہ کے ناروا سلوک سے بھی ان کے دل پر گہری چوٹ لگی۔ وہ مدھو بالا سے شادی کے متمنی تھے۔ عطاء اللہ چاہتے تھے کہ شادی کے بعد دلیپ کمار ان کے گھر رہیں۔ مدھو بالا بھی اپنے باپ کی طرفدار تھیں۔ یہ باہمی کشاکش اُس وقت بام عروج پر پہونچی جب مدھو بالا کو فلم نیا دور سے باہر کردیاگیا۔ معاملہ کورٹ کچہیری تک گیا۔ عطاء اللہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آؤٹ ڈور شوٹنگ کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ فلم کے ڈائرکٹر بی آر چوپڑا نے زچ ہوکر مدھو بالا کو فلم سے نکال دیا۔ دلیپ کمار نے کہا ہے کہ مدھو بالا کے فلم سے اخراج میں ان کا کوئی رول نہیں تھا۔ اس واقعہ کے ذمہ دار باپ بیٹی تھے۔ مدھو بالا سے راہ و رسم ختم ہوجانے کے بعد دلیپ کمار نے چین کا سانس لیا۔ تاہم ان پر انہی کے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک شعر صادق آتا ہے :
اسیر درد محبت جیا ، جیا ، نہ جیا
ہے ایک سانس کا جھگڑا ، لیا ، لیا نہ لیا

دلیپ صاحب نے اپنے روحانی کرب کو غالب کے الفاظ میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
انھوں نے غمِ ذات کو غمِ دنیا میں شامل کرلیا ہے۔ ان کی مفکرانہ سوچ، متلاشی نگاہیں راز ہائے فطرت کو بے نقاب کرنے کے لئے مضطرب رہتی ہیں۔ ان کا مزاج ادھ کھلے پھول کی مانند رہا۔ اُنھوں نے خود کو منکشف کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ خود بین و خود نگر کے ساتھ خود آگاہ بھی رہے۔ ان کے شرمیلے پن کو راج کپور نے دور کرنے کی کوشش کی۔ جب دیویکا رانی نے انھیں اسٹوڈیو میں 1250/- روپئے مشاہرہ پر ملازمت دی تو وہ خوشی سے پھولے جارہے تھے۔ گھر آنے کے بعد ان کے بھائی ایوب خان نے سوال کیاکہ 1250/- روپئے سالانہ ہیں یا ماہانہ تو دلیپ پریشان ہوگئے۔ جب دیویکا رانی نے فون پر کہاکہ وہ ماہانہ تنخواہ ہے تو ان کی جان میں جان آئی۔ دلیپ کمار کو کے آصف نے فلم انارکلی میں اس لئے نہیں لیا کیوںکہ وہ اس وقت بہت دبلے پتلے تھے۔ وہ شہزادہ سلیم کے رول کے لئے مناسب نہیں تھے۔ اس کے باوجود وہ اور ان کی بیوی ستارہ دلیپ کمار کی پُرکشش قد و قامت کی مداح ہوگئیں۔ دلیپ پشاور کے قصہ گویان بازار سے بمبئی آئے تھے۔ ان کی پہلی فلم جوار بھاٹا میں وہ صرف بیس برس کے تھے۔ وہ پشتو، اُردو اور فارسی جانتے تھے۔ ان کا ذوق شاعری، داستان گوئی، موسیقی صاف ستھرا رہا۔ ان کی یادداشت میں محلہ کی کہانیاں اور قصے محفوظ رہے۔ انھیں سب کچھ لفظ بہ لفظ یاد تھا۔ دلیپ کمار کا ایک بڑا کارنامہ تھا کہ اُنھوں نے فلموں سے زور و شور سے مکالمے ادا کرنے کے چلن کا خاتمہ کیا۔ پارسی تھیٹر کے اثرات سے چھٹکارا دلایا۔ دلیپ کمار کی بائیو گرافی میں ایک عہد، ایک تہذیب زندہ و تابندہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک سیاسی و سماجی دانشور بھی ہیں۔ وہ صف اول کے جہدکار بھی رہے۔ وہ نہرو سے متاثر رہے۔ نہرو بھی ان کے مداح تھے۔ کتاب میں ایک ایسی نایاب تصویر دی گئی ہے جس میں پنڈت نہرو دلیپ کمار کا ہاتھ بڑے ہی پیار سے تھامے آگے قدم بڑھارہے ہیں۔ نہرو کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر تبسم رقصاں ہے۔ دلیپ کمار کی سماجی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کا احاطہ کتاب میں کیا گیا ہے۔ دلیپ کمار برفانی سرحدوں میں فوجیوں کا دل بہلا رہے تھے۔ شدید سردی کے باعث محمد رفیع کی طبیعت خراب ہوگئی، ان کی آواز بیٹھ گئی۔ دلیپ کمار نے انھیں دلاسہ دیا۔ رفیع کو گرم پانی میں شہد گھول کر پلایا جاتا رہا۔ صبح تک ان کی آواز لوٹ آئی۔ وہ دلیپ کے ممنون و شکر گزار رہے۔

تاحیات وہ دلیپ کمار کی دردمندی و خدا ترسی کے معترف رہے۔ دلیپ کمار نے بائیو گرافی میں ایک باب ’’خاتون میری زندگی میں‘‘ کے عنوان سے مختص کیا ہے۔ اُنھوں نے سائرہ کو مشرقی و مغربی قدروں کا آئینہ دار لکھا ہے۔ دلیپ کمار نے فلم رام اور شیام میں محمود کے کہنے پر ممتاز کو منتخب کیا تو سائرہ چراغ پا ہوگئیں۔ سلام کلام بندکردیا۔ سرد جنگ چھیڑ دی۔ دلیپ کمار نے محسوس کیاکہ سائرہ بچی نہیں رہی۔ وہ ایک عورت بن چکی ہے تو ان کی جانب توجہ کی اور آخرکار 1966 ء میں شادی کرلی۔ دلیپ کمار نے پری چہرہ نسیم بانو کے گھر میں ہونے والی ایک ایسی نغمہ ریز محفل کا ذکر کیا ہے جس میں دیوآنند، راجندر کمار، سنجے خان، سنجیو کمار کے علاوہ دیگر ستارے موجود تھے۔ وہ ایک یادگار تقریب تھی۔ دلیپ کمار نے ویلن پر ان سے اپنی دوستی کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ پران نے مزاحیہ اداکاری کے لئے دلیپ کمار کی حوصلہ افزائی کی۔ دوسرے لوگ ان کے المیہ امیج کی حمایت کررہے تھے۔ دلیپ کمار نے لکھا ہے کہ اُنھوں نے فلم آن میں پریم ناتھ کو جذباتی رول میں پیش کرنے کی سفارش محبوب خان سے کی تھی اور وہ مشورہ کامیاب ثابت ہوا۔ صاحبِ کتاب نے انکشاف کیا ہے کہ مشہور کامیڈین مقری ان کے ہم جماعت تھے۔ دلیپ کمار کی یہ سوانح عمری معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ یہ 25 ابواب پر مشتمل ہے۔ کتاب 456 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ سرورق پر دلیپ کمار کی خوبصورت تصویر ناظرین کو ان کی جانب کھینچتی ہے۔ کتاب میں نادر و نایاب تصویریں ہیں جو یادگارِ زمانہ ہیں۔ اِن تصاویر میں شامل بہت سے لوگ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی یادیں باقی ہیں۔ دلیپ کمار کی شادی کی ایک ایسی تصویر بھی ہے جس میں راج کپور ان کے بازو بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس نایاب کتاب میں چیدہ فلمی ستاروں کے مشاہدات بھی ہیں۔ سب نے دلیپ کمار کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ آخر میں دلیپ کمار کی فلموں کی فہرست دی گئی ہے۔ کتاب کے پہلے ورق پر صاحبِ تصنیف کی دستخط ہیں۔ آن لائن سے کتاب ساڑھے پانچ سو روپئے میں منگوائی جاسکتی ہے۔ انگریزی سلیس و رواں ہے۔ چھپائی شاندار ہے۔ یہ بائیو گرافی دلیپ کمار کے پرستاروں کے لئے تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔