دہشت گردی …پاکستان سے مودی کی ہمدردی برقرار
ویتنام کی مچھلیوں کو غذا… کشمیریوں کیلئے مرچ گرینیڈ
رشیدالدین
بیرونی دوروں کے ماہر وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ ایک ہفتہ میں تین ممالک کادورہ کرتے ہوئے تین چوٹی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ چین میں G-20 اور لاؤس میں آسیان اور ایسٹ ایشیا سمٹ میں نریندر مودی شریک رہے۔ مودی نے دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو اہم ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ۔ کشمیر کے گزشتہ دو ماہ کے حالات کے پس منظر میں نریندر مودی کے تیور سخت دکھائی دے رہے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ ہندوستان کو اس معاملہ میں کتنے ممالک کی تائید حاصل ہوئی۔ عالمی قائدین کی موجودگی میں اپنے موقف کا اظہار کردینا کافی نہیں بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ عالمی قائدین کا ردعمل کیا رہا۔ جی 20 میں مودی نے پاکستان پر دہشت گردی کے ایجنٹس کو پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے عالمی برادری سے پاکستان کے خلاف متحدہ کارروائی کی اپیل کی۔ اس کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے مسئلہ پر پاکستان پر تحدیدات عائد کرنے سے انکار کردیا۔ امریکہ ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان پر دباؤ بنارہا ہے تو دوسری طرف معاشی امداد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے مفادات کی تکمیل کیلئے ہندوستان سے بہتر پاکستان ہے، لہذا اس کا رویہ پاکستان کے ساتھ نرم دکھائی دے رہا ہے ۔ ملک کی خارجہ پالیسی اس قدر مضبوط ہونی چاہئے کہ عالمی فورم میں دوسرے ممالک ہندوستان کی تائید میں کھڑے ہوجائیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ دونوں کانفرنسوں میں وزیراعظم نے پاکستان کا نام نہیں لیا بلکہ صرف اشاروں میں حوالہ دیا۔ کبھی ’’ایک پڑوسی ملک‘‘ تو کبھی ’’ایک ملک‘‘ کہہ کر مودی نے پاکستان کو نشانہ بنایا۔ آخر پاکستان کا نام نہ لینے میں کیا مصلحت تھی۔ یہ مصلحت تھی یا پھر ہمدردی ؟ نواز شریف سے دوستی کا اس قدر پاس و لحاظ ہے کہ نریندر مودی کو نام لیکر تنقید کرنا گوارا نہیں۔ سرحد پار دہشت گردی کو پاکستان کی حوصلہ افزائی کوئی نئی بات نہیں۔ پھر وزیراعظم نے ملک کا نام لینے کے بجائے اشاروں میں کیوں بات کی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ مودی ہرگز نہیں چاہتے کہ نواز شریف کو تکلیف ہو کیونکہ انہیں نومبر میں سارک چوٹی کانفرنس کیلئے اسلام آباد جانا ہے۔
بین الاقوامی فورمس میں پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم نے دراصل ضابطہ کی تکمیل کی ہے۔ نریندر مودی پاکستان دورہ کیلئے کس قدر بے چین ہیں، اس کا اظہار پاکستان میں ہندوستانی ہائی کمشنر نے کیا۔ وزارت خارجہ نے وضاحت کی کہ دورہ کا قطعی فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی اپنے دوست نواز شریف کی ہارٹ سرجری کے بعد عیادت کے لئے بے چین ہیں۔ نریندر مودی کو اگر پاکستان جانا ہے تو انہیں کشمیر کے حالات کو معمول پرلانا ہوگا۔ اس سلسلہ میں پاکستان کا تعاون ضروری ہے۔ تمام باہمی تنازعات پر مذاکرات کے ذریعہ ہی دونوں ممالک میں کشیدگی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ دونوں ممالک کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ صرف مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہے جو کشمیر میں امن کو بحال کرسکتا ہے ۔ دونوں وزرائے اعظم کی دوستی کو دونوں ممالک کی خوشحالی امن اور بھلائی میں بدلنا ہوگا۔
پاکستان سے نرم رویہ کی ایک اور مثال پاکستانی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ طلبی ہے۔ کراچی میں ہندوستانی ہائی کمشنر کے پروگرام کو اچانک منسوخ کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے وزارت خارجہ نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کیا۔ سفارتی امور کے ماہرین کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہندوستان نے پاکستانی ہائی کمشنر کو اس وقت طلب نہیں کیا جبکہ اس کی ضرورت تھی۔ 14 اگست پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر ہائی کمشنر نے دہلی میں بیٹھ کر جو بیان دیا تھا، وہ قابل سرزنش تھا۔ ایسے وقت جبکہ کشمیر میں صورتحال خراب ہے، پاکستانی ہائی کمشنر نے یوم آزادی پاکستان کو کشمیریوں کے نام کرتے ہوئے تیل چھڑکنے کا کام کیا تھا ۔ اس وقت ہندوستان کی کان پر جوں نہیں رینگی۔ پاکستانی ہائی کمشنر متنازعہ بیانات کیلئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے بیانات پر خاموشی اور کراچی میں تقریر کی منسوخی پر وزارت خارجہ کا احتجاج مضحکہ خیز ہے ۔ 14 اگست کے بیان پر ہندوستان اگر پاکستانی ہائی کمشنر کو ملک واپس ہونے کا حکم دیتا تو اس کا فیصلہ جائز تھا لیکن ہندوستان نے خاموشی اختیار کرلی۔ ہندوستان کو بنگلہ دیش سے سبق سیکھنا چاہئے ۔ پاکستان نے جب بنگلہ دیش میں مسلم رہنماؤں کو پھانسی کی مذمت کی تو اس نے بطور احتجاج اپنے سفیر کو پاکستان سے واپس طلب کرلیا ۔ حکومت کے خلاف تنقید پر ملک سے غداری کے مقدمات درج کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان کے سفارتی عہدیدار سے ہمدردی کیوں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی مقصد براری کیلئے دونوں وزرائے اعظم بناوٹی کشیدگی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کے مبصرین نے یہاں تک کہہ دیا کہ پناما لیکس میں ملک کے باہر نواز شریف کی دولت کے بارے میں انکشافات سے توجہ ہٹانے کیلئے کشمیر کے مسئلہ کو اچھالا جارہا ہے اور اس سلسلہ میں وزیراعظم نریندر مودی تعاون کر رہے ہیں۔ یہ وہی نریندر مودی ہیں جنہوں نے وزیراعظم بننے سے قبل پاکستان کو اس کی زبان میں جواب دینے کی بات کہی تھی لیکن اقتدار ملتے ہی پہلے ہی دن حلف برداری میں نواز شریف کو مدعو کیا گیا ۔ اقتدار کے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن وزیراعظم نے ایک مرحلہ پر بھی پاکستان کے بارے میں کوئی سخت فیصلہ نہیں کیا۔ دوستی کا اس قدر پاس و لحاظ ہے کہ جی 20 اور آسیان میں مودی نے جرائم کا تو ذکر کیا لیکن ملزم کی نشاندہی نہیں کی۔ آخر پاکستان کا نام لینے میں کیا امر مانع تھا۔
کشمیر میں بدترین صورتحال کے دو ماہ مکمل ہونے کے بعد مرکزی حکومت کو مذاکرات کا خیال آیا ہے ۔ تمام فریقین سے مذاکرات کے لئے مصالحت کاروں کی تلاش ہے جنہیں ایک پیانل کی شکل میں مذاکرات کی ذمہ داری دی جائے گی ۔ 75 سے زائد ہلاکتوں ، 150 سے زائد معصوموں کی بینائی چھن جانے اور ہزاروں افراد کے زخمی ہونے کے بعد حکومت کا یہ دھرم ٹوٹ گیا کہ لاٹھی اور گولی کے استعمال سے کشمیر کی صورتحال پر قابو پانا مشکل ہے۔ کل جماعتی وفد کی روانگی ہو کہ مذاکرات کے پیانل کی تیاری ، یہ کام بہت پہلے ہونا چاہئے تھا ۔ سب کچھ بگڑ جانے کے بعد اب مذاکرات کی اہمیت باقی کہاں رہی۔ کشمیریت ، انسانیت اور جمہوریت کے نعرہ کے ساتھ راجناتھ سنگھ کل جماعتی وفد کے ساتھ کشمیر پہنچے۔ حریت کے تمام گروپس نے ملاقات سے انکار کردیا۔ ظاہر ہے کہ کشمیر روانگی سے قبل مرکز نے واضح کردیا تھا کہ راجناتھ سنگھ حریت قائدین سے نہیں ملیں گے ۔
ایسے میں حریت قائدین اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ سے کیونکر ملاقات کرتے۔ حریت قائدین سے ملاقات نہ سہی ، راج ناتھ سنگھ کو دواخانہ پہنچ کر بینائی سے محروم نوجوانوں اور بچوں کی عیادت کرنی چاہئے تھی ۔ سرینگر دورہ کے موقع پر سیاسی اور غیر سیاسی وفود نے کل جماعتی وفد کو جو تجاویز پیش کیں ، ان میں خود مختاری ، رائے شماری ، علحدگی پسندوں اور پاکستان سے بات چیت شامل ہے۔ ان تجاویز نے کل جماعتی وفد کو کشمیر کی سنگین صورتحال کا احساس دلایا ہے۔ اب جبکہ حریت قائدین نے بامقصد مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ ان کے مطالبات پر مرکز کا موقف کیا رہے گا۔ کشمیریوں کا دل جیتنے کیلئے صرف انسانیت کا نعرہ لگانا کافی نہیں بلکہ سلوک بھی انسانوں جیسا ہونا چاہئے ۔ کشمیر جب ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے تو وہاں بسنے والے یقیناً ہندوستان کے شہری ہیں۔ جس طرح ملک کے دیگر علاقوں کے شہریوں کو حقوق اور مراعات حاصل ہے، کشمیریوں کو بھی حاصل ہونے چاہئے لیکن ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک آخر کیوں ؟ ملک کے کسی اور حصہ میں احتجاج سے نمٹنے کیلئے جو ہتھیار استعمال نہیں ہوتے ، ان کا استعمال کشمیر میں ہوتا ہے ۔ جس طرح دشمن سے سرحدوں کی حفاظت کیلئے میزائیل تیار کئے جاتے ہیں، اسی طرح کشمیر کیلئے بھی نئے نئے تجربات کئے جارہے ہیں۔ ابھی پیلیٹ گنس کے زخم تازہ ہی تھے کہ مرچ پاؤڈر کے اثرات والے Pava شل (مرچ گرینیڈ) تیار کئے گئے ۔ پیلیٹ گن کے استعمال کی مخالفت کے باوجود ابھی تک اسے منسوخ نہیں کیا گیا۔ ساتھ میں مرچ کا نیا ہتھیار سیکوریٹی فورسس کو تھمادیا گیا ہے ۔ پیلیٹ گن تیار کرنے والی کمپنی نے خود وضاحت کردی کہ اس کا استعمال جانوروں کیلئے کیا جاتا ہے ۔ اب حکومت خود طئے کرلے کہ اس کے نزدیک کشمیری عوام انسان ہے یا نہیں۔ بلٹ کے بجائے بیالٹ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کشمیری عوام نے محبوبہ مفتی کی پارٹی کو وادی میں کیا اسی لئے اکثریت دی تھی کہ ان کے خلاف غیر انسانی ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے ۔ آج تک ملک کے کسی اور علاقہ میں پیلیٹ گن اور مرچ گرینیڈ کا استعمال نہیں کیا گیا ۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست میں نئے تجربات سے حکومت کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مرکز میں سنگھ پریوار کے اقتدار کے بعد سے کشمیر نشانہ پر ہے اور واحد مسلم اکثریتی ریاست ہر کسی کو کھٹک رہی ہے ۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ چونکہ پرچارک رہے ہیں، لہذا ان سے انصاف کی امید نہیں کی جاسکتی۔ دراصل ان کی ذہنیت ناگپور فیکٹری کی تیار کردہ ہے۔ مرکز کے رویہ سے دنیا بھر میں ملک و قوم کی رسوائی ہورہی ہے ، جس کا وزیراعظم کو کوئی احساس نہیں ہے ۔ جی 20 سمٹ جاتے ہوئے ویتنام میں وزیراعظم نے مچھلیوں کو ان کی غذا کھلائی لیکن انہیں کشمیری عوام کا خیال نہیں آیا جو گزشتہ دو ماہ سے نان شبینے کو ترس رہے ہیں۔ یہاں انسان بھوکے ہیں لیکن مودی کو ویتنام کی مچھلیوں سے ہمدردی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ناگپور کلچر بھی یہی ہے کہ صرف بیف کھانے کے شبہ میں انسان کو قتل کردیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہرہ پہ دوہری نقاب رکھتے ہیں