دلت نوجوان کا گھوڑی پر چڑھ کر بارات لے جانے ک اخواب چکنا چور

عدالت سے بھی راحت نہیں ملی‘ خصوصی درخواست مسترد
لکھنو۔ آزادی کے ستر برس بعد بھی ملک میں دلتوں کے ساتھ کس قدر تعصب اور زیادتی جاری ہے اس کی تازہ مثال ہے ضلع کاس گنج کے ایک دلت کا آلہ آباد میں دائرعرضی۔

اس درخواست میں سنجے کمار نامی اس نوجوان نے عدالت عالیہ سے استدعا کی تھی کہ وہ اسے گھوڑی چڑھ کر اپنی بارات نکالنے کی اجاز ت دے کیونکہ اعلی طبقات کی شہ زوری کے سامنے ضلع انتظامیہ اور پولیس بھی بے بس ہے اور اسے اس طرح بارات نکالنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔

مگر عدالت نے بھی اس سلسلے میں مدد کرنے سے ہاتھ کھڑے کردئے۔عدالت عالیہ کی دورکنی بنچ نے اس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہاکہ کہ وہ اس تعلق سے کوئی ہدایت نہیں دے سکتی ہے۔

جسٹس رن وجئے سنگھ اور جسٹس ششی کانت پر مشتمل دورکنی بنچ نے کہاکہ اس کے لئے اس معاملے میں کوئی ہدایت دینا صحیح نہیں۔ عدالت بنچ کا کہنا ہے کہ اگر سنجے یادولہن کے اہل خانہ کو کسی سے کوئی خطرہ لگتا ہے تو وہ پولیس میں مقدمہ درج کراسکتے ہیں۔

حالانکہ ‘ عدائت نے یہ نہیں کہاکہ مقدمہ درج ہونے پر پولیس کو کاروائی کرنا ہوگی۔سنجے کمار نے اپنی درخواست میں کہاتھا کہ اس کے اس منصوبے کی اعلی طبقات کے لوگ شدید مخالفت کررہے ہیں۔ اس نے ضلع انتظامیہ اور پولس افسران سے بھی مدد کی اپیل کی تھی مگر انہوں نے صاف منع کردیا۔

سنجے کے مطابق‘اس نے مجبور ہوکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ وہیں ‘ ضلع انتظامیہ نے عدالت میںیہ دلیل دی ہے کہ مذکورہ گاؤں میںآج تک کسی بھی دلت نے گھوڑی چڑھ کر بارات نہیں نکالی ہے۔

اس لئے اگر سنجے کو ایسا کرنے کی اجازت دے گی تو ماحول خراب ہوگا۔یہ معاملہ ضلع کاس گنج کے نظام پور گاؤں کا ہے جہاں کے نوجوان سنجے کمار کی شادی 20اپریل کو مقرر ہے۔

اس کا دیرینہ خواب ہے کہ وہ گھوڑی کے ساتھ اپنی بارات نکالے گا مگر اعلی طبقات کی شہ زوری اور ضلع انتظامیہ وپولیس کے متعصب رویہ سے اس کا خواب پایہ تکمیل کونہیں پہنچ پائے گا۔ اس نے عدالت سے بھی فریاد کی مگر یہاں سے ابھی تک اسے کوئی مدد نہیں ملی۔

سنجے کو ڈر ہے کہ اگر وہ عدالتی یاپولیس تحفظ کے بغیر گھوڑی چڑھاتو اس کے اور اہل خانہ کے ساتھ شہ زور پر تشدد کاروائی کرسکتے ہیں۔ سنکے کی شادی شیتل نامی لڑکی کے ساتھ طئے ہوئی ہے۔