دلت جہد کاروں کی حراست کہیں شہری نکسلزم تو نہیں ؟

رام پنیانی
بھیما کورے گاؤں تشدد کی گونجیں ابھی ہمارے ذہن میں تازہ ہیں۔ یکم جنوری کو ہزاروں دلت بھیما کورے گاؤں سے واپس لوٹ رہے تھے تو ان کو مارا پیٹا گیا تھا اور تشدد کے اکسانے میں ملند آکوٹے اور سامبھا جی بھیڈے کے نام لئے گئے تھے جس کی تحقیق ابھی جاری ہے ۔ اس سے قبل دلت اور آدی واسی افراد کے مسائل کواٹھانے والے پانچ جہد کار مہیش راوت ، روناولسن ، سریندرا گاڈلنگ ، شوما سین اور سدھیر دھوالے کو گرفتار کیا جاچکا تھا اور ماہ ستمبر میں گوتم نولکھا کے سدھا بھردواج ،لا ورا ورا راؤ ، ورنن گن سلونسر اور ارون فریرا کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی اور آنند تل تمڈے کے مکانات کی تلاشی لی گئی ۔ پولیس کی دانست میں ان پر الزام صرف یہ تھا کہ یہ تمام جہد کار بھیما کورے گاؤں تشدد میں ملوث تھے اور اس کا آغاز ایکلگر پریشد سے ہوا تھا جہاں پر جذبات بھڑگاؤ تقاریر کی گئیں تھے جس کے نتیجہ میں تشدد پھوٹ پڑا تھا ۔
ان حراستوں کے پس پردہ پولیس نے ایک ماورائے حقیقت خط کا انکشاف کیا جس میں وزیراعظم نریندر مودی کی قتل کی سازش کا ذکر تھا اور جس وقت پولیس ان کو حراست میں لینے کیلئے پہنچی تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور کہا کہ سماجی جہد کاروں کی حراست کا مطلب جمہوریت کے لباس کو چاک کرنا ہے چنانچہ ان کی حراست کو ان کے مکانوں تک محدود کرتے ہوئے تاحکم ثانی ان پر روک لگادی۔ مختلف الرائے سیاسی تنظیموں نے ان حراستوں کی تاویل اس طرح پیش کی کہ ان کو گرفتار کر کے دلت جہد کاروں کو ڈر و خوف ذہن میں بٹھا دینا ہے اور یہ رویہ صرف انتقامی سیاست پر مبنی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اگزیکیٹیو ڈائرکٹر آکار پٹیل نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ دلت اور آدی واسی جہد کاروں کو بنا کسی ثبوت کے گرفتار کیا گیا ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ اظہار آزادی خیال اور پر امن اجتماع کے عوامی حقوق کو پامال نہ کرے اور ان میں کسی قسم کا ڈر اور سراسمیگی پیدا نہ کرے۔

اب یوروپین یونین نے بھی اس من مانی پولیس گرفتاریوں چھاپوں کی مذمت کی ہے اور ان اقدامات کی بدولت ہندوستان کا نام اب اقوام متحدہ کے ان ممالک کی فہرست میں شمار ہونے لگا ہے جہاں پرحقوق انسانی کے جہد کاروں کے خلاف نہایت ہی سخت اور انتقامی جذبہ کار فرما ہے ۔ ان جہد کاروں کی حراست اور ان کی گھر پر نظر بندی پر سپریم کورٹ نے جو تشویش کا اظہار کیا ہے وہ حق بجانب ہے ۔ سماجی جہد کاروں کے خلاف اس طرح کا ماحول پیدا کرنا باعث پریشان کن اور اس جانب اشارہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے ہندوتوا ایجنڈہ کو عمل میں لارہی ہے اور بھیما کورے گاؤں واقعہ کو مبینہ طور پر ایلگر پریشد کی تقاریر کا باعث سمجھا جارہا ہے ۔ حالانکہ ان تمام سماجی جہد کاروں کا اس پریشد سے کوئی بھی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ ریٹائرڈ سپریم کورٹ جج پی بی ساونت اور موظف جسٹس کولسے پاٹل نے دراصل اس میٹنگ کا انعقاد عمل میں لایا تھا ۔ انہوں نے خود اعتراف کیا تھا کہ اس پریشد کی میٹنگ کو انہوں نے ہی بلایا تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سماجی جہد کاروں کو کیوں گرفتار کیا گیا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہندوتوا ایجنڈہ کے روبہ عمل لانے میں حکومت کو اگر کسی بھی رکاوٹ کا سامنا ہو تو اس کو مخالف قوم لیبل چسپاں کر کے ان کوگرفتار کرلینا ہے اور ساتھ ساتھ جو جو بھی تنظیمیں دلت طبقوں کی حمایت کریں گی اور ان کے حقوق کیلئے لڑیں گی تو ان کو سختی سے کچل دیا جائے گا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب سے موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس وقت سے دلت طبقات کو مسلس نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ اس کی شروعات دراصل پیری یار امبیڈکر اسٹڈی سرکل (IIT MADRAS) سے ہوکر حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کی امبیڈکر اسٹوڈنٹ اسوسی ایشن تک جا ملتا ہے جہاں پر بالآخر روہت ویمولہ کا قتل کیا گیا ، اس قتل کے ساتھ ہی دلت طبقہ کی جانب سے بڑے پیمانہ پر احتجاج اور تحریک شروع ہوئی تھی جس کو دوسرے سماجی گروہ کی مکمل تائید حاصل ہوتی گئی ۔

جیسے ہی گائے کے گوشت پر ہندوتوا ایجنڈہ شروع ہوا تو مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا جانے لگا اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ چار دلت افراد کو بھی برہنہ کر کے ان کو بے تحاشہ مار پیٹ کی گئی ۔ ایک اور دلت نوجوان جگنیش میوانی کی تحریک پر سارے ملک کے دلتوں نے مل کر ایک کامیاب احتجاجی تحریک کو فروغ دیا۔
جگنیش نے دلت طبقہ کی شناخت اور زمینات کے معاملہ میں جوایک اہم موضوع ہے ، اس کو جلا بخشی۔ حکومت کا موجودہ سیاسی ایجنڈہ مسلمان اقلیتوں کو رام مندر، گائے کا گوشت ، لو جہاد اور گھر واپسی جیسے طرح طرح کے معاملات میں الجھاکر ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دینا ہے اور موجودہ حکومت کی سیاست کے اعتبار سے مسلم اور عیسائی افراد کو خارجی افراد کی حیثیت سے مخاطب کرنا اور ان کو یعنی آر ایس ایس کو کھٹکنے لگی۔ ان سارے ایجنڈوں کے رد میں ایک سماجی ، ہم آہنگی تنظیم سمامک سمرستہ منچ کا احیاء عمل میں لایا گیا تاکہ مختلف طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا ہے ۔ برخلاف اس کے آر ایس ایس اپنے یہ ایجنڈہ کہ ہندوستانی مسلمان حملہ آور میں شمار کئے جائیں گے کیونکہ ان کے حملہ کے باعث ذات پات کا نظام وجود میں آیا، کو روبعمل لاتے ہوئے آدی واسی اور دلتوں کو یہ باور کرایا کہ مسلمان خارجی حملہ آور ہیں۔ ہندو نیشنلزم کی فروغ کی خاطر کئی دلت قائدین جیسے رام ولاس پاسوان ، رام داس اٹھاولے اور ادیت راج کو بڑے عہدوں کی کا لالچ دیا گیا تاکہ ہندوتوا ایجنڈے کو آسانی سے روبہ عمل لایا جائے اور تمدنی نقط نظر سے ایک تاریخی کردار سہیل دیو کا نام لیا جانے لگا اور کہا گیا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے بیرونی مسلمان حملہ آوروں کے آگے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا ۔
دلت بغاوتوں کے تھمنے کے آثار ابھی کم نہیں ہوئے ہیں اور دلت طبقہ میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے ۔ دلت طبقہ کی مساوات اور عزت و آبرو کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ۔ اس پس منظر میں حکومت مہاراشٹرا نے ان سماجی جہد کاروں کے خلاف ایک محاذ کھول دیا تاکہ دلت طبقہ کے عزائم کو کچل دیا جائے اور دو موظف ججوں کی جانب سے بلائی جانے والی کانفرنس کی سزا ان کو دی جائے۔ رومیلا تھاپر نے اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تاکہ جمہوری اقدار کا تحفظ ہوسکے ، اب سپریم کورٹ کی باری ہے کہ وہ ان کچلے ہوئے طبقات کی کس طرح مدد کرتی ہے ، اعلان کرے۔