محمد ریاض احمد
ہندوستان میں ماہ مئی 2014 ء کے دوران بی جے پی نے اقتدار سنبھالا، گجرات کے سابق چیف منسٹر نریندر مودی کو عہدہ وزارت عظمی پر فائز کیا گیا۔ جس دن بی جے پی نے اقتدار سنبھالا شائد وہ دن فرقہ پرست طاقتوں کیلئے خوشی اور محب وطن ہندوستانیوں کیلئے غم کا دن تھا۔ اس کے باوجود عام ہندوستانیوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ نریندر مودی اپنے نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے ذریعہ ملک کا وکاس کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی بیرونی بینکوں میں جمع کردہ لاکھوں کروڑوں روپیوں پر مشتمل کالا دھن واپس لانے اور ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ جمع کرانے کا اعلان کیا ۔ ملک میں بیروزگاری کے خاتمہ کیلئے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کرنے کے وعدے کئے۔ کسانوں کی زندگیوں میں خوشیاں لانے اور ملک میں صنف نازک کو باعزت مقام دلانے کا عہد کیا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے قوم کو بار بار یہ تیقن دیا تھا کہ ان کی حکومت میں بیرونی راست سرمایہ کاری نئی بلندیوں پر پہنچے گی۔ اندرون ملک مینوفیکچرنگ یونٹس کا جال پھیلایا جائے گا۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ میں انقلابی اقدامات کئے جائیں گے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مودی کا کوئی بھی وعدہ وفا نہ ہوا۔ حکومت اپنے کسی بھی عہد کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ ہاں مودی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ مئی 2014 ء سے آج کی تاریخ تک ملک میں صرف فرقہ پرستی کوغیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ سنگھ پریوار کے خفیہ ایجنڈہ پر عمل آوری میں ناقابل یقین حد تک پیشرفت ہوئی۔ اپنے آشرموں، جنگل و ویرانوں تک محدود سادھو اور سادھویوں کی زبانیں زہر اگلنے لگیں۔ جانوروں بالخصوص گائے کے نام پر مسلمانوں کے گلے کاٹے جانے لگے۔ مردہ جانوروں کی کھال اتارنے کے قصور میں دلت نوجوانوں کی چمڑی ادھیڑنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ تبدیلیٔ مذہب کے انسداد کے نام پر نوجوان و ضعیف عیسائی راہباؤں کی عصمتیں تار تار کئے جانے کا عمل شروع کیا گیا ۔
گھر واپسی کا نعرہ لگاتے ہوئے غریب مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ مذہب تبدیل کرنے زبردستی کی گئی۔ دانشوروں کے سینوں میں گولیاں اتار کر ایثار و خلوص کو ملیامیٹ کردیا گیا۔ فرقہ وارانہ فسادات برپا کرتے ہوئے مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا گیا ۔ ہندوستانی تاریخ کو مسخ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا گیا یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کی ایماء پر ہندوستان کے تعلیمی نصاب کو زعفرانی رنگ دینے کے منصوبہ پر بڑی بے شرمی کے ساتھ عمل کیا جارہا ہے ۔ دوسری جانب مودی حکومت اپنی خارجہ پالیسی میں بری طرح ناکام رہی لیکن دنیا بھر کی سیر کرنے سے متعلق وزیراعظم نریندر مودی جی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا ۔ زندگی بھر گجرات تک ہی محدود رہنے والے مودی جی نے دو برسوں میں 50 سے زائد بیرونی ممالک کا دورہ کرتے ہوئے سرکاری خزانہ پر مزید بوجھ ڈال دیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ان ناکامیوں کے باوجود بی جے پی قائدین بڑی ڈھٹائی سے ہر محاذ پر مودی حکومت کو کامیابی حاصل ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ آج اگر ملک کی صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو ہر محب وطن ہندوستانی کو مایوسی ہوگی۔ اس لئے کہ ملک میں ایک عجیب حالات پیدا کردیئے گئے ہیں۔ مرکز میں اقتدار کے ساتھ ہی مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا اور اب بیچارے دلت فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہیں۔ ویسے بھی سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیمیں کبھی بھی دلتوں کے ساتھ نہیں رہی بلکہ دلتوں کا ہر طرح سے استحصال کیا گیا۔
آزادی سے پہلے بھی دلتوں کا برا حال تھا۔ آزادی کے بعد بھی ان کی وہی حالت ہے۔ صرف تعلیم اور ملازمتوں میں تحفظات فراہم کرتے ہوئے دلتوں کی حالت سدھارنے کی نمائشی کوشش کی گئی ۔حالانکہ دستور کی دفعہ 14 میں مساوات کے اصول پر زور دیتے ہوئے ملازمتوں اور تعلیم کے شعبوں میں تعصب کی بیخ کنی کی گئی ۔ دستور ہند میں ذات پات کی بنیاد پر معاشرہ کی تعمیر کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ چھوت چھات کو متوجب سزا جرم قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود دلتوں کو ہندوستان میں کوئی اختیار حاصل نہیں ۔ وہ اعلیٰ ذات کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں نہ ہی ان کی مندروں میں پوجا کر سکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبہ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھنے اور چاند پر کمند ڈالنے والے ہمارے وطن عزیز میں دلتوں کے ہاتھ صرف اس لئے کاٹ دیئے جاتے ہیں کہ انہوں نے غلطی سے کسی اعلیٰ ذات کے ہندو کا کتا چھولیا۔
ہمارے ملک میں کسی دلت خاتون کو اسکول سے صرف اس لئے نکال دیا جاتا ہے کہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے طلبہ اس کا تیار کردہ کھانا کھانے سے انکار کردیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں دلت کی بیٹیوں کو برسرعام برہنہ کر کے اس لئے پریڈ کرائی جاتی ہے کیونکہ ان کے بیٹے یا بھائی نے کسی اعلیٰ ذات کی لڑکی سے محبت کی غلطی کی ۔ ہمارے ملک میں ہر روز ایسے بے شمار واقعات پیش آتے ہیں جہاں انسان نما بھیڑیئے دلت خواتین اور لڑ کیوں کے جسم کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ انہیں اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس وقت ان درندوں کو یہ احساس نہیں رہتا کہ کسی دلت کی عزت پر ہاتھ ڈالنے اور اسے تار تار کرنے سے ان کا دھرم بھرشٹ ہوجائے گا۔ ڈسمبر 2006 ء کو اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پرزور انداز میں کہاتھا کہ چھوت چھات انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔دستوری اور قانونی تحفظ کے باوجود ہندوستانی معاشرہ میں ذات پات پرمبنی امتیاز ہنوز موجود ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے دلتوں میں ایک نیا شعور بیدار ہورہا ہے ۔ وہ کسی کو بھی اپنے استحصال کی اجازت نہیں دیں گے ۔ گجرات کے اونا میں دلت نوجوانوں کے ساتھ پیش آئے واقعہ نے سارے ملک کے دلتوں کو متحد کردیا ہے اور اس کا سارا کریڈٹ سوشیل میڈیا کو جاتا ہے۔ واقعہ دراصل یہ ہے کہ 4 دلت نوجوان مردہ گائے کی کھال نکال رہے تھے کہ گاؤ رکھشا سمیتی کے ارکان نے انہیں پکڑ کر اس قدر مارا کہ وہ ادھ مرے ہوگئے۔ سوشیل میڈیا پر اس واقعہ کے ویڈیو نے دیکھتے ہی دیکھتے ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ نتیجہ میں گجرات سے لیکر یو پی اور پنجاب سے لیکر ٹاملناڈو تک دلتوں نے زبردست احتجاج کیا۔ ہزار سے زائد دلتوں نے بدھ دھرم قبول کرنے کا ا علان کیا، اس دھمکی اور احتجاج نے شائد مودی حکومت کی نیند حرام کردی ہے۔ سنگھ پریوار پر بھی ہیبت طاری ہوگئی ہے۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جبکہ اترپردیش میں بی جے پی کے نائب صدر دیا شنکر سنگھ نے بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی کو فاحشہ سے تعبیر کرتے ہوئے دلتوں کو برہم کیا۔ سنگھ پریوار اس بات کو لیکر فکرمند ہے کہ گجرات میں دلتوں سے مارپیٹ ، اس کے خلاف 30 دلت نوجوانوں کا اقدام خودکشی اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کہیں آئندہ سال ہونے والے یو پی اسمبلی انتخابات میں اس کی نیا تو نہیں ڈوبودیں گے ۔ لگتا بھی ایسا ہی ہے کہ یو پی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی بہار کی طرح شکست کا سامنا کرے گی۔ جہاں تک ملک میں دلتوں پر مظالم کا سوال ہے ، یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔ حال ہی میں ہماری نظر ایک ایسی رپورٹ پر پڑی جس میں بتایا گیا کہ سال 2001 ء تا 2008 ء یعنی 7 برسوں کے دوران دلتوں پر مظالم کے 58,000 واقعات پیش آئے۔ 2005 ء کی ایک سرکاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہر 20 منٹ میں ایک دلت کے خلاف جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق اترپردیش، راجستھان اور بہار میں دلتوں کا برا حال ہے ۔ راجستھان میں جو جرائم کے واقعات پیش آتے ہیں ، ان میں سے 52 تا 65 فیصد جرائم دلتوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ راجستھان میں دلت جملہ آ بادی کا 17.8 فیصد ہے لیکن وہاں بھی ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔ ملک کی دلت آبادی کا 20 فیصد حصہ اترپردیش میں رہتا ہے لیکن دلتوں کے ساتھ اس ریاست میں بھی انسانیت سوز حرکتیں کی جاتی ہیں۔ خود گجرات میں دلتوں کے خلاف سال 2015 ء میں 1655 اور 2014 ء میں 1130 جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
دلتوں کا صرف ذات پات کے نام پر ہی استحصال نہیں کیا جاتا ہے بلکہ ملک میں ہر دن بیشمار دلت مرد و خواتین کو موت کی نیند سلایا جاتا ہے ۔ ان کے اغواء کئے جاتے ہیں، انہیں بندھوا مزدور کی طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2009 ء تا 2013 ء یعنی پانچ برسوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں 7901 دلتوں کا قتل کیا گیا۔ 2014 ء میں موت کے گھاٹ اتارے گئے دلتوں کی تعداد 744 رہی۔ اُس سال صرف ہریانہ میں 22 دلتوں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ملک میں سب سے زیادہ جنسی استحصال کا شکار بھی دلت خواتین اور لڑکیاں ہیں۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق صرف2014 ء میں 2233 خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ 2013 ء میں 2073 دلت خواتین ان کی بیٹیاں اور بہوئیں اپنی آبرو کھو بیٹھیں۔ حد تو یہ ہے کہ 2009 ء میں 512 ، 2010 ء میں 511 ، 2011 ء میں 616 ، 2012 ء میں 490 ، 2013 ء میں 628 اور 2014 ء میں 755 دلت خواتین کا اغواء کیا گیا ۔ یہاں تک کہ متنازعہ کھیت میں بیج بونے پر وہاں کی زمین کو دلت کسان کے خون سے رنگا گیا۔ اگر ملک میں دلتوں کی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2001 ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 167 ملین یعنی تقریباً 17 کروڑ دلت تھے لیکن 2011 ء کی مردم شماری میں دلتوں کی تعداد 20.14 کروڑ بتائی گئی ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 10 برسوں میں دلتوں کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا ہے ۔ دلتوں کی آبادی پانچ سال قبل ملک کی جملہ آبادی کا 25 فیصد حصہ تھی ۔ اس کے باوجود اعلی ذات ہندوؤں کے ہاتھوں ان کے استحصال کا سلسلہ جاری ہے۔موجودہ صورتحال میں دلتوں اور مسلمانوں و عیسائیوں میں اتحاد ہوتاہے تو فرقہ پرستوں کے تمام منصوبہ اور خفیہ ایجنڈہ خاک میں مل جائیں گے اور ہندوستان امکانی تباہی و بربادی سے بچ جائے گا۔
mriyaz2002@yahoo.com
حکومت کی بے حسی
مسلمانوں کی بے بسی
بی جے پی کے اقتدار میں فرقہ پرستی سارے ملک میں ایک وباء کی طرح پھیل گئی ہے ۔ فرقہ پرستوں بالخصوص گاؤ رکھشا دلوں کو مکمل چھوٹ دیدی گئی ہے۔ گاؤ رکھشا دل کے غنڈوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل پر حکومت سے لیکر خود مسلمان بھی حرکت میں نہیں آئے ۔ جھارکھنڈ میں مارچ کے دوران دو مسلم نوجوانوں 32 سالہ مظلوم انصاری اور 15 سالہ امتیاز خان کو بہیمانہ انداز میں قتل کر کے ان کی نعشیں درختوں پر لٹکادی گئیں۔ منی پور میں 50 سالہ محمد ہاشم علی کو ذبیحہ گاؤ کے نام پر شہید کیا گیا ۔ نومبر 2015 ء تک ذبیحہ گاؤ کے نام پر مسلمانوں کے قتل کے چار واقعات پیش آئے ۔ 28 ستمبر کو دادری میں عین بقرعید کے موقع پر محمد اخلاق کے گھر پر حملہ کر کے انہیں قتل کیا گیا ۔ اس واقعہ میں اخلاق کا بیٹا شدید زخمی ہوا۔ وادی کشمیر میں بھی فرقہ پرستوں نے بیف لے جانے کے شبہ میں ایک ٹرک ڈرائیور کو زندہ جلادیا۔ 31 مئی 2016 ء میں چھوٹی صدری راجستھان میں گاؤرکھشا سمیتی کے افراد نے ایک مسلم نوجوان کو مارکر زخمی کردیا۔ ٹرک ڈرائیور کو ادھ مرا کردیا ۔ ہریانہ میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے گاؤ رکھشا دل کے غنڈوں نے دو مسلم نوجوانوں کو گائے کا گوبر کھانے اور پیشاب پینے پر مجبور کردیا ۔ مدھیہ پردیش میں دو مسلم خواتین کو پولیس کی موجودگی میں زد و کوب کیا گیا ۔ ان تمام واقعات پر مسلمانوں نے بڑے ہی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن اونا میں دلت نوجوانوں پر حملہ کے خلاف دلتوں نے سارے ملک میں ہلچل مچادی ہے ۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کو دلتوں کا بھرپور ساتھ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ملک میں ایسا لگتا ہے کہ ہر روز مسلمانوں ، دلتوں کے ساتھ ساتھ انصاف کابھی قتل ہورہا ہے کیونکہ دادری میں اخلاق کے گھر سے برآمد میٹ بیف ہوگیا ہے ۔ یہی نہیں پولیس نے دو کیلو گوشت ضبط کیا تھا ، فارنسک لیباریٹری میں اس کی مقدار دو سے بڑھ کر چار کیلو ہوگئی۔