غضنفر علی خان
بی جے پی کی قیادت خواہ یہ تسلیم کرے نہ کرے یہ ایک سچائی ہے کہ یہ پارٹی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی نمائندہ ہے یا کم از کم یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ اس پر اعلیٰ ذات والوں کا قبضہ رہا ہے ۔ یہ استدلال کہ ملک کی موجودہ بی جے پی حکومت میں وزیراعظم نریندرمودی خود اعلیٰ ذات سے تعلق نہیں رکھتے، یہ ثابت نہیں کرتا کہ پارٹی اعلیٰ ذات کے چنگل سے آزاد ہے۔ نریندر مودی کا وزیراعظم بننا 2014 ء کے عام انتخابات میں پارٹی کی شاندار کامیابی کا لازمی نتیجہ تھا ۔ ان کا 3 مرتبہ گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے انتخاب گجرات کا ماڈل اور ان کے انتخابات کیلئے چلائی گئی اشتہاری مہم دراصل ان کے وزیراعظم بننے کے اہم اسباب ہیں۔ ابھی بھی بی جے پی میں اقتدار اعلیٰ کیلئے رسہ کشی جاری ہے ۔ اس پس منظر میں دلتوں سے کی جانے والی زیادتیوں نے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ دلت لیڈر مایاوتی کو اترپردیش بی جے پی کے نائب صدر دیا شنکر سنگھ نے انتہائی غیر مہذب اور عامیانہ انداز میں ’’فاحشہ‘‘ قرار دیا جس پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا اور بی جے پی نے اسی میں عافیت جانی کہ دیا شنکر کو پارٹی سے خارج کردیا اور چھ سال تک انہیں رکنیت سے محروم کردیا ہے لیکن یہ واقعہ یونہی لیپا تھوپی سے ٹالا نہیں جاسکتا۔ مایاوتی 3 مرتبہ یو پی کی چیف منسٹر رہی ہیں ، وہ اس برادری کی سینئر لیڈر ہیں ان کا سیاسی کیریئر بھی قابل تعریف رہا ۔اس اعتبار سے ان کیلئے غیر مہذب اور بے ہودہ الفاظ کا استعمال کسی بھی طرح درست نہیں سمجھا جاسکتا ۔ بی جے پی آئندہ چند مہینوں میں اترپردیش کے اسمبلی چناؤ میں میدان میں اترنے والی ہے ۔
2014 ء کی کامیابی اور خاص طور پر پارلیمنٹ کیلئے بڑی تعداد میں پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے انتخاب کے بعد بی جے پی کو یقین تھا کہ وہ اسمبلی کے مجوزہ انتخابات میں بھی اسی طرح کامیابی حاصل کرے گی۔ صدر بی جے پی امیت شاہ کو تو صد فیصد یقین تھا کہ اترپردیش اسمبلی میں انہیں کامیابی ملے گی لیکن اس دوران پے در پے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ نہ صرف اترپردیش بلکہ سارے ملک میں بی جے پی نے دلتوں کے کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ اترپردیش میں تو تنہا مایاوتی اوران کی بہوجن سماج پارٹی بی جے پی کے قلعہ فتح کرنے کیلئے کافی ہے۔ اسی دوران گجرات میں جو وزیراعظم مودی کی آبائی ریاست ہے، ایک اور دردناک واقعہ پیش آیا۔ گجرات کے مقام اونا میں دلتوں کو ننگا کر کے ان پر کوڑے برسائے گئے کیونکہ یہ لوگ ایک مردہ گائے کی کھال نکالتے ہوئے پائے گئے تھے ۔ گاؤ رکھشک گروپ نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا ، نہ تو پولیس نے کوئی کارروائی کی اور نہ کسی نے واقعہ کے خلاف کوئی شکایت کی تھی ۔ گاؤ رکھشک (گائے کا تحفظ کرنے والا نام نہاد گروپ) نے حسب عادت ’’ہندو دھرم خطرہ میں ہے‘‘ کا نیا نعرہ بلند کیا اور سربازار ان کو سزا دی۔ یہ گاؤ رکھشک خود ہی جج ہیں اور خود ہی سزا تجویز کرتے ہیں اور خود ہی اس پر عمل کرتے ہیں‘‘۔ تو ہی کوزہ ، وگلِ کوزہ و توہی کوزہ گر والی بات ان ہی حالات کے لئے صادق آتی ہے ۔ گاؤکشی ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ جہاں تک گجرات کے اس واقعہ کا تعلق ہے اس کی نوعیت جداگانہ ہے، کسی نے گاؤ ماتا کو ذبح نہیں کیا تھا ۔ نہ اس کے گوشت کا کسی نے ذخیرہ کر رکھا
تھا اور نہ اس کو تقسیم کیا جارہا تھا ۔ گائے مردہ تھی اور بے گناہ ملزم اس کی کھال اتار رہے تھے جو کسی بھی لحاظ سے کوئی جرم نہ تھا ۔ اس سے پہلے اترپردیش کے مقام دادری میں محمد اخلاق نامی ایک شہری کو وہاں کے افراد نے زد و کوب کر کے ہلاک کردیا تھا ۔ بی جے پی کا یہ اندیشہ ہے کہ وہ ان حرکات کی وجہ ’’دلت ووٹ‘‘ سے محروم ہوجائے گی ۔ یہ اب ایک تلخ سچائی بن گئی ہے ۔ اترپردیش ہی میں سارے ہندوستان میں دلت کل آبادی کا قابل لحاظ 17 فیصد حصہ ہیں اور اترپردیش میں ان کا فیصد تقریبا ً 30 ہے۔ آبادی کے اتنے بڑے طبقہ کے ووٹ سے محروم کوئی سیاسی پارٹی چناؤ جیت نہیں سکتی۔ خاص طور پر بی جے پی کیلئے تو یہ کام اور بھی دشوار ہوگیا ہے ۔ بی جے پی ملک کی واحد جماعت ہے جو ہندوستان کے مسلم ووٹوں سے ہمیشہ محروم رہی ہے اور اب بھی یہ امید نہیں کرسکتی کہ مسلم ووٹ بینک کبھی اس پر چشم کرم کرے گا ۔ دلت اور مسلم ووٹوں سے تقریباً تہی دریاں۔ بی جے پی اگر اس صورتحال میں اترپردیش اسمبلی انتخابات میں کامیابی کی امید کرتی ہے تو گویا یہ اس کی خام خیالی ہے۔ پنجاب میں بھی بی جے پی کی کامیابی کے آثار کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں لیکن یہاں دلت ووٹوں سے محرومی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بی جے پی ، اکالی دل کی حکومت کے خلاف وہاں عوام میں پائے جانے والے مخالف حکومت پر anti incumbencyکام کر رہی ہے۔
ایک تو ہندو توا کے عاقبت ناندیش اور جوشیلے پیرو کاروں نے بی جے پی کے چہرہ پر فرقہ پرستی ، مخالف مسلم اور مخالف دلت کا رنگ چڑھا دیا ہے ۔ دوسری طرف گاؤ رکھشکوں نے طو مار کھڑا کر رکھا ہے ۔ اس لئے سیاسی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں عام آدمی کیلئے اچھے دن تو آنے سے رہے البتہ اس پارٹی کی حکومت کے برے دن آگئے ہیں ۔ حکومتیں ہمیشہ نہیں رہتی، ان کے عروج و زوال سے تاریخ عبارت ہوتی ہے ۔ مخالف دلت پالیسی تو اس دن آشکار ہوگئی تھی جب چند ماہ قبل یونیورسٹی آف حیدرآباد میں ایک دلت اسکالر نے مخالف دلت پالیسیوں اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے استحصال کی وجہ سے خودکشی کرلی تھی ۔
اس کے بعد دہلی میں دلت لیڈر کے ساتھ زیادتیوں اور انہیں بغاوت کے الزام میں ماخوذ کئے جانے کے دلخراش واقعات ہوئے تھے ۔ کہیں گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں قتل عبث کیا گیا تو کہیں اس کاروبار کو انجام دینے والوں کو گائے کا گوبر کھانے پر مجبور کیا گیا ۔ دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ بی جے پی کا سلوک کسی بھی عوامی حکومت کیلئے سزاوار نہیں ہوتا۔ مسلسل ایسے دلخراش واقعات ہورہے ہیں کہ اب اگر مودی حکومت ان طبقات کو خوش کرنے کیلئے بالفرض کچھ اقدامات کرتی بھی ہے تو اس سے وہ ناراضگی اور غصہ ختم نہیں ہوگا جو اقلیتی طبقہ ، دلت اور پسماندہ طبقات میں موجود ہے۔ بی جے پی کی ان غلط پالیسیوں نے پارٹی کی ان طبقات میں ہمدردی کو ختم کردیا ہے۔ جونقصان دلتوں ، کمزور پچھڑے ہوئے اور اقلیتی طبقہ کو بی جے پی اور ہندوتوا کے پرزور حامی پہنچاسکتے تھے وہ ہوچکا ہے ۔ مرکزی کابینہ میں اب 5 دلتوں کو جگہ دینے سے دلتوں کے زخم مندمل نہیں ہوسکیں گے۔