دفعہ 370 ‘ ہائیکورٹ کا فیصلہ

حالات کانپتے ہیں اب انجامِ قہر سے
لٹکی ہوئی سروں پہ ہے تلوار جابجا
دفعہ 370 ‘ ہائیکورٹ کا فیصلہ
دستور ہند کے دفعہ 370 پر اکثر و بیشتر مختلف گوشوں کی جانب سے اظہار خیال کیا جاتا ہے ۔ بعض گوشے اپنی متعصب فکر اور ذہنیت کی وجہ سے اس دفعہ کو دستور سے حذف کرنے کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ان عناصر کو جموںو کشمیر کو اس دفعہ کے ذریعہ فراہم کئے گئے خصوصی موقف کو قبول کرنے میں پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی برخواستگی کے مطالبات وقفہ وقفہ سے کئے جاتے رہے ہیں۔ مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں تشکیل پائی این ڈی اے حکومت کے بعد سے تو مسلسل اس مطالبہ میں شدت پیدا ہوگئی تھی ۔ ماضی میں کچھ متعصب ذہن و فکر کے حامل عناصر ہی اس کا مطالبہ کرتے رہے تھے لیکن مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد خود مرکزی وزرا اور ایک موقع پر تو دفتر وزیر اعظم کے منسٹر آف اسٹیٹ نے بھی اس دفعہ کو برخواست کرنے کی بالواسطہ وکالت کی تھی ۔ کچھ وزرا نے اس دفعہ پر قومی سطح پر مباحث کی ضرورت پر زور دیا تھا اور سبھی کی خواہش اور رائے یہی تھی کہ اس دفعہ کو حذف کردیا جانا چاہئے ۔ مختلف گوشوں کے مطالبات اور ان کی خواہشات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس دفعہ کے ذریعہ کشمیر کو جو خصوصی موقف حاصل ہے اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ اب جموں و کشمیر ہائیکورٹ نے بھی رولنگ دیدی ہے کہ یہ دفعہ دستور ہند کا مستقل دفعہ ہے اور میں کسی طرح کی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اس دفعہ کو دستور ہند سے حذف کیا جاسکتا ہے ۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد اب کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی ہے کہ اس تعلق سے کسی طرح کا اظہار خیال کیا جائے یا اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے ۔ جموں و کشمیر ملک کی ایک انتہائی اہم اور حساس ریاست ہے ۔ یہ ملک کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن اس کو دستور ہند کے ذریعہ کچھ مراعات فراہم کی گئی تھیں۔ اس وقت ملک کے رہنماوں نے اس ریاست کو خصوصی موقف دینے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت کوئی بھی اعتراض نہیں جتایا گیا تھا ۔ ملک کے رہنماؤں اور ذمہ داران نے اس وقت کے حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا جس پر آج اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ دفعہ ایسا ہے جس میں کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں ہونی چاہئے ۔ اس کو حذف کرنے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
کشمیر میں جو صورتحال ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ وہاں دستور ہند کی گنجائش کے مطابق ایسے اقدامات کئے جائیں جن کے نتیجہ میں حالات کو بہتر بنایا جاسکے ۔ ہم اکثر و بیشتر یہ کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں جو مسائل ہیں اور جوحالات دہشت گردی اور تخریب کاری کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں انہیں دستور کے پیرائے میں حل کیا جاسکتا ہے اور دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ یہی حقیقت ہے کہ ملک میں ہر مسئلہ کو دستور ہند کے پیرائے میں او ر اس کے مطابق ہی حل کیا جانا چاہئے اور جب یہ سوچا جاتا ہے تو ریاست کو خصوصی موقف دینے والے دستور ہند کے ہی دفعہ کو حذف کرنے کی بات کیوں کی جاتی ہے ؟ ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر انتہائی سنجیدگی سے اور پوری احتیاط سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی اور تخریب کاری کو عروج حاصل ہوا تھا اوریہاں حالات انتہائی دگرگوں ہوگئے تھے لیکن یہ دستور ہند میں فراہم کردہ گنجائش ہی کا نتیجہ تھا کہ وہاں حالات کو بتدریج بحال کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ۔ برسوں تک ریاست میں رائے دہی کا انعقاد ممکن نہیں رہا تھا اور وہاں صدر راج کو مسلسل توسیع دی جاتی رہی تھی لیکن جب ریاست کے عوام نے بھی جمہوری عمل کا حصہ بننے میں بتدریج رضامندی کا اظہار کیا تو اب وہاں مسلسل عوام کی منتخب کردہ حکومتیں قائم ہو رہی ہیں اور عوام ان سے جمہوری عمل کے عین مطابق کارکردگی سے متعلق سوال کر رہے ہیں۔ یہ ہندوستان کے دستور کی کامیابی اور ہمارے رہنماؤں کی دور اندیشی کا کمال ہے ۔ اس پر کسی طرح کی سیاست کی گنجائش نہیں رہنی چاہئے ۔
کشمیر ‘ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ یہاں جو بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں انہیں دستور ہند کے دائرہ میں رہتے ہوئے حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ساتھ ہی جموں و کشمیر کے عوام کو یہ احساس دلانے کی بھی ضرورت ہے کہ صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ کشمیر کے عوام بھی ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ریاست کے عوام میں کسی طرح کے عدم تحفظ یا دوسرے درجہ کا شہری ہونے کا احساس پیدا ہونے کا موقع دئے بغیر ملک کے مابقی حصے سے انہیں جوڑے رکھنے اور ان کے تعلق کو مزید مستحکم اور مضبوط کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب جموں و کشمیر ہائیکورٹ نے جو رولنگ دی ہے اس سے ان عناصر کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے جو اس دفعہ کو حذف کرنے یا اس میں ترامیم کرنے کی مسلسل وکالت کرتے رہے ہیں۔