محمدمصطفے علی سروری
دپیکا مہاترے کی عمر 43 سال ہے ، وہ ہر روز صبح 4 بجے بیدار ہوجاتی ہے اور تیار ہوکر ممبئی کے لوکل اسٹیشن کا رخ کرتی ہے ۔ لوکل ٹرین میں دپیکا صرف سفر ہی نہیں کرتی بلکہ سفر کے دوران (Imitation) جویلری بھی بیچتی ہے ۔ 6.30 بجے صبح دپیکا کا ٹرین کا سفر ختم ہوجاتاہے اور وہ اپنے پہلے گھر پر پہنچ جاتی ہے ، جہاں پراس کو بطور کام والی پکوان کرنا ہوتا ہے ۔ دپیکا دراصل ایک کام والی بائی ہے اور پانچ گھروں میں پکوان اور برتن دھونے کا کام کرتی ہے۔ ممبئی کے مالا سو پارہ علاقے میں رہنے والی اس خاتون کا شوہر دمہ کا مریض ہے اور وہ خود شوگر کی مریضہ ہے۔ اس خاتون کے ذمہ تین لڑکیوں کی پرورش بھی ہے ۔ صبح چار بجے سے لیکر شام چار بجے تک یہ مسلسل گھر سے باہر رہ کر کام کرتی ہے اور شام چار بجے گھر پہونچ کر اپنے شوہر اور لڑکیوں کا خیال رکھتی ہے۔ دن بھر کی تھکا دینے والی مصروفیات شوہر کی اور خود کی بیماری نے بھی اس کو کسی طرح بھی اپنی خوش مزاجی چھوڑنے پر مجبور نہ کرسکی ۔ جہاں بھی جاتی دپیکا اپنے چٹکلے اور اپنی زندگی سے جڑی حقیقتوں کو یوں بیان کرتی کہ سننے والوں کے چہروں پر مسکراہٹ آجاتی ہے ۔ دپیکا آخر کو تھی ایک کام والی بائی لیکن دپیکا کی خوش مزاجی کو دیکھتے ہوئے اس کی ایک مالکن نے اس کو اپنی ہاؤزنگ سوسائٹی کے ٹیالنٹ شو میں اپنے ایٹم پیش کرنے کو کہا ، دپیکا نے جب سوسائٹی کے ٹیالنٹ شو میں اپنا پروگرام پیش کیا تو وہاں پر اس کو ڈھیر ساری مبارکباد ملی اور وہاں موجود ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹر نے اس کو اسٹیج کی دنیا میں اپنا ٹیالنٹ پیش کرنے میں مدد کی جب اس کام والی بائی نے اپنی ہی زندگی سے جڑی سچی باتوں کو چٹکلوں اور لطیفوں کی شکل میں اسٹیج پر پیش کیا تو اس کے ویڈیو کو ڈھائی لاکھ سے زائد لوگوں نے دیکھنا پسند کیا۔
اخبار انڈین اکسپریس سے بات کرتے ہوئے اس کام والی بائی نے کہا کہ ’’ہر خاتون کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے اور کبھی بھی ہار نہیں ماننی چاہئے ‘‘۔ دپیکا نے کہاکہ آج تک دوسرے لوگ کام والی بائی کے متعلق لطیفے سناتے تھے تو اس نے سوچا کہ وہ خود کام والی ہے تو کیوں نہیں وہ خود یہ کام کرے جب اخبار کے رپورٹر نے دپیکا سے پوچھا کہ کیا اس کو اس بات کا ڈر نہیں لگتا ہے کہ اس کے لطیفے اور چٹکلے سن کر اس کو لوگ کام سے نہ نکال دیں تو دپیکا نے جواب دیا کہ مجھے کسی بات کا ڈر نہیں لگتا ہے کیونکہ گھر والوں کو ہم جیسی بائی کی ضرورت ہے ، ہمیں کام کیلئے دوسرا گھر مل سکتا ہے لیکن لوگوں کو بائی ملنا مشکل ہے۔ (بحوالہ اخبار انڈین اکسپریس 9 اگست 2018 ئ)
قارئین اکرام آج کے کالم کے آغاز میں ہم نے جس ممبئی کی بائی کا ذکر کیا ہے ، اس کو بالکل ویسے ہی حالات اور پریشانیوں کا سامنا ہے جو بہت ساری مسلم عورتوں کو ہیں لیکن 43 سال کی عمر میں کام کے بوجھ تلے دبے رہنے کے باوجود اس کام والی بائی کی مارکٹ میں ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے تو وہ اس کی خوش مزاجی اور لوگوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرکے ان کو ہنسانے کی عادت کے سبب۔ کام تو ہماری ماں بہنیں بھی کرتی ہیں۔ دوسری طرف برا نہ مانیں لیکن ہماری ماؤں اور بہنوں کی اکثریت کام کرتی ہیں، ان کی بات چیت سے ان کے جھنجھلانے سے ان کے غصے بھرے انداز سے پتہ چل جاتا ہے۔ ذرا اندازہ لگایئے گھر میں ایک کمانے والا مرد ہے ، وہ بھی بیمار پڑ گیا اور پھر سب سے بڑی بات دو ایک نہیں پوری تین بچیوں کی ذمہ داری بھی ہے لیکن دپیکا نے زندگی کو مشکلوں میں رہتے ہوئے جینا سیکھا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں وہ دوسروں کو ہنسانے کی بھی کوشش کررہی ہے۔ دن میں کام والی بائی اور ٹرین میں سفر کے دوران کاروبار کرنے والی یہ خاتون اب شام میں کامیڈی کے پروگرام کر رہی ہے تاکہ گھر کی ضروریات کیلئے چار پیسے اور جمع ہوجائیں اور قارئین اکرام اس نئی مصروفیات کے سبب اخبار نے لکھا ہے کہ دپیکا کو رات 12 بجے کے بعد آرام کا وقت مل رہا ہے اور چار ساڑھے چار گھنٹے وہ بمشکل چار ساڑھے چار گھنٹے ہی آرام کر پارہی ہے ۔
رات 12 بجے کی بات پر یاد آیا کہ ہمارے گھروں میں بھی تو عورتوں کا یہی معمول ہے۔ پہلے کلرس چیانل پر ناگن (3) دیکھنا پھر اسٹار پلس پر یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے پھر کم کم بھاگیہ ان سیریلس سے فارغ ہوکر کھانا پکانے اور بچوں کو کھلانے کے بعد 12 تا ایک رات میں روز ہی بج جاتے ہیں ۔ کون کہتا ہے مسلم عورتیں محنت نہیں کرتی ہیں۔ روزانہ وقت نکال کر پابندی سے ٹیلی ویژن دیکھنا اور اس کی اگلی پچھلی کہانی کو یاد رکھنا آسان کام تھوڑی ہے۔ اسی مصروفیات کی وجہ سے اگلے دن ان ماؤں کے بچے دودھ انڈا کھاکر ٹفن میں اٹلی وڈا لے جاتے ہیں یا دن میں ان ماؤں کو جلدی جلدی اُٹھ کر 12 ایک بجے تک بچوں کیلئے ٹفن تیار کرنا اور پھر ٹفن بچوں کو دینے اسکول تک جانا کیا محنت کا کام نہیں ؟
ارے کیا ہے جناب آپ ہماری قوم کی عزت دار عورتوں کو ایک غیر عورت کی مثال دے کر صبح چار بجے گھر سے باہر نکل کر کام کرو بول رہے ہیں۔ کچھ تو خیال کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا فضل و کرم ہے کہ ہماری عورتوں کی حالت ابھی ایسی بھی نہیں ہوئی کہ وہ صبح 4 بجے سے رات بارہ بجے تک کام ہی کرتی رہیں ۔ اگر آپ لوگوں کا یہی خیال ہے تو ٹھیک ہے لیکن میرے بھی کچھ سوال ہیں ذرا ان کے جواب تلاش کیجئے ۔ دپیکا مہاترے نے اپنے کسی بھی انٹرویو میں اس بات کا ذکر نہیں کیااکہ اس پر قرضہ چڑھا ہوا ہے کیونکہ اس کے اخراجات جتنے ہیں وہ ان کو پورا کرنے کیلئے محنت کر رہی ہے ۔
کیا یہ سچ نہیں ہے ہماری عزت دار مائیں اور بہنیں قرضوں کے مسئلہ سے دوچار ہیں۔ ہماری ماؤں اور بہنوں کا سونا رہن رکھا ہوا ہے ۔ بچیوں کی شادی کیلئے قرضہ ، ڈلیوری کے لئے قرضہ ، بہت ہی کم ایسے عنوانات باقی بچے ہیں جس کیلئے ہم لوگوں نے قرضہ نہیں لیا ہے لیکن قرضوں کے بوجھ کے باوجود بھی ہمارے گھریلو معاملات میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں۔ جن گھروں میں رمضان المبارک کے دوران امداد کے طور پر راشن اور کپڑوں کے پیاک پہونچائے گئے ان گھروں میں بھی یہ فکر عام نہیں ہے کہ اگلے برس سے قبل ہمیں اپنے گھر کے حالات اس قابل بنالینے چاہئے کہ ہم کسی دوسرے کی کفالت نہ بھی کریں لیکن اپنی مدد آپ کرنے کے قابل ضرور بن جائیں۔
صرف دن مہینے اور سال بدل رہے ہیں ، ہماری سوچ بدستور جوں کی توں ہے بلکہ بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے اور ہم لوگ کیا کہیں گے کہ چکر میں مرے جارہے ہیں اور ہر چیز کیلئے شارٹ کٹ کی تلاش میں بدستور سرگرداں ہیں اور اپنی ہی ذات میں محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔
جلال الدین کی عمر 70 برس ہے ۔ عمر کے اس حصے میں بھی جلال الدین ٹیکسی چلاتے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے خود دو کلاس تک ہی تعلیم حاصل کی لیکن ان کے گاؤں میں وہ جب بھی جاتے ہیں تو گاؤں والے انہیں (Sir) سر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں کیونکہ کولکتہ میں ٹیکسی چلانے والے جلال الدین نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا تو میں دوسروں کے متعلق کیوں سوچوں ۔ جلال الدین جانتے تھے کہ اپنے متعلق تو صرف جانور سوچتے ہیں اورانسان تو وہی ہوتا ہے جو دوسروں کے متعلق سوچے اس لئے انہوں نے اپنے آبائی گاؤں سندربن میں غریب بچوں کیلئے تعلیم کچھ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔
جی ہاں ایک ٹیکسی ڈرائیور جس کو دو وقت کے کھانے کیلئے بھی ٹیکسی کے کرایہ پر انحصار کرنا ہے ، اس کا عزم دیکھئے کہ وہ آج اپنے گاؤں میں دو اسکول اور 400 بچوں کے لئے ایک یتیم خانہ چلا رہا ہے ۔ اخبار انڈین اکسپریس کی 7 اگست 2018 کی رپورٹ کے مطابق گھر کے خراب معاشی حالات کے سبب جلال الدین نے سات سال کی عمر میں تعلیم چھوڑدی اور کولکتہ کا رخ کیا ۔ فٹ پاتھ پر سوکر لوگوں سے مانگ کر کھانا کھایا ، ٹانگا چلایا اور 1980 ء سے ٹیکسی چلانی شروع کی ۔ جتنا بھی پیسہ کمایا اس کا ایک حصہ اپنے گاؤں کے غریبوں کیلئے رکھا۔ 1998 ء میں دو کمروں پر مشتمل ایک اسکول غریب بچوں کیلئے شروع کیا ۔ اپنے جیب کے پیسے لگانے کے ساتھ جلال الدین نے اپنی ٹیکسی چلانے کے دوران ملنے والے مخیر حضرات سے بھی مدد مانگی ۔ سال 2006 ء میں دوسرا اسکول شروع کیا ۔ صرف اتنا ہی نہیں جلال الدین خود ٹیکسی چلاتے تھے تو انہوں نے غریب ضرورت مندوں کو فری میں ٹیکسی چلانے کی ٹریننگ بھی شروع کی ۔ جلال الدین نے اپنے دو بچوں کو بھی ٹیکسی چلانا سکھایا ۔ اب اس 70 سال کے بوڑھے شخص کے رفاہی کام میں اس کے دو بیٹے بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اس کے دونوں اسکولوں میں 16 ٹیچرس اور 400 بچے ہیں۔ سال 2016 ء میں جلال الدین نے ایک یتیم خانہ بھی شروع کیا جہاں پر بھی اتنے ہی بچے رہتے ہیں ۔ اپنی پیلی رنگ کی ٹیکسی پر جس کا نمبر WBO4 E-4753 ہے۔ انہوں نے جلی حروف میں لکھا رکھا ہے کہ اس ٹیکسی کی آمدنی سے سندربن کے یتیم خانے کی مدد کی جاتی ہے ۔
قارئین اکرام جلال الدین ٹیکسی ڈرائیور ہے۔ اس کی سوچ اس کی فکر اس کی کمائی اور اس کی ٹیکسی سے ہونے والی بچت صرف اس کی ذات تک محدود ہونی چاہئے تھی کیونکہ ہمارے ہاں تو غریب آدمی محنتی آدمی صرف اپنی ذات کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے اور یوں کہیئے کہ روتا رہتا ہے ۔ مگر مغربی بنگال کا یہ شخص دیوانہ ہے۔ جس کا نام جلال الدین ہے ۔ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر یہ اپنے گاؤں کے غریبوں اور یتیموں کے بارے میں سوچتا ہے، حالانکہ اگر یہ حکومت کی عدم توجہی کی شکایت کردے تب بھی اس کا گزارا ہوسکتا تھا مگر کسی سے شکایت نہیں کسی کا شکوہ نہیں جلال الدین نے اللہ سے دعا کی ہوگی لیکن وہ دعا کرنے کے بعد آسمان سے فرشتوں کی جماعت اترنے کا انتظار نہیں کرتا رہا۔ ٹیکسی چلا کر گھر والوں کا پیٹ بھرا لیکن غریبوں کا اسکول کھولنے کیلئے بھی پیسے جوڑے اور اپنے انسان ہونے کا عملی ثبوت پیش کیا ۔ ہمارے لئے بھی وقت ہے کہ ہم دعا کے ساتھ ساتھ اپنی ذات سے بھی کچھ کریں۔ صرف آسمان سے فرشتوں کے اترنے کا انتظار نہ کریں یا الٰہی تو ہمارے لئے محنت کو اکل حلال کو اور نفع والے علم کو آسان فرما (آمین) ۔
sarwari829@gmail.com