دعاء کی اہمیت

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ

اللہ سبحا نہ کی ذات پا ک غنی و بے نیاز ہے‘ فخرو احتیاج بندے کی شان ہے ‘ارشا د با ری ہے اے لوگو تم اللہ کے محتا ج ہو اور اللہ سبحا نہ بے نیا ز ہر طرح تعریف کا مستحق بڑی خو بیوں و ا لا ہے(سورۃ فاطر؍۱۵)  یہا ں خطا ب ’’النّاس ‘‘ِسے فر ما یا گیا ہے ‘اس سے مرا د عو ا م و خو ا ص سب ہیںحتٰی کہ کفارو مشرکین بھی ہد ا یت کے طا لب ہوں توسچے دل سے ایما ن قبول کرکے اسی کی با ر گا ہ میں ہد ا یت پر استقا مت کی دعا ء کریں۔ اللہ سبحا نہ و تعا لی کا غنی و بے نیا ز ہونا اس قدر اعلی و ارفع ہے کہ اسکی بلندی کا کوئی تصور ممکن نہیں سا ری انسا نیت نا فر ما نی اختیا ر کرلے تو اسکی سلطنت میں کوئی نقص یا کمی نہیں ہو سکتی او رسا ری انسا نیت کی اطا عت گذا ری و بندگی اسکی سلطنت میں نہ کچھ اضا فہ کرسکتی ہے اور نا ہی اسکی طا قت و قدرت میں کسی طرح کی کو ئی زیا دتی۔ فخرو محتا جی کا اقتضا ء یہ ہے کہ بندہ اللہ تعا لیٰ کی بے نیا زذا ت کی با ر گا ہ قدس میں ہر آن رجو ع رہے۔ اسی کے آگے دست سؤال دراز کرے ‘ارشا د با ری ہے اے میرے حبیب ﷺ میرے بندے میرے با رے میں آپ سے سو ا ل کریں تو آپ فرما دیجے کہ میں بہت ہی قریب ہوں‘ ہرما نگنے و الے کی دعا ء کو  قبول کر تا ہوں  جب بھی وہ دعا ء مانگے۔(البقرہ؍ ۱۸۶) مصا ئب و آ لام کے ہجوم میں گھری‘ ہلا کت و بربا دی کی کھا ئی میں پہنسی ‘ہموم و غموم کے افکا ر و آ لا م یں دبی کچلی انسا نیت کیلئے کیسا حیات آفریں پیغام’’انّی قریب‘‘ کے دو لفظوں میں سمو دیا گیا ہے۔ اللہ سبحا نہ کی ذا ت قا در و قیوم ہے رحمٰن و رحیم ہے ہر ایک کی دعا ء کو سنتا ہے شرط یہ ہے کہ سچے دل کے ساتھ اسکی با ر گا ہ میں دست دعا ء درا ز کیا جا ئے‘ دل کی گہرا ئیوں سے اس سے مانگا جا ئے اور اسکے در رحمت پر با ر بار دستک دی جا ئے اور اپنے خالی دا من کو با ر بار پسا را جا ئے تو وہ سنے گا او ر ضرور سنے گا ‘دعا ئیں قبو ل کریگا اور ضرور قبول کرے گا۔
اللہ سبحا نہ سے ما نگنا اوردعا کرنا عبادت ہے۔ اس لئے ہر دعا ء عبادت ہے اور ہر عبادت بھی گو یا دعا ء ہے۔عبادت نام ہے اللہ سبحا نہ کی یکتا ئی اور اسکی بڑا ئی وکبریائی پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے اسکے آگے اپنی انتہائی عا جزی و تذلل کے اظہار کرنے کا۔ ظا ہر ہے اپنی بندگی‘خا کساری و احتیا ج پر نظر کر تے ہوئے اس سے ما نگنا اور اپنے محتاج ہا تھوں کو  دعا ء کی غرض سے اسکے دربار میں اٹھا نا عجزو انکسا ری فخرو محتا جی کا مظہرہے۔
حدیث پا ک میں و ا رد ہے: دعا ء عبادت کا مغز ہے ( ترمذی) یعنی عبادت کی رو ح اور اسکی جا ن ہے۔ اسکی وجہ عبدیت و بندگی میں کما ل پید ا ہو تا ہے۔ساری کائنا ت کے خا لق و ما لک کا دربار جو د وسخا اور فضل و عطاء ہر وقت و ہر لمحہ کھلا ہو ا ہے ۔ اور ہر اک کیلئے کھلا ہو ا ہے‘گنہگار و خطا کار ہو کہ متقی و پرہیز گار ہر ایک کی وہ دعاء سنتا ہے۔ ارشا د با ری ہے مجھ سے ما نگو میں تمہا ری دعا ء قبو ل کرونگا۔(سورۂ مو من؍۶۰)مانگنا اللہ سبحا نہ کو بہت پسند ہے‘ ما نگنے و ا لے بندوںسے وہ بے انتہاء خو ش ہو تا ہے۔حدیث پا ک میں تمثیل کی زبان میں اس حقیقت کو بیا ن کیا گیا ہے۔ فر ما یا کہ ایک انسا ن اپنے قیمتی سازوسامان‘اعراض و امو ا ل سے لدے او نٹوں کے سا تھ ر خت سفر باندھے‘ اثناء را ہ کسی درخت کے نیچے سستا نے اور آرام کر نے کیلئے لیٹ جا ئے اسکی آنکھ لگ جا ئے کچھ دیر بعد آنکھ کھلے تو اپنے سا زو سا ما ن کو غا ئب پا ئے رنج و غم سے جیسے و ہ دو چا ر ہو سکتا ہے اسکو تو وہی جان سکتا ہے ‘ اسی رنج و غم سے بھرے دل او ر نمنا ک آ نکھوں میں ڈو بے اچا نک نیند کی و ا دی میں پہنچ جا ئے کچھ دیر بعد جیسے ہی آنکھ کھلے اپنے سا ما ن سفر کو اپنے سا منے مو جو د پا ئے تو جیسی کچھ خوشی اسکو ہوسکتی ہے اس سے کہیں ا ور کہیں زیادہ اللہ سبحا نہ کو اس کے کو بھولے ہوئے بندہ کے اس سے رجوع ہو جا نے والے‘ اپنے گنا ہوں کی معا فی و تلا فی کے جذ بہ نیک کے ساتھ سچے دل سے توبہ و استغفا ر کرتے ہوئے دست سؤال دراز کر نیو ا لے بندے سے ہو تی ہے۔
حدیث شریف میں وارد ہے جس کیلئے دعاء کے درو ا زے کھول دئے گئے اسکے لئے رحمت کے دروا زے کھل گئے(ترمذی) دعا ء عبا دت ہے اسی لئے وہ اللہ سبحانہ ہی سے ما نگی جاسکتی ہے۔غیرخداسے دعا ء ما نگنا شرک فی العبادت ہے۔غیر خدا سے فر یا د‘ حا جت روائی کیلئے غیر خدا کو پکا را جا نا’’ سراب‘‘ ہے یعنی یہ ایسا دھو کا ہے جو ایک پیا سے کو دور سے پا نی کی طرح دکھائی دیتا ہے ‘ مگرجب وہ ایک مسا فت طئے کر کے اس جگہ تک پہنچتا ہے تو پھر وہی بظا ہر دکھا ئی دینے و ا لا پا نی مزید دور مسا فت پر دکھا ئی دینے لگتا ہے‘ سراب سے جسطرح تشنگی بجھنے کا سا ما ن نہیں ہو سکتا ‘ اسی طرح اپنے خا لق و ما لک کو چھوڑ کرغیر خدا سے ما نگنے والے کی منزل کھوٹی ہو جاتی ہے۔ دنیا و آخرت کی نا کا می ونا مرا دی اسکے حصّہ میں آتی ہے۔ حدیث پا ک میں وارد ہے۔ دعا ء مومن کا ہتھیار ہے یعنی حفاظت کا اک مؤثر اور کا ر کرد ذریعہ ہے۔حق سبحا نہ دعا ء سے ایسی حفاظت نصیب فر ما تے ہیں اسکے سامنے بڑے بڑے حفا ظتی اسلحہ بے بس وبیکا ر ثا بت ہوتے ہیں۔ غمزدہ دکھی دلوں کیلئے دعا ء بڑا سہا را ہے۔ بیما روں‘ مریضوں کیلئے دو ا‘ مجبو روں، لاچاروں‘  بیکسوں‘ مظلو موں‘ مضطرب و پریشان حا ل بندوں کے دکھوں کا مدا وا ہے۔ مظلو موں کی دعا ء توارض و سما کی وسعتوں کا سینہ چیر کر را ست عرش الہی پر دستک دیتی ہے۔ اور شرف باریابی لا تی ہے حدیث شریف میں و ا رد ہے :’’ اتّق دعوۃ المظلوم فلیس بینھا وبین اللہ حجا ب‘‘ اسی مفہوم کو اس شعر میں سمو دیاگیاہے۔
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعاء کردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
(باقی آئندہ)