تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے چیف منسٹر زیادہ سے زیادہ سیاسی مزے لوٹنے کی فراق میں ہیں ۔ لوک سبھا کے نتائج آنے سے پہلے ہی انہوں نے وفاقی محاذ بنانے کے خواب کو یقینی بنانے والی دوڑ کا آغاز کردیا ہے لیکن پہلے کی طرح یہ دوڑ بھی کیرالا کے چیف منسٹر پنیرائی وجین کے گھر تک پہونچ کر ختم ہوگئی کیوں کہ ڈی ایم کے نے کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا ۔ چیف منسٹر کی ذمہ داریوں میں بہت سی باتیں ہوتی ہیں ان میں سے اہم بات عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا ہوتا ہے ۔ لیکن تلنگانہ میں رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی تاجر ، دوکاندار اور دل بھر کر منافع خوری کرنے والے روزہ داروں کو لوٹتے ہیں ۔ ان منافع خوروں کو پوچھنے والانہ پہلے کوئی تھا نہ اب کوئی ہے ۔ دنیا بھر میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کو خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت میں مصروف دیکھاجاتا ہے اور مساجد روح پرور مناظر پیش کرتی ہیں اور بازاروں میں بھی گہما گہمی بڑھ جاتی ہے ۔ مگر بدقسمتی سے تلنگانہ کے مسلمان رمضان المبارک کی خوشیوں کے ساتھ اپنے افطار اور سحر کے لیے فکر مند ہوتے ہیں ۔ ان کی غذاؤں پر منافع خوروں کا راج ہوجاتا ہے تلنگانہ کے حکمراں سابق ہوں یا حالیہ وہ عوام کی پریشانیوں پر جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ’ مہنگائی کا اثر عوام پر نہیں پڑے گا ۔ اس سال حکومت تلنگانہ نے اپنے مسلمان باشندوں کو ایک اور دھکہ یہ بھی دیا ہے کہ ان کی عبادت گاہ کو مسمار کردیا ۔ اب حکومت کے نمائندے مسجد کی تعمیر کے لیے روزانہ مسلمانوں کو بے وقوف بنانے والے بیان دے کر خاموش کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کا حشر دن بہ دن کس حد تک ابتر بنا دیا جائے گا اس کی جھلک دکھائی دی گئی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت کا المیہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو بہت خوبی سے دھوکہ دینے میں ماہر ہے اور مسلمان بھی بڑی نادانی سے بے وقوف بن رہے ہیں ۔ حکومت کے سربراہ نے تو مسلمانوں کو ترقی دینے کے لیے بلند بانگ وعدے کئے جو وعدے آسمانوں کے تھے ( درست ہے موت کے بعد آسمان پر جانے کا مسلمانوں کا ایمان ہے تو انہوں نے ٹھیک تو وعدہ کیا تھا ) ۔ تحفظات نہیں دئیے گئے تو مسلمان چپ رہے ، ان کی عبادت گاہ کو شہید کردیا گیا تو بھی مسلمان چپ ہیں ۔ مسلمانوں کے ووٹوں کو ہڑپنے کا حق سمجھنے والی قیادت بھی خاموش ہے ۔ یہ سانحہ ہے مگر ان کا اتحاد حکومت کے ساتھ ہے ۔ ان سے ان کی اس مجرمانہ خاموشی کے متعلق کوئی کچھ نہیں پوچھ رہا ہے ۔ اس ریاست کی اپوزیشن آئی سی یو میں ہے اس کو احتسابی عمل سے گذرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب تلنگانہ حکومت بغیر اپوزیشن کے خوب رنگ ریلیاں منائے گی ۔ اس حکومت کے سربراہ کا قومی سیاست کا شوق بھی اگر پورا ہونے لگے تو پھر تلنگانہ کے عوام کے مسائل یکسر نظر انداز ہوجائیں گے ۔ دسمبر 2018 کے اسمبلی انتخابات کے بعد عوام کے بھاری خط اعتماد کے بعد دوبارہ اقتدار پر آنے والے لیڈر میں قومی سیاست کا شوق چرایا ہے تو اس شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ ریاست میں کانگریس سے سیاسی دشمنی رکھنے کے باوجود مرکز میں اگر راہول گاندھی کو سیاسی قوت ملتی ہے تو وہ کانگریس کی تائید میں دوڑ پڑیں گے؟ جیسا کہ کانگریس لیڈر ویرپا موئیلی نے یہ اشارہ دیا ہے کہ ٹی آر ایس کا وفاقی محاذ دراصل این ڈی اے کے خلاف ہے یعنی اگر یہ وفاقی محاذ بن جائے تو اس کا راست جھکاؤ کانگریس اتحاد والی حکومت کی طرف ہوجائے گا ۔ علاقائی پارٹیوں کا وفاقی محاذ بنانے کی کوشش کرنے والے کے سی آر کو دوست بنانے میں کانگریس بھی نہیں کترائے گی ۔ 1996-98 کی طرح حکومت بن جانے کا امکان پیدا ہوتا ہے تو پھر علاقائی پارٹیوں کا واحد راستہ کانگریس زیر قیادت اتحاد کا ساتھ ہوگا لیکن سوال یہ پیدا ہوگا کہ راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر دیکھنے سے اعتراض کرنے والے علاقائی قائدین میں کون کون ہوں گے ۔ سب سے پہلے آیا کے سی آر کی جانب سے اعتراض اٹھایا جائے گا ۔ یا ممتا بنرجی یا مایاوتی یا کوئی اور مخالفت کرے گا یہ تو 23 مئی کے بعد کے حالات ہی بتائیں گے ۔ فی الحال کے سی آر دشمن کے دشمن کو دوست بنانے کی اصطلاح پر عمل کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ وائی ایس آر کانگریس لیڈر جگن موہن ریڈی سے ان کی قربت سے ظاہر ہوتا ہے کہ چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کی مخالفت کرنے والے لیڈروں کو اپنا دوست بنایا جائے ۔ آندھرا پردیش کے اسمبلی اور لوک سبھا کے نتائج اگر نائیڈو کے خلاف ہوں تو پھر آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس کی حکومت بنے گی ۔ آندھرا پردیش میں مخالف حکومت لہر کے تحت نائیڈو کی تلگو دیشم کو دھکہ پہونچتا ہے تو پھر وفاقی محاذ کا منظر بھی بدل جائے گا ۔ کے سی آر نے دہلی کی سیاست سے دو تلگو ریاستوں سے حاصل ہونے والی لوک سبھا نشستوں کا فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا ہے تو جگن موہن ریڈی سے دوستی کرلی ہے ۔ بادشاہ گر بن کر نا قابل یقین رول ادا کرتے ہوئے وزارت عطمیٰ کی کرسی کی جانب چھلانگ لگانے کی کوشش کی جائے گی ۔ احتیاطاً انہیں اپنی اسی سوچ کو کنفرم کرنا ہوگا کہ آیا وہ واقعی غیر بی جے پی ، غیر کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گے ؟ ان کی تلنگانہ حکومت کا نامہ اعمال مرکزی حکومت کے کیا کام آئے گا ۔ یہ بھی غور طلب ہوگا ۔ بہر حال لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے تک کے سی آر کے لیے فال نیک کا محاذ کھلا رہے گا ۔ وفاقی اور قومی محاذ کے درمیان عوام دوست پالیسیاں بنانا بھی اصل امتحان ہوگا ۔۔