7 کشمیر …واحد مسلم اکثریتی ریاست نشانہ پر
7 یو پی میں مایاوتی کو سیاسی آکسیجن
رشیدالدین
کوئی بھی حکومت بھروسہ اور اعتماد سے چلتی ہے اور جب عوام کا حکومت پر سے بھروسہ اٹھ جائے تو پھر بدامنی اور نراج جیسی صورتحال پیدا ہونا یقینی ہے۔ کچھ یہی صورتحال جموں و کشمیر کی ہے۔ آخر ایسی کیا بات ہوگئی کہ وادی میں عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ گزشتہ 20 برسوں میں کبھی بھی وادی کی صورتحال اس قدر ابتر نہیں تھی۔ دو ہفتوں سے مسلسل کرفیو کے باوجود عوام کا غم و غصہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ عوام اشیائے ضروریہ سے محروم ہیں، وہ بھوکے رہنے تیار ہے لیکن اپنی نارا ضگی ختم کرنے تیار نہیں۔ ظاہر ہے کہ کئی برسوں کا زخم بڑھتے بڑھتے گہرا ہوچکا ہے جس کا مداوا معمولی علاج سے ممکن نہیں۔ کشمیریوں کے دکھ ، درد اور جذبات کو سمجھے بغیر صرف بندوق اور گولی سے حکمرانی کا فیصلہ صورتحال کو مزید سنگین بنادے گا۔ مرکز کی بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت اقتدار کے نشہ میں ایسی کوئی حماقت کرے گی تو یہ اس کی بھول ہوگی۔ گزشتہ دو ہفتوں سے وادی کی صورتحال دھماکو ہے۔ مقامی اخبارات ، نیوز چیانلس اور انٹرنیٹ سرویس پر امتناع کے سبب حقیقی صورتحال سے دنیا بے خبر ہے۔ سرکاری میڈیا اور اس کے ہمنوا وہی دکھا رہے ہیں جس کی اجازت ہے۔ ایک نوجوان جس پر دہشت گرد ہونے کا الزام ہے، اس کی ہلاکت کے بعد وادی کے تمام علاقوں میں احتجاج شروع ہوگیا۔ صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوج اور سیکوریٹی فورسس نے طاقت کا بیجا استعمال کیا جس کا اعتراف مرکزی اور ریاستی حکومت نے کیا ہے۔ فوج اور سیکوریٹی فورسس کی زیادتی کے سبب معصوم کشمیریوں کی ہلاکتیں واقع ہوئیں اور یہ تعداد 40 سے تجاوز کرچکی ہے اور سینکڑوں افراد زخمی ہیں۔ وادی پر حکومت کا کنٹرول عملاً ختم ہوچکا ہے۔ عوام کو فوج اور سیکوریٹی فورسس کے حوالے کردیا گیا۔ اپنے ہی عوام کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرنے کی شکایات ملی ہے۔
یہی نہیں سوشیل میڈیا پر کئی ثبوت منظر عام پر آئے ہیں۔ حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ خود ہی ہلاکتوں اور زخمیوں کی حقیقی تعداد سے لاعلم دکھائی دے رہی ہے۔ اس قدر ابتر صورتحال کے باوجود مرکز تماش بین بنا بیٹھا ہے ۔ بی جے پی کو وادی اور اس کے عوام کی نہیں بلکہ اپنی حکومت بچانے کی فکر ہے۔ اگر کشمیر میں کانگریس یا نیشنل کانفرنس کی حکومت ہوتی تو کیا مرکز اسی طرح خاموش رہتا ؟ گورنر کشمیر نے آج تک مرکز کو رپورٹ روانہ نہیں کی اور نہ مرکز نے چیف منسٹر کو طلب کرنا مناسب سمجھا۔ اگر کسی اور پارٹی کی حکومت ہوتی تو ابھی تک صدر راج نافذ کردیا جاتا۔ کشمیر کے موجودہ حالات یقینی طور پر صدر راج کے نفاذ کا فٹ کیس ہیں لیکن مرکز ایسا نہیں کرے گا کیونکہ دیرینہ آرزوؤں کے بعد کشمیر میں بی جے پی کو اقتدار میں شراکت ملی ہے۔ صرف ایک ہلاکت کے خلاف عوام برہم نہیں ہیں بلکہ مظالم اور زیادتیوں کے تسلسل کا لاوا ہے جو پھٹ پڑا۔ عسکریت پسند کا لیبل لگاکر ہلاکتوں کے واقعات سابق میں بھی رونما ہوچکے ہیں۔ چار ہفتے قبل جس عسکریت پسند کو ہلاک کیا گیا اسے گرفتار بھی کیا جاسکتا تھا ۔ 26/11 کے ممبئی دہشت گرد حملہ کو دنیا نے ٹی وی پر لائیو دیکھا ۔ ایک حملہ آور اجمل قصاب کو زندہ پکڑا گیا ۔ کمانڈوز چاہتے تو اسے گولی مارسکتے تھے لیکن گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ انصاف کے تمام تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے اجمل قصاب کو اپنے دفاع کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ ٹرائیل کی تکمیل کے بعد عدالت نے سزا سنائی۔ ایک غیر ملکی دہشت گرد کو جسے دنیا نے دیکھا ، اس کے ساتھ قانون کے تمام تقاضوں کی تکمیل کی گئی، اسی طرح اگر کشمیر میں مذکورہ عسکریت پسند کو گرفتار کرتے ہوئے عوام کے روبرو حقائق کو پیش کیا جاتا تو شائد یہ صورتحال نہ ہوتی۔ سیکوریٹی فورسس اور فوج اس قدر صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ کسی بھی عسکریت پسند کو اگر چاہے تو گرفتار کرسکتی ہے۔ کشمیری عوام دہشت گردی یا عسکریت پسندی کی تائید میں ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ سیکوریٹی فورسس کی زیادتیوں سے نالاں ہیں۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں احتجاج سے نمٹنے کی مثالیں موجود ہیں لیکن کشمیر کے معاملہ میں سیکوریٹی فورسس آخر کیوں بے گناہوں کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔ یوں تو ملک میں جب بھی مسلمانوں سے نمٹنے کا معاملہ ہو تو ان کے ساتھ دشمن جیسا سلوک عام ہے۔ آخر مسلمانوں سے نفرت کا یہ جذبہ کیوں ؟ فوج اور سیکوریٹی فورسس میں نفرت کا یہ زہر آخر کس نے گھول دیا۔
صورتحال بگڑنے کے دو ہفتہ بعد محبوبہ مفتی نے کل جماعتی اجلاس طلب کیا جس میں اہم اپوزیشن نیشنل کانفرنس غیر حاضر رہی۔ بات چیت اور مذاکرات سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ حریت کے دونوں گروپس کے ساتھ کئے جائیں جو کشمیری عوام کے حقیقی ترجمان ہیں۔ بی جے پی نے مرکز میں برسر اقتدار آتے ہی نارتھ ایسٹ میں سرگرم علحدگی پسند ناگا باغیوں سے معاہدہ کیا۔ ناگا پانچ ریاستوں پر مشتمل عظیم تر ناگالینڈ مملکت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ علحدہ ملک کے قیام کا مطالبہ کرنے والوں سے تو مرکز معاہدہ کرتا ہے لیکن کشمیری عوام سے کوئی مذاکرات نہیں جبکہ وہ ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور کشمیریوں نے کبھی بھی علحدہ مملکت کے نام پر ہتھیار نہیں اٹھائے ۔ لفظ مسلم سے اس قدر الرجی کیوں ہے؟ کشمیریوں کو گلے لگاکر تو دیکھیں کہ ان میں کس قدر محبت ، انسانیت ، ہمدردی اور حب الوطنی کا جذبہ موجود ہے۔ سنگین حالات میں بھی کشمیریوں نے انسانی ہمدردی کی مثال قائم کی۔ میرٹھ سے تعلق رکھنے والے امرناتھ یاتریوں کی بس کو جب حادثہ ہوا تو زخمیوں نے مدد کیلئے فوج اور پولیس کو آواز دی لیکن کسی نے اپنی گاڑیاں نہیں روکیں۔ برخلاف اس کے کرفیو کے باوجود کشمیری مسلمانوں نے مسافرین کو بس سے نکالا اور دواخانہ منتقل کیا ۔ دواخانہ میں زخمیوں کو خون دینے کے مسئلہ پر مسلم نوجوان آپس میں تکرار کر رہے تھے۔ اس منظر کو ٹی وی چیانلس نے پیش کیا اور حکومت کے سرکاری چیانل نے متاثرین کا بیان ٹیلی کاسٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے ان کی زندگی بچائی ہے۔ اس سے بڑھ کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور وطن پرستی کا اور کیا ثبوت ہوگا۔
جارحانہ فرقہ پرست عناصر کو ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کھٹک رہی ہے اور وہ اسے ہندو اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ نفرت کا یہی جذبہ سیکوریٹی فورسس کے بعض گوشوں میں دکھائی دے رہا ہے جس کا ثبوت کشمیری عوام پر فلسطینیوں کی طرح اسرائیلی مظالم ہیں۔ فوج اور سیکو ریٹی فورسس کو اپنی شجاعت، بہادر اور جواں مردی کے جوہر دکھانے ہو تو اپنے ہی عوام پر مظالم کے بجائے مقبوضہ کشمیر کے علاقہ کو واپس حاصل کریں ، جو 1948 ء تک ہندوستان کا حصہ تھا ۔ اپنی ہمت کا ثبوت دینے کیلئے فوج ، عسکریت پسندوں کے کیمپس کو تباہ کر کے دکھائے۔ ویسے بھی بی جے پی کے قومی ایجنڈہ میں مقبوضہ کشمیر کو دوبارہ حاصل کر نا شامل ہے۔ فوج کو اس ایجنڈہ کی تکمیل کی ہمت دکھانی چاہئے، جو حقیقی معنوں میں ملک کی خدمت ہوگی۔ نہتے عوام پر گولی چلانا کہاں کا انصاف ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے دراندازی اور عسکریت پسندی کے لئے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا۔ راج ناتھ سنگھ نے کونسی نئی بات کہی ہے ، آج نہیں بلکہ 1948 ء سے ہی پاکستان یہ کام کر رہا ہے۔ پاکستان کی ایماء پر مخالف ہندوستان سرگرمیاں حکومت اور انٹلیجنس ایجنسیوں سے اوجھل نہیں ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی پاکستان کو اپنے علاقہ میں تخریبی سرگرمیوں کی چھوٹ دی جارہی ہے ۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی کی پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے درپردہ عاشقی ایک سوالیہ نشان ہے۔ نواز شریف سے والہانہ محبت اور دلبستگی کی آخر کیا وجہ ہے ۔ حالیہ عرصہ میں کئی واقعات کے باوجود نریندر مودی پاکستان سے فاصلہ اختیار کرنے تیار نہیں۔ حلف برداری میں نواز شریف کو مدعو کرتے ہوئے اس کا آغاز ہوا تھا جو سالگرہ کی مبارکباد دینے اچانک لاہور پہنچنے پر بام عروج کو پہنچ گیا۔ نواز شریف نے اپنے آپریشن سے قبل نریندر مودی کی فون پر دعائیں حاصل کی تھیں ۔ اگر حالات ٹھیک ہوتے تو عجب نہیں تھا کہ مودی مزاج پرسی کے نام پر اچانک لاہور پہنچ جاتے یا پھر نوا ز شریف دعاؤں کیلئے شکریہ اداکرنے دہلی آتے۔ افسوس کہ مرکزی حکومت اور نریندر مودی کو دشمن ملک کے وزیراعظم کی ہر لمحہ فکر ہے لیکن انہیں لاکھوں کشمیری عوام کو امدادی سامان روانہ کرنے کی فکر نہیں ہے۔ بعض گوشوں کی جانب سے کشمیر کو زائد خودمختاری اور رائے شماری کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو دراصل آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش ہے۔ کشمیر کو خصوصی موقف دستور ہند نے آرٹیکل 370 کے ذریعہ فراہم کر رکھا ہے ۔ کشمیر میں پی ڈی پی ۔بی جے پی مخلوط حکومت کی تشکیل نے صورتحال کو بگاڑنے میں اہم رول ادا کیا ۔ وادی میں بی جے پی کو قبول کرنے کیلئے کئی صدیاں لگ جائیں گی لیکن بی جے پی کو حکمرانی کی جلدی تھی۔ یہ مخلوط حکومت ایسی ہی ہے جیسے سفید کپڑے میں سرخ رنگ کا پیوند لگادیا جائے جو کسی عیب سے کم نہیں ۔
حکومت کو چاہئے کہ کشمیریوں کے زخم پر مرہم رکھتے ہوئے دل جیتنے کا کام کرے۔ دوسری طرف اترپردیش اور گجرات میں دلتوں کے ساتھ بھی اعلیٰ طبقات کا رویہ ناراضگی میں اضافہ کا سبب بن چکا ہے۔ اترپردیش کے ایک بی جے پی لیڈر نے بی ایس پی قائد مایاوتی کے خلاف توہین آمیز ریمارک کیا۔ اگرچہ بی جے پی نے اس لیڈر کو پارٹی عہدہ سے ہٹادیا لیکن اترپردیش میں دلتوں کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ انتخابات سے عین قبل بی جے پی کی اس حرکت سے مایاوتی کو سیاسی آکسیجن مل گئی ہے اور وہ اس مسئلہ کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرسکتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دانستہ طور پر یہ قدم اٹھایا گیا تاکہ سماج وادی پارٹی کو نقصان پہنچایا جائے ۔ ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان کمزور طبقات کے ووٹ تقسیم کرتے ہوئے بی جے پی فائدہ اٹھانی کی کوشش کرسکتی ہے۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات کوئی نئی بات نہیں اور سابق میں پارٹی کے کئی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی لیکن کسی کو پارٹی سے خارج نہیں کیا گیا ۔ گجرات میں گائے کے مسئلہ پر دلت نوجوانوں پر حملہ ہوا جس سے وہاں کی بی جے پی حکومت دلتوں کے نشانہ پر ہے ۔ جب معاملہ دلت کا ہے تو مرکزی حکومت نے تمام ریاستوں کو ہدایات جاری کیں کہ ایس سی ، ایس ٹی طبقات کے تحفظ کے اقدامات کریں لیکن آج تک مسلمانوں کے کسی معاملہ میں اس طرح کی ہدایات نہیں دی گئی ۔ دادری میں اخلاق حسین کے ارکان خاندان پر بیف رکھنے کا مقدمہ درج کیا گیا جو مسلمانوں سے نفرت کی تازہ مثال ہے۔ کیا یہی نریندر مودی کا عوام کے تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک ہے؟ شہود آفاقی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
دشمن سے سرحدوں کو بچانا تھا جس کا کام
اپنوں کو قتل کرنے پہ مامور ہوگیا