دشمنی کی آنچ دستانے تلک تو آگئی

واجپائی کو کارگل …مودی کو پٹھان کوٹ
مفتی سعید کے بعد بی جے پی اتحاد کا کیا ہوگا ؟

رشیدالدین
وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ لاہور کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید جاگی تھی لیکن پٹھان کوٹ دہشت گرد حملہ نے پھر ایک بار دوستی کی راہ میں دراڑ پیدا کردی ہے۔ ہندوستان نے بڑے بھائی کی طرح پاکستان کے ساتھ ہمیشہ خوشگوار رشتوں کی مساعی کی کیونکہ دوست تو بدلے جاسکتے ہیں ، پڑوسی نہیں۔ اگر جذبہ خیر سگالی کا جواب محبت اور رواداری کے بجائے نفرت اور بارود سے دیا جائے تو ہر کسی کا اپنے پڑوسی پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ اسلامی جمہوریہ کا دعویٰ کرنے والی مملکت خداداد کو اسلام کا یہ درس فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ ایک کامل مومن ہونے کیلئے پڑوس کو اپنے شر سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ ہندوستان نے جب فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو پاکستان کو اسی جذبہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا لیکن مودی کی ہندوستان واپسی کے فوری بعد پٹھان کوٹ میں فضائیہ کے ہیڈکوارٹر پر دہشت گرد حملہ انتہائی مذموم اور بدبختانہ کارروائی ہے۔ پاکستان کی حکومت اس حملہ کے لئے کس حد تک ذمہ دار ہے ، یہ علحدہ بحث ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان اپنا دامن نہیں بچاسکتی کیونکہ حملہ آور اس کی سرحد سے داخل ہوئے تھے۔ اسے محض اتفاق کہا جائے یا پھر امن کے دشمنوں کی سازش کہ جب کبھی ہندوستان نے کھلے دل کے ساتھ رشتوں کی بحالی کی پہل کی، اسے پاکستان کی جانب سے تلخ تجربہ کا سامنا کرنا پڑا۔ دوستی کیلئے بڑھائے گئے ہاتھ پر خنجر سے وار کیا گیا۔ جوابی خیر سگالی کے بجائے گولہ بارود اور سرحد پر دراندازی سے جواب دیا گیا۔ اٹل بہاری واجپائی جب پیام امن کے ساتھ بذریعہ بس لاہور گئے تو جواب میں کارگل کی لڑائی ہوئی اور اب نریندر مودی کے اچانک دورہ لاہور اور نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد کے بعد انہیں جواب میں پٹھان کوٹ کے حملہ کا تحفہ پیش کیا گیا ۔ دونوں واقعات میں نواز شریف اور لاہور قدر مشترک ہے۔ واجپائی کے دورہ کے وقت بھی نواز شریف ہی وزیراعظم تھے اور نریندر مودی کا سرپرائز وزٹ بھی نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں ہوا۔ دونوں بی جے پی کے وزرائے اعظم نے پاکستان کا دورہ کیا، اس کے بعد پاکستان کی جانب سے دہشت گرد حملوں کی کارروائی انجام دی گئی۔ بی جے پی دور حکومت میں پرویز مشرف نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور مودی کی حلف برداری میں نواز شریف شریک ہوئے تھے ۔ الغرض بی جے پی دور میں دونوں ممالک کے قائدین کے دوروں کا زیادہ تر تبادلہ ہوا لیکن ہندوستان کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔ کیا لاہور کی سرزمین دونوں ممالک کے رشتوں میں استواری کیلئے نیک شگون نہیں ہے؟ کارگل میں پاکستانی فوج کی مداخلت کا تو ہندوستان نے منہ توڑ جواب دیا تھا

اور دوبارہ اس نے علاقہ پر ہندوستانی پرچم لہرایا لیکن پٹھان کوٹ واقعہ پر مرکز کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ کانگریس پر پاکستان سے نرم رویہ کا الزام عائد کرنے والے آج خاموش کیوں ہیں؟ حکومت آپ کے ہاتھ میں ہیں، کسی نے کارروائی کرنے سے نہیں روکا ہے۔ پھر بھی حکومت کے ہاتھ کس نے باندھ رکھے ہیں۔ کارروائی تو دور کی بات ہے، وزیراعظم نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کا نام لینے کا حوصلہ تک نہیں دکھایا اور سفارتی سطح پر رسمی انداز کا احتجاج درج نہیں کیا گیا۔ جو لوگ زندگی بھر پاکستان کے نام پر سیاست کرتے رہے، آج ان کی زبان پر تالے کیوں ہیں؟ الغرض پٹھان کوٹ واقعہ نے دونوں ممالک کے تعلقات کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے، اس سے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو نقصان پہنچا۔ ملک کی داخلی سلامتی کو سنگین چیلنج سے جڑے اس واقعہ پر مرکز کا ردعمل مایوس کن رہا۔ کیا یہ وہی نریندر مودی ہیں جنہوں نے اپنی حلف برداری میں نواز شریف کو مدعو کیا لیکن معتمدین خارجہ کی ملاقات سے عین قبل پاکستانی ہائی کمشنر نے حریت قائدین سے ملاقات کی تو ہندوستان نے مذاکرات سے علحدگی اختیار کرلی تھی لیکن ہندوستانی فضائیہ کے اڈہ پر دو دن تک دہشت گردی کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ یو پی اے حکومت میں سرحد پر دو ہندوستانی سپاہیوں کا سر قلم کیا گیا تو بی جے پی نے اپوزیشن میں رہ کر پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک سر کے بدلے 10 سر قلم کرنے کا نعرہ لگایا گیا لیکن پٹھان کوٹ میں 7 سیکوریٹی اہلکاروں نے وطن پر اپنی جان نچھاور کردی۔ پھر بھی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کا نام لیکر مذمت نہ کرسکے۔ انہوں نے اسے انسانیت کے دشمنوں کی کارروائی قرار دیا جبکہ یہ راست طور پر ہندوستان کے دشمنوں کا معاملہ ہے۔ وزیراعظم بننے سے قبل مودی نے کہا تھا کہ پاکستان کو محبت کی زبان میں نہیں بلکہ اسی کی زبان میں جواب دینا چاہئے ۔ پاکستانی علاقوں میں دہشت گردوں کے کیمپس کو تباہ کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی میں نرمی ناقابل فہم ہے۔ اپوزیشن اور اقتدار میں دوہرا معیار آخر کیوں ؟ بنکاک میں مشیران قومی سلامتی کی خفیہ بات چیت سے لیکر لاہو کے اچانک دورہ تک کون ہے، اس پردہ زنگاری میں جو دونوں ممالک کا ریموٹ اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی پر کنٹرول کون کر رہا ہے ؟ دنیا میں تیزی سے ابھرتی طاقت ہندوستان کس کے ہاتھوں یرغمال ہے؟ سرحدوں کی حفاظت اور ملک کی داخلی سلامتی کے بارے میں فیصلوں سے کون روک رہا ہے۔کہاں ہے بی جے پی کی قوم پرستی اور حب الوطنی ؟ یہاں تک کہ سنگھ پریوار نے سرحدوں پر اپنے کارکنوں کے ذریعہ دشمن سے مقابلہ کا پیشکش کیا تھا۔

پٹھان کوٹ دہشت گرد حملہ ہندوستان کے لئے آئی اوپنر ہے۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی میں موجود عناصر دونوں ممالک کے بہتر تعلقات اور دوستی کے حق میں نہیں ہیں۔ لہذا جب کبھی دونوں ممالک کی حکومتیں کوئی پہل کرتی ہے تو فوری سبوتاج کی کارروائی کی جاتی ہے۔ ان عناصر پر پاکستانی حکومت کا کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا اور جس وزیراعظم نے بھی ان سے ٹکرانے کی کوشش کی، فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ پاکستان میں منتخب عوامی حکومت پر عملاً فوج کا کنٹرول ہے اور اس کی مرضی کے بغیر نواز شریف کچھ نہیں کرسکتے۔ ورنہ اقتدار سے محرومی کا خطرہ برقرار رہے گا۔ جہاں تک پٹھان کوٹ حملہ کا سوال ہے، پاکستانی فوج کی مدد کے بغیر یہ حملہ ممکن نہیں تھا کیونکہ حملہ آور سرحد پار سے آئے تھے۔ اس قدر واضح صورتحال کے باوجود حملہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے سلسلہ میں پاکستان سے امید وابستہ کرنا سوائے وقت خرابی کے کچھ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ اور ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف پاکستان نے آج تک کیا کارروائی کی جو پٹھان کوٹ سے ذمہ داروں کے خلاف کرے گا؟ ممبئی حملوں کے ذمہ دار اور ماسٹر مائینڈ آج بھی پاکستان میں آزاد گھوم رہے ہیں اور ہندوستان کی جانب سے پیش کردہ ثبوت کو نظر انداز کردیا گیا ۔ ملک میں اقتدار کے حصول کے ساتھ ہی پاکستان سے اتنی محبت کیوں ؟ اگر حکومت یو پی اے کی ہوتی تو بی جے پی اور سنگھ پریوار آسمان سر پر اٹھالیتے۔ پاکستان کے نام پر مسلم اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے بھی جیسے خفیہ ٹھکانوں میں مقید ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کو بات بات پر  پاکستان جانے کا مشورہ لیکن پاکستانی گلوکار عدنان سمیع کو ہندوستانی شہریت دی گئی۔ ہندوستانی مسلمانوں کو تو ہندوستانی ماننے سے انکار کیا جاتا ہے اور ان پر پاکستان کا لیبل لیکن ایک پاکستانی کو ہندوستانی شہریت دینے پر حکومت کا فخر باعث حیرت ہے۔

یہ دوہرے معیارات کیوں ؟ مسلمان کو بابری مسجد چاہئے تو پاکستان جائے، مودی کی مخالفت کرنا ہو تو پاکستان جائیں، وندے ماترم سے انکار ہو تو پاکستان جائیں ، گوشت کھانا ہو تو پاکستان جائیں لیکن پاکستانی شہری کو کس بنیاد پر ہندوستانی شہریت دینے حکومت تیار ہوئی ہے۔ فلم اسٹار اوم پوری نے ہندوستان میں عدم رواداری کا ماحول جاری رہنے پر پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرنے کی بات کہی تھی۔ حکومت میں ہمت ہو تو اوم پوری کی ہندوستانی شہریت رد کر کے دکھائے ۔ اگر یہی بات کسی مسلمان نے کہی ہوتی تو ہنگامہ ہوجاتا۔ عدم رواداری کے خلاف آواز اٹھانے پر عامر خاں اور شاہ رخ خاں کو بھی پاکستانی قرار دیا گیا۔ عدم رواداری کی مذمت کی سزا کے طور پر عامر خاں کو وزارت سیاحت نے انکریڈیبل انڈیا کے برانڈ ایمبسیڈر سے علحدہ کردیا ۔ سیاحت کے وزیر مہیش شرما وہی ہیں جنہوں نے دادری میں اخلاق حسین کے قتل کی بالواسطہ تائید کی اور رام مندر کی تعمیر کو حکومت کا ایجنڈہ قرار دیا تھا۔ پاکستان سے بہتر تعلقات سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن بارود برسائے گئے تو جواب میں پھول پہنانا ناقابل قبول ہوگا۔ ہندوستان کو اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کی سرحدوں اور قومی سلامتی کے حق میں سخت گیر فیصلے لینے ہوں گے۔ اسی دوران چیف منسٹر جموں و کشمیر مفتی محمد سعید کا اچانک انتقال دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی راہ میں خلاء پیدا ہونے کے مترادف ہے۔ سرحدی ریاست کے چیف منسٹر کی حیثیت سے مفتی محمد سعید نے پاکستان اور مرکزی حکومت کے درمیان سفیر امن کی طرح رول ادا کیا تھا، ان کے انتقال سے کشمیر کی سیاست میں تبدیلی کا امکان ہے۔ جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاستداں کی حیثیت سے مفتی محمد سعید نے کشمیر کی حد تک بی جے پی کو بھی سیکولر بنادیا تھا لیکن اب بی جے پی پر پی ڈی پی کا کنٹرول کمزور پڑسکتا ہے۔ محبوبہ مفتی کو چیف منسٹر کی حیثیت سے بی جے پی نے اگرچہ قبول کرلیا لیکن آنے والے دنوں میں یہ اتحاد کس حد تک مستحکم رہ پائے گا ، اس کی کوئی گیارنٹی نہیں۔ مفتی سعید کی کمی کو پی ڈی پی میں کوئی اور قائد پورا نہیں کرسکتا اور بی جے پی سے مصلحت اور کشمیر کے مفادات کے مطابق اتحاد کی برقراری صرف انہی کا کارنامہ تھا ۔ موجودہ صورتحال پر منور رانا نے کیا خوب تبصرہ کیا  ہے ؎
اور کتنی گرم جوشی چاہئے جذبات میں
دشمنی کی آنچ دستانے تلک تو آگئی