مسلمانوں کے دستوری اداروں کی سالمیت کی برقراری کا تیقن
نئی دہلی ۔ 5 مئی ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) مسلمانوں کے اندیشے دور کرنے کی کوشش میں نریندر مودی نے آج ایسے کوئی بھی موجودہ دستوری اور سرکاری نظام کو ختم کرنے کا امکان مسترد کردیا جس کا مقصد اُن کی فلاح و بہبود ہے اور کہا کہ وہ تو ایسے اداروں کو تقویت دینے کی سعی کریں گے ۔ سیکولرازم کو مغرب سے درآمد کردہ اصطلاح قرار دیتے ہو ئے مودی نے کہا کہ کانگریس نے اسے مسلم ووٹ بٹورنے کیلئے استعمال کیا ہے اور اب وہ اس پارٹی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے ’’ووٹ بینک‘‘ سمجھے جارہے ہیں۔ اردو ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ کو انٹرویو میں مودی نے کہا کہ دستور نے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیئے ہیں اور مذہبی ہم آہنگی اور تمام مذاہب کا احترام ’’ہندوستان کے ڈی این اے ‘‘ میں مضمر ہے ۔ اس سوال پر کہ آیا وہ اقلیتی کمیشن ، مائناریٹی فینانس کارپوریشن ڈیولپمنٹ کو ختم کردیں گے جیسا کہ اُن کے نقادوں کو اندیشہ ہے ، مودی نے کہا کہ دستوری اور سرکاری اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ناکہ اُنھیں ختم کیا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ ایسے اداروں کو ثمر آور اور طاقتور بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ٹھوس کام انجام دے سکیں، بجائے اس کے کہ موجودہ سسٹم کو ہی جاری رکھیں جو محض علامتی اقدامات کرتا ہے ۔ اس استفسار کے بارے میں کہ آیا بی جے پی یکساں سیول کوڈ لائے گی ، بی جے پی لیڈر نے کہا کہ اس پر عمل آوری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ملک کے تمام شہریوں پر ہندو ضابطہ لاگو کردیا جائیگا۔ ’’دستور کہتا ہے کہ حکومت یونیفارم سیول کوڈ پر عمل آوری کی کوشش کرے گی … میرا ماننا ہے کہ ہندو کوڈ میں کئی دفعات ہیں جو غیرمتعلقہ ہیں اور ان میں اصلاح کی ضرورت ہے ۔ اٹھارویں صدی کے قوانین کو 21 ویں صدی میں لاگو کرنا غیرضروری ہے ‘‘۔ یکساں سیول کوڈ پر عمل آوری بی جے پی کے کلیدی مسائل میں سے ہے اور پارٹی کے منشور میں اس کا تذکرہ ہے ۔ مودی نے کہا کہ ذات پات اور مذاہب کے معاملے میں انتہاپسندی کو ملک کی تقسیم کے لئے استعمال کیا گیا ۔ اس لئے وہ مذہبی اور ذات پات سے متعلق تشدد کے خاطیوں کو ہرگز برداشت نہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل میں انھوں نے کہاکہ حکومتی اقدامات کے مقابل سماج کے مختلف طبقات میں مذاکرات زیادہ اہم رول ادا کرتے ہیں۔