میرا کالم مجتبیٰ حسین
ہمیں اب سچ مچ یاد نہیں کہ ہم نے ہیلمٹ کے استعمال کے خلاف پہلا کالم کب لکھا تھا تاہم یہ ضرور یاد ہے کہ ابھی کسی حیدرآبادی کے سر میں ہیلمٹ کے خلاف کچھ کہنے کا سودا بھی نہیں سمایا تھا کہ ہم نے اپنے سر پر ہیلمٹ کا بوجھ اٹھا کر ہیلمٹ کے خلاف اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کرلیا تھا ۔ اس واقعہ کو بھی لگ بھگ تیس برس بیت گئے جب دہلی میں اسکوٹر چلانے والوں پر ہیلمٹ کا استعمال لازمی قرار دیا گیا تھا تو تب پہلی بار ہم نے اپنے سر پر ہیلمٹ پہنا اور آئینہ میں اپنی شکل دیکھی تو یقین مانئے ہم خود اپنے آپ کو دیکھ کر ڈر گئے تھے ۔ پھر ہمیں تاریخ کی پرانی کتابوں میں چھپی ہوئی سکندر اعظم کی وہ تصویر یاد آگئی تھی جس میں سکندر اعظم کو اپنے بدن پر زرہ بکتر اور سر پر خود پہنے ہوئے دیکھایاگیا تھا ۔ ہمیں یوں لگا جیسے ہم خود زمانہ قدیم کے کوئی بادشاہ ہیں اور ہم نے خلعت شاہانہ کے بغیر اپنے سر پر تاج کو سجا رکھا ہے۔ رہی یہ بات کہ ہیلمٹ کے ساتھ آئینہ میں اپنی شکل کو دیکھ کر ڈر کیوں گئے تھے تو بھیا اس آسان سوال کا مشکل جواب صرف یہ ہے کہ جلیل القدر بادشاہوں کو دیکھ کر کون نہیں ڈرتا بلکہ پچھلے زمانہ میں تو بادشاہ کو دیکھنے والے پرڈر کے مارے کپکپی طاری ہوجاتی تھی ۔ سکندر اعظم کو فاتح عالم سمجھا جاتا ہے
اگرچہ اس نے ہیلمٹ پہننے کے باوجود لمبی عمر نہیں پائی لیکن اس لباس شاہانہ کو پہن کر اس نے کئی ملکوں کو فتح کیا ۔ وہ ہمیشہ برسرپیکار رہا ۔ ہمارا خیال ہے کہ اس نے ہیلمٹ کی شکل کا تاج تو ضرور پہن لیا لیکن تخت پر بیٹھنے کا اسے کوئی موقع نہ ملا ہوگا ۔ ہم نے بیشتر پرانے حکمرانوں کو جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں اور کروفر کیساتھ حکمرانی کی کبھی سادہ لباس میں نہیں دیکھا ۔ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے بارے میں مشہور ہے کہ ظل سبحانی زیادہ تر اپنے یونیفارم کے ساتھ ہی گھوڑے کی پیٹھ کر سوار دکھائی دیتے تھے ۔ ہمایوں بھی اسی یونیفارم میں اپنی جان بچانے کی خاطر صحراؤں کی خاک چھانتا رہا ۔ البتہ اکبراعظم کے تخت نشین ہونے تک مغلیہ سلطنت کو استحکام مل چکا تھا ۔ ہم نے موصوف کو صرف ایک ہی مرتبہ اپنے شاہی ہیلمٹ کے ساتھ زرہ بکتر والے یونیفارم میں دیکھا تھا ۔ جب وہ انارکلی کے معاملہ میں خود اپنے گستاخ شہزادہ سلیم سے جنگ کرنے کے ارادے سے فلم ’’مغل اعظم‘‘ میں نکلے تھے اور یہ یونیفارم بھی انہیں مہارانی جودھا بائی نے اپنے دست مبارک سے پہنایا تھا ۔ گویا جو بادشاہ برسرپیکار رہتے تھے ان پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی ضروری تھی ۔ عہد وسطی کے بعد جب سلطنیتیں مستحکم ہوتی چلی گئیں اور دنیا میں امن قائم ہوتا چلا گیا تو تاریخ کے ابتدائی ہیلمٹ کا استعمال رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا گیا ۔ پھر بادشاہوں نے بھی اپنے عظیم الشان قلعوں اور محلوںمیں چین و سکون ، عیش و عشرت اور رقص و سرود کی زندگی اپنائی نتیجہ میں بربنائے سہولت و ثقافت ، قدیم ہیلمٹ نے دستاروں ،بگڑیوں ، کلاہوں اور انواع و اقسام کی ٹوپیوں وغیرہ کی شکل اختیار کرلی ۔ چنانچہ مغل تاجدار محمد شاہ رنگیلے کے عہد تک آتے آتے بادشاہ کی بگڑی میں خطرے سے بچاؤ کی کوئی سہولت بھی باقی نہیں رہ گئی تھی ۔ البتہ اس میں اتنی گنجائش ضرور نکل آئی تھی کہ کوہ نورکے سائز کے ہیرے کو چھپایا جاسکے ۔
دوسری طرف نادر شاہ نے بھلے ہی تخت طاؤس کوایران لے جانے کا خصوصی بندوبست کیا ہو لیکن کوہ نور ہیرے کو ایران لے جانے کی خاطر اس نے محمد شاہ کی پگڑی (یعنی ہیلمٹ) سے اپنی بگڑی بدل لی تھی ۔ بعد کی تاریخ میں ہیلمٹ کا زوال بڑی تیزی سے ہوا ۔ یہاں تک کہ آخری فرماں روائے اودھ نواب واجد علی شاہ دوپلی پہن کر اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھنے لگے تھے ۔ اس کا مطلبیہ ہوا کہ جوں جوں دنیا میں انسان کی جان کو لاحق خطرہ کم سے کم ہوتا چلا گیا ، ہیلمٹ نے نہ صرف ہیٹ اور ٹوپی کی شکل اختیار کرلی بلکہ دوپلی اور گاندھی ٹوپی کا روپ تک اختیار کرلیا ۔ یوں ہیلمٹ نے دوپلی تک کا جو تاریخی سفر طے کیا ہے وہ جہاں قدیم ہیلمٹ کے زوال کی داستان سناتا ہے وہیں ایک اعتبار سے انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی نشاندہی بھی کرتاہے ۔ چنانچہ ابھی حال حال تک انسان گھر سے باہر نکلتا تھا تو ایسے انتظام کے ساتھ نہیں نکلتا تھا جیسے اپنے آخری سفر پر جارہا ہو مگر کیا کریں سو ڈیڑھ سو برس پہلے سائنس دانوں نے اچانک بھاپ اور بجلی کی مدد سے چلنے والی سواریاں ایجاد کرلیں ۔شروع میں تو یہ سواریاں بڑی آرام دہ ثابت ہوئیں جس کی وجہ سے تہذیب و تمدن کی ترقی کی رفتار بھی تیز تر ہوگئی ۔ انسان کو زمانہ قدیم کی بھیانک جنگوں کی ہلاکت خیزی کا اندازہ تھا اس لئے جنگوں میں حصہ لینے کے لئے خود پہن کر جایا کرتا تھا ۔ لیکن اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ تہذیب و تمدن کی ہلاکت خیزی کتنی بھیانک ہوتی ہے ۔رفتہ رفتہ سڑکوں پر اتنی سواریاں نمودار ہوگئیں کہ سواریاں تو ہر طرف دکھائی دینے لگیں لیکن وہ سڑک دکھائی دینی بند ہوگئی جن پران گاڑیوں کو چلایا جاسکے ۔ دور کیوں جایئے خود ہماری مثال لیجئے دہلی میں اگرچہ ہماری اسکوٹر کو ہم سے زیادہ شہرت نصیب ہوئی لیکن آپ سے کیا بتائیں کہ ہمارے پاس ایک موٹر گاڑی بھی تھی ۔ تاہم ہمارے پاس وہ سڑک نہیں تھی جس پر ہم اس گاڑی کوچلاسکیں ۔ ہرسال اپنی جائیداد اور ملکیت وغیرہ کااعلان کرنا پڑتاتھا تو ہم غیر منقولہ جائیداد کے خانہ میں اپنی موٹر گاڑی کو بھی شامل رکھتے تھے ، اس لئے کہ یہ گاڑی بھی مکان کی طرح اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتی تھی ، تاوقتیکہ زلزلہ نہ آجائے ۔ غرض سڑکوں پر سواریوں کی فراوانی نے ایک نئے خطرہ کو جنم دیا جسے ’’ٹریفک‘‘ کہتے ہیں اور ٹریفک اس بندوبست کو کہتے ہیں جس کے تحت گاڑیاں آپس میں ٹکراجائیں اور اس کے نتیجہ میں گاڑیاں تو نہ مریں البتہ انسان مرجائیں ۔ چاہے وہ گاڑی میں بیٹھے ہوں یا سڑک پر چل رہے ہوں ۔ گویا جو حشر انسان کا پہلے میدان جنگ میں ہوا کرتا تھا اب ٹریفک کے زیر عنوان سڑکوں پر ہونے لگا ہے ۔
ہم سے مشکل یہ ہے کہ بات کسی موضوع پر شروع کرتے ہیں اور اگر ایسے میں ٹریفک جام ہو تو موضوع کے اصل راستہ سے بھٹک کر دور دراز کے راستوں پر بھٹکنے لگ جاتے ہیں ۔ ہم آج دراصل ہیلمٹ جیسی حقیر سی چیز کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے لیکن موضوع کے راستہ سے بھٹک کر زمانہ قدیم سے تہذیب و تمدن کی ترقی تک پہنچ گئے حالانکہ ہمیاں صرف اتنا کہنا تھا کہ آج انسان کی زندگی اتنی غیر محفوظ ہوگئی ہے کہ وہ جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہے تو اپنے رشتہ داروں اور احباب سے نہ صرف اپنا بولا چالا معاف کروالیتا ہے بلکہ وہ ساری احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتا ہے جن کی مدد سے وہ اپنی زندگی کو ظالم زمانہ سے بچا کر اپنے گھر تک واپس لے آسکے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کوئی بڑا حکمران سڑک پر نکلتا ہے تو اس کے آگے پائلٹ گاڑیاں ہوتی ہیں لیکن اس کی گاڑی کے پیچھے ایمبولنس گاڑیاں یعنی سالم دواخانہ بھی موجود رہتا ہے ۔ ہم جیسا عام آدمی تو خیر ایسے وسیع انتظام کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے اسے ’’ہیلمٹ‘‘ پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آدمی سڑک پر نکلتا ہے تو اس کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔ پولیس کا فرض ہے کہ وہ عام آدمی کی حفاظت کرے ۔ گویا عام آدمی کو پولیس کی امانت میں دیا جاتا ہے لیکن ہماری ٹریفک پولیس موقع ملتے ہی اس امانت میں خیانت کردیتی ہے ۔
پچھلے دنوں آپ نے اخبار میں پڑھا ہوگا کہ ایک نوجوان کو پولیس نے لاٹھیوں سے اتنا مارا کہ اس کی آنکھ پھوٹ گئی اور اسکا سرزخمی ہوگیا ۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اسکوٹر چلاتے وقت اس کے سر پر ہیلمٹ نہیں تھا ۔ چنانچہ پولیس جیسے ہی ہیلمٹ کی چیکنگ شروع کی تو اس نوجوان نے وہاں سے راہ فرار اختیارکرنے کی کوشش کی تاکہ اس کا چالان نہ ہونے پائے ۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھاکہ ایک خاطی قانون کی خلاف ورزی کرے اور رشوت دیئے بغیر چالان کٹوائے بغیر فرار ہوجائے ۔ لہذا پولیس کے سپاہی نے جی جان سے اس کا تعاقب کیا اور حسب استطاعت و توفیق خاطی کی آنکھ پھوڑ دی تاکہ اسے قرار واقعی سزا دی جاسکے ۔ اس خبر کے بارے میں عوام میں شدید غم و غصہ ہے اور وہ پولیس کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں ، چونکہ اس معاملہ میں ہمارا شمار اولین آواز اٹھانے والوں میں ہے اور ہمیں اندازہ ہے کہ ایسی آواز کو کوئی نہیں سنتا لہذا ہم نے سوچا کہ بلاوجہ کیوں اپنی آواز کو ضائع کریں اور اس کے اسراف کے مرتکب ہوں ۔ ہم نے اس واقعہ سے ایک ہی سبق حاصل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کے زمانہ میں جو آدمی بھی سڑک پر نکلے گا اس کا زخمی ہونا برحق ہے ۔ یا تو وہ ہیلمٹ پہننے کے باوجود ٹریفک حادثہ میں زخمی ہوگا یا اگر اس کے پاس ہیلمٹ نہ ہو تو تب بھی پولیس اسے زخمی کردے گی ۔ چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی اسی کو تو کہتے ہیں ۔ ہیلمٹ کے موضوع پر یہ جو ہم اظہار خیال کررہے ہیں تو یہ بھی ایک لحاظ سے بے وقت کی راگنی ہے کیوں کہ اکیسویں صدی میں ہم اسکوٹر پر بیٹھ کر داخل نہیں ہوئے ۔ یہ ضرور ہے کہ بیسویں صدی کے آخری دو مہینوں تک ہم بڑی پابندی سے اسکوٹر چلایا کرتے تھے اور ہیلمٹ کے خلاف ہمارے پاس جتنا بھی غم و غصہ تھا اس کا اظہار ہم بیسیویں صدی ہی میں کرچکے ہیں ۔ (ایک پرانی تحریر)