دریا میں قطرہ

میرا کالم سید امتیاز الدین
آج جب کہ آپ ہمارا یہ کالم پڑھ رہے ہیں تلنگانہ میں الیکشن کے جلسوں کا وقت ختم ہونے کو ہے ۔ تیس تاریخ کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور ہماری انگلی پرسیاہ نشان لگ جائے گا جو اس بات کی علامت ہوگا کہ ہم اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں ۔ اگرچہ کہ سیاہ دھبہ عام صورتوں میں پسندیدہ نہیں ہے لیکن انتخابات کے تناظر میں یہ نہایت مبارک و مسعود سمجھا جاتا ہے ۔ لوگ خوشی خوشی ٹی وی کے کیمرہ مین کی طرف اپنی انگلی دکھلاتے ہیں اور اپنے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ کچھ لوگ ٹی وی چینلوں کو رائے دہی کے بعد اپنی تصویر ای میل کرتے ہیں۔ ٹی وی کے چینل وقفے وقفے سے ان تصاویر کو ٹی وی اسکرین پر پیش کرتے ہیں اور ان تصاویر پر شاباش کی مہر ثبت کرتے ہیں ۔ بہرحال ہم بھی ووٹ دینے جائیں گے ۔ آپ بھی جایئے ۔ پانچ سال کے لئے ہم سب کو نئی حکومت مبارک ہو ۔

جب ہمارا منتخب کردہ امیدوار کامیاب ہوتا ہے یا ہماری پارٹی جیت درج کرتی ہے تو بڑی مسرت ہوتی ہے ۔سچی بات یہ ہے کہ نہ ہمارے امیدوار کو خبر ہوتی ہے کہ ہم نے اسے ووٹ دیا تھا نہ پارٹی کو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا تعاون اس کے ساتھ رہا ہے ۔ بظاہر ووٹ ایک قطرہ ہے جو دریا میں مل جاتا ہے ۔ لیکن اس ایک قطرہ میں دریا کی سمائی ہے ۔ اگر ووٹر کسی کو جِتا کر خوش ہوتا ہے تو وہ حق بجانب ہے چاہے یہ اس کی خوش فہمی کیوں نہ ہو ۔ خوش فہمی پر ہمیں چند سال پرانی ایک بات یاد آگئی ۔ کم و بیش پندرہ بیس سال پہلے ہم نے کسی صاحب کا ایک مختصر سا بیان ایک اردو اخبار میں دیکھا تھا ۔ ان صاحب نے اپنے بیان میں لکھا تھا کہ وسطی افریقہ کے کسی ملک میں خشک سالی کی وجہ سے قحط پڑا ہوا ہے ۔ لوگ بھوکوں مررہے ہیں اور ہم میں سے ہر دردمند آدمی کو ان کی مدد کرنی چاہئے ۔ اتفاق دیکھئے کہ اس بیان کی اشاعت کے دو تین دن بعد اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ برطانیہ کی وزیراعظم مارگریٹ تھیاچر نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان فاقہ زدہ لوگوں کو حکومت برطانیہ کی جانب سے غذائی اشیاء فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس خبر کا چھپنا ہی تھا کہ اوپر مذکورہ صاحب نے ایک شکریے کا بیان اپنی طرف سے اسی اردو اخبار میں دیا جس میں لکھا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ محترمہ مارگریٹ تھیاچر نے میرے شائع شدہ بیان کو بغور پڑھا اور میرے پرخلوص اور متاثرکن طرز تحریر سے اتنی متاثر ہوئیں کہ فوراًؑ وسطی افریقہ کے مصیبت زدہ لوگوں کے لئے امداد جاری کردی ۔ ہم کو موصوف کی خوش فہمی پر بہت دنوں تک ہنسی آتی رہی کہ انھوں نے یہ فرض کرلیا کہ مارگریٹ تھیاچر نہ صرف اردو جانتی ہیں بلکہ اردو اخبار کا اتنا بغور مطالعہ کرتی ہیں کہ موصوف کا کسی کونے میں چھپا ہوا بیان نہ صرف پڑھتی ہیں بلکہ ان کی اپیل پر عمل بھی کرتی ہیں ۔

خیر یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی لیکن ہم ان تمام امیدواروں کو ابھی سے مبارکباد دینا چاہتے ہیں جو اسمبلی اور پارلیمنٹ کی کارروائی چلائیں گے ۔ ہمارے امیدوار الیکشن سے پہلے بہت بڑے بڑے دعوے اور بہت بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں ۔ کبھی ہم ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ دو لڑکیاں ندی پر پانی بھررہی ہیں ۔ ان میں سے ایک دوسری سے کہتی ہے کہ اب ہمیں ندی پر آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ پانی خود ہمارے گھر آجائے گا ۔ اچھے دن جو آنے والے ہیں ۔ نادان لڑکی یہ نہیں جانتی کہ اگر پنگھٹ نہ ہو تو ہماری اردو ہندی شاعری کی کتنی نظمیں اور گیت بے جان ہوجائیں گے ۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک کے دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار دلایا جائے گا۔ خدا کرے ایسا ہو ۔ لیکن ہم اپنے منتخب نمائندوں سے اتنا عرض کریں گے کہ بڑے بڑے کام تو آپ کریں گے لیکن چھوٹے چھوٹے کام بھی کیا کیجئے ۔
ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں ایک اہم یہ ہے کہ آپ ہفتے میں کم سے کم چار دن اپنے حلقے کے عوام کو نظر آیا کیجئے اور ان سے ملا کیجئے ۔ ہم کو کسی ایم ایل اے یا ایم پی سے ملنے کی ضرورت نہیں پڑتی نہ ہماری کسی سے جان پہچان ہے لیکن ہماری زندگی کے تین ایسے واقعات ہیں جن کا تعلق عوامی نمائندوں سے ہے اور یہ واقعات ہمیں اکثر یاد آتے ہیں ۔

جن دنوں ہم اسکول کے طالب علم تھے تو ملے پلی کے ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے ۔ یہ مکانات محکمہ آرائش بلدہ کے تحت آتے تھے جسے اب ہاوسنگ بورڈ کہا جاتا ہے ۔ خیر تو برسات میں ہمارے گھر کے کمروں کی چھت بہت ٹپکتی تھی ۔ فرش خراب نہ ہو اس لئے کوئی برتن یا آفتابہ رکھ کر پانی جمع کیا جاتا اور وقتاً فوقتاً پانی کو پھینکا جاتا تھا ۔ ہم ان دنوں آٹھویں یا نویں جماعت کے طالب علم تھے ۔ انگریزی میں چھوٹی موٹی درخواست لکھ سکتے تھے ۔ چنانچہ ہم نے آرائش بلدہ کے دفتر کو ایک درخواست لکھی جس میں بتایا کہ ابر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے ۔ اس لئے فوری مرمت کا بندوبست کیا جائے ۔ اس وقت جو صاحب ہمارے ایم ایل اے تھے ان کا نام تھا ایم ایم ہاشم ۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ہاشم صاحب زیادہ لکھتے لکھاتے نہیں ہیں ۔ چنانچہ ہم نے درخواست کے نیچے ایم ایل اے کی طرف سے خود ہی لکھ دیا کہ اس درخواست پر فوری کارروائی کی جائے ۔

یہ درخواست لے کر ہم صبح کے وقت ہاشم صاحب کے گھر گئے ۔ وہ کئی لوگوں میں گھرے ہوئے تھے ۔ ہم کسی نہ کسی طرح ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ انھوں نے ہم سے پوچھا ’کہاں دستخط کروں‘ ۔ ہم نے ان کو دستخط کی جگہ بتائی ۔ موصوف نے دستخط کردئے ۔ اور ان کے گھر کے سامنے میدان میں رکھی ہوئی ایک میز کی طرف اشارہ کیا جس پر ایک مہر اور ایک پیڈ پڑا ہوا تھا ۔ ہم نے ان کے دستخط کے نیچے مہر لگادی اور خوش خوش گھر واپس ہوگئے ۔ راستے میں ہمارے ایک پڑوسی ملے ۔ انھوں نے پوچھا ’کیا بات ہے میاں! بہت خوش دکھائی دے رہے ہو‘ ۔ ہم نے ان کو پوری بات سنائی ۔ وہ ہنسنے لگے ۔ کہنے لگے ’تم ابھی بچے ہو ۔ ایسی درخواستوں سے کچھ نہیں ہوتا ۔ ہاشم کا کیا ہے ۔ ہر کاغذ پر دستخط کردیتا ہے ۔ تھوڑی سمنٹ اور ریتی منگواؤ ۔ کسی مزدور کو پکڑو اور چھت کی مرمت کروالو‘ ۔ ان کی دل شکن باتوں سے ہماری خوشی کافور ہوگئی ۔ پھر بھی ہم متعلقہ دفتر میں گئے اور وہ درخواست دے دی ۔ دو تین دن گزرے ہوں گے ۔ اس دفتر سے ایک سپروائزر اور کچھ کام کرنے والے اس کے ساتھ آئے ۔ انھوں نے ہماری چھت کا معائنہ کیا اور اس سے اگلے دن ساز و سامان کے ساتھ آئے اور ہماری ٹپکتی ہوئی چھت کی مسیحائی کا کام کرکے چلے گئے ۔ برسات آرام سے گزری اور ہاشم کے لئے دل سے دعا نکلی ۔

اسی طرح رحمت علی صاحب بھی یاد آتے ہیں ۔ ہم چودہ پندرہ سال کے رہے ہوں گے ۔ پندرہ اگست اور چھبیس جنوری کو ہمارے گھر کے چوراہے پر پابندی سے جھنڈا لہراتے اور ایک نہایت جوشیلی تقریر کرتے ۔ ہمارے گھر سے کچھ دور ایک اور چوراہا تھا ۔یہاں سے رحمت علی صاحب وہاں جاتے اور اسی عمل کو دہراتے ۔ ہم کو یہ سب محض تماشا لگتا ۔ چند سال گزرے ۔ ہم انجینئرنگ کالج کے طالب علم بن گئے ۔ ہفتے میں دو دن ہمیں صبح ساڑھے سات بجے کالج میں رہنا پڑتا تھا ۔ ہم گھر سے ساڑھے چھ بجے کے قریب نکلتے ۔ دو بسیں بدل کر کالج پہنچنے میں اکثر دیر ہوجاتی تھی ۔ ایک دن ہم تیز تیز قدم ڈالتے ہوئے کالج کے لئے نکلے تو پیچھے سے رحمت علی صاحب آگئے ۔ ان دنوں وہ ایک چھوٹی سی موپیڈ گاڑی پر پھرا کرتے تھے ۔ جیسے عرف عام میں وِکیّ کہا جاتا تھا ۔ ان سے کوئی جان پہچان نہیں تھی ۔

محض ایک طالب علم کی مدد کی خاطر انہوں نے مجھے اپنی گاڑی پر کوٹھی تک چھوڑ دیا ۔ پھر تو یہ ایک معمول سا بن گیا ۔ کئی بار انھوں نے مجھے لفٹ دی اور میں وقت پر کالج پہنچ گیا ۔ اس کے بعد ایک اور مرتبہ انھوں نے میری مدد کی ۔ ہوا یوں کہ شادی کے بعد ہم آصف نگر کے ایک مکان میں رہتے لگے ۔ کچھ سال کے بعد حیدرگوڑہ میں اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوگئے ۔ آصف نگر کے گھر میں جو ٹیلی فون تھا اسے حیدر گوڑہ منتقل کرنا تھا ۔ جب ہم نے منتقلی کی درخواست دی تو پتہ چلا کہ ٹیلی فون ایکسچنج میں کوئی گنجائش نہیں ۔ ہمیں چھ مہینے سے ایک سال تک انتظار کرنا ہوگا ۔ یہ 1980 کی بات ہے ۔ ان دنوں رحمت علی صاحب راجیہ سبھا کے ممبر تھے ۔ ہم نے سوچا کہ اس وقت کے وزیر مواصلات سی ایم اسٹیفن کے نام رحمت علی صاحب کی طرح سے ایک خط لکھا جائے اور اگر رحمت علی اس خط کو بھیجنے پر راضی ہوجائیں تو شاید ہمارا کام بن جائے ۔ ہم نے خود ہی خط کا مسودہ بنالیا اور رحمت علی صاحب کے پاس پہنچ گئے ۔ رحمت علی صاحب نے ہمارا تیار کردہ خط دیکھا ، خاموشی سے اپنے ممبر آپ پارلیمنٹ والے پیڈ کا ایک صفحہ نکالا اور کہنے لگے ’جلدی سے اس خط کو ٹائپ کروا کر لاؤ ۔ مجھے کہیں جانا ہے ۔ میں اس خط پر دستخط کرکے تمہارے حوالے کردوں گا‘ ۔ ہم بھاگم بھاگ خط ٹائپ کروا کر لائے اور رحمت علی صاحب کے دستخط لے کر کچھ اور ضروری کاغذات کے ساتھ وزیر موصوف کو رحمت علی کا خط پوسٹ کردیا ۔ آپ تعجب کریں گے کہ بمشکل ایک ہفتہ میں ہمارے گھر ٹیلی فون لگ گیا ۔

ہمارے عوامی نمائندوں سے ہمیں صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر کسی کاغذ پر آپ کے دستخط یا ٹیلی فون پر سفارش کے دو بول سے کسی کا کام بن جاتا ہے تو کبھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ عوامی نمائندہ کو عوام سے قریب ہونا چاہئے ۔ قومی سطح پر کام کرنا تو ہے ہی ، شخصی سطح پر بھی کام کرنا چاہئے ۔

ایک بار انتخابات ہوجائیں اور آپ منتخب ہوجائیں تو پھر یہ مت سوچئے کہ کس نے ہمیں ووٹ دیا تھا اور کس نے ہمیں ووٹ نہیں دیا ہوگا ۔ جیتنے کے بعد کوئی غیر نہیں سب اپنے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک آخری بات اور عرض کرنی ہے ۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کے بعد اندرا گاندھی نے پریسیڈنٹ کے لئے ڈاکٹر ذاکر حسین کا نام پیش کیا تھا اپوزیشن جماعتوں نے ان کے نام کی مخالفت کی اور اپنا صدارتی امیدوار الگ کھڑا کردیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اندراجی نے وھپ جاری کردیا کہ تمام کانگریسی ارکان ذاکر صاحب کو ووٹ دیں گے ۔ ذاکر صاحب صدر بن گئے ۔ لیکن بمشکل دو سال میں ان کا انتقال ہوگیا ۔ ان کی وفات کے تیسرے یا چوتھے دن دہلی کے لال قلعہ کے دامن میں ایک بہت بڑا تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جس میں روس کے وزیراعظم ، امریکہ اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ ، تمام غیر ملکی سفیر ، وزراء اور ممبرس آف پارلیمنٹ شریک ہوئے ۔ عوام کی کثیر تعداد موجود تھی ۔ ویسے تو بہت لوگوںنے تقریریں کیں لیکن ہم کو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک ممبر آف پارلیمنٹ کی تقریر سب سے اچھی لگی تھی ۔ اس ممبر آف پارلیمنٹ کا نام تھا پرکاش ویر شاستری ۔ ظاہر ہے کہ پرکاش ویر شاستری کے الفاظ تو اب یاد نہیں لیکن اس کے خیالات کو اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں ۔ پرکاش ویر شاستری نے کہا تھا ’’آج ہم ذاکر صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تاریخی لال قلعہ کے دامن میں کھڑے ہیں ۔ اس قلعے کا آخری مکین تھا بہادر شاہ ظفر ۔ ظفر بادشاہ تو تھا ہی ، لیکن وہ بہت اچھا شاعر بھی تھا ۔ اس کا ایک شعر ہے ۔
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحب فہم و ذکاء
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
ذاکر صاحب ۔ اس شعر کی مجسم تصویر تھے ۔ سب جانتے ہیں کہ ہم نے ان کے خلاف ووٹ دیا تھا لیکن جب وہ پریسیڈنٹ منتخب ہوگئے تو سب کو ایک نظر سے دیکھا ۔ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملے ۔ ہماری باتیںبھی پوری توجہ سے سنیں اور اپنے مخالفین کے بھی دل جیت لئے ۔ اسی لئے آج ہم بھی ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں‘‘ ۔ جو پارٹی بھی کامیاب ہوتی ہے اس سے ہماری توقع ہے کہ وہ تحمل اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کرے ۔ ہمارے اس عظیم ملک میں کوئی غیر نہیں سب اپنے ہیں ۔