درگاہ حضرت حکیم شاہ باباؒ اور درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی وقف اراضیات پر ریکارڈس کی طلبی

اوقافی امور پر ایوان کی کمیٹی کا اجلاس ، گزٹ نوٹیفیکیشن پر ریونیو کے اعتراضات مسترد
حیدرآباد 5 مارچ (سیاست نیوز) اوقافی اُمور سے متعلق ایوان کی کمیٹی نے درگاہ حضرت حکیم شاہ باباؒ اور درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کی اوقافی اراضیات کے تحفظ کے سلسلہ میں وقف بورڈ اور ریونیو عہدیداروں کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔ کمیٹی کا اجلاس آج صدرنشین باجی ریڈی گووردھن کی صدارت میں منعقد ہوا۔ کمیٹی کے ارکان محمد فاروق حسین، وینکٹیشور ریڈی، بی ویریشم، اکبر اویسی، امین الحسن جعفری کے علاوہ سکریٹری اقلیتی بہبود ایم دانا کشور، کلکٹر حیدرآباد یوگیتا رانا، چیف ایگزیکٹیو آفیسر وقف بورڈ منان فاروقی، ڈائرکٹر اسٹیٹ آرکائیوز ڈاکٹر زرینہ پروین کے علاوہ ریونیو اور دیگر محکمہ جات کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ کمیٹی نے درگاہ حکیم شاہ باباؒ کی اراضی کے سلسلہ میں وقف بورڈ کے منتخب پر ریونیو عہدیداروں کے اعتراضات کو مسترد کردیا۔ کمیٹی نے کہاکہ جس وقت وقف بورڈ نے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، قواعد کے اعتبار سے اندرون ایک سال چیالنج کیا جاسکتا ہے لیکن مدت گزرنے کے بعد ریونیو عہدیداروں نے عدالت سے حکم التواء حاصل کیا۔ کمیٹی کے ارکان نے تفصیلات حاصل کرنے کے لئے کلکٹر حیدرآباد کو ہدایت دی کہ وہ اپنے تمام دستاویزات آئندہ اجلاس میں پیش کریں جس میں اس بات کی وضاحت ہو کہ وقف بورڈ کا منتخب کس طرح قابل قبول نہیں ہے۔ کمیٹی نے ریونیو عہدیداروں کے رویہ پر ناراضگی ظاہر کی اور کہاکہ جب مسلمانوں کی جائیدادوں کا مسئلہ آتا ہے تو عہدیدار زیادہ ہی اوور ایکشن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔ ارکان نے کلکٹر حیدرآباد سے سوال کیاکہ انڈومنٹ کی اراضیات کے معاملہ میں کیا اسی طرح کی جانچ کی جاتی ہے؟ ارکان نے کہاکہ اوقافی اراضیات کے تحفظ کے سلسلہ میں چیف منسٹر نے خصوصی دلچسپی دکھائی ہے لہذا عہدیداروں کو وقف ریکارڈ میں نقائص پر توجہ دینے کے بجائے مذکورہ اراضی پر اپنی دعویداری سے دستبردار ہونا چاہئے۔ وقف بورڈ میں درگاہ حضرت حکیم شاہ باباؒ سے متعلق تمام مربوط دستاویزات موجود ہیں۔ اس سلسلہ میں ڈائرکٹر آرکائیوز ڈاکٹر زرینہ پروین سے تعاون کی خواہش کی گئی۔ اُنھوں نے کہاکہ آرکائیوز میں صرف وہی ریکارڈ محفوظ رہتا ہے جو حوالے کیا جائے۔ اسٹیٹ آرکائیوز کسی محکمہ سے ریکارڈ طلب کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اگر اُنھیں کچھ وقت دیا جائے اور وقف بورڈ کے بعض ملازمین کی خدمات فراہم کی جائیں تو وہ اُمور مذہبی اور اسٹیٹ آرکائیوز میں ریکارڈ تلاش کریں گی۔ اراضی کے سلسلہ میں سروے نمبرات پر بھی ریونیو حکام نے اعتراض جتایا۔ وقف بورڈ جو سروے نمبر پیش کررہا ہے، ریونیو حکام ایک نیا سروے نمبر ظاہر کررہے ہیں۔ ایوان کی کمیٹی نے کہاکہ درگاہ حکیم شاہ باباؒ کی قیمتی اراضی کا بہرصورت تحفظ کیا جانا چاہئے اور وقف بورڈ کو اپنا ریکارڈ درست کرنا ہوگا۔ کلکٹر حیدرآباد نے بتایا کہ اس اراضی کے بارے میں پہانی میں درج ہے لہذا وقف بورڈ کا منتخب قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ ارکان نے سی ای او وقف بورڈ سے اراضی کے تحفظ کے اقدامات کے بارے میں سوال کیا۔ درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کی اراضی کے سلسلہ میں کمیٹی نے سپریم کورٹ میں مقدمہ زیردوران ہونے کے باوجود تعمیری سرگرمیاں جاری رکھنے پر اعتراض جتایا۔ کمیٹی نے اس سلسلہ میں رنگاریڈی کلکٹریٹ کے عہدیداروں سے سوال کیا۔ اُنھوں نے وقف بورڈ کے عہدیداروں کی لاپرواہی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کمیٹی نے کہاکہ درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کے تحت جو اراضی غیر متنازعہ اور کھلی موجود ہے اُسے فوری وقف بورڈ کے حوالے کیا جانا چاہئے۔ ارکان نے کھلی اراضی کے تحفظ کے سلسلہ میں وقف بورڈ کو اقدامات کرنے کی ہدایت دی۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ منی کونڈہ جاگیر کی غیر تعمیر شدہ خالی اراضی کو وقف بورڈ کے حوالے کیا جائے گا۔ ایوان کی کمیٹی نے نبی خانہ مولوی اکبر اور مکہ مدینہ علاء الدین وقف کی ملگیات کے سلسلہ میں بے قاعدگیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بعض افراد کے نام پر بے نامی انداز میں ملگیاں الاٹ کردی گئی ہیں۔ گلاب سنگھ نامی ایک شخص کے نام پر 30 ملگیاں ہیں۔ اس کے علاوہ اسی شخص کے تحت بے نامی اور بھی ملگیاں موجود ہیں۔ کمیٹی نے وقف بورڈ کے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ ملگی میں کاروبار کرنے والے شخص سے معاہدہ کرتے ہوئے اِسے کرایہ دار بنایا جائے۔ بے نامی الاٹمنٹ کا سلسلہ فوری بند ہونا چاہئے۔ جو کاروبار کررہا ہے اُسی کو مارکٹ ریٹ کے اعتبار سے کرایہ دار بنانا چاہئے۔ وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ کے دعوے پر بھی کمیٹی نے سوال اُٹھائے۔ چیف ایگزیکٹیو آفیسر منان فاروقی سے وضاحت طلب کی گئی کہ ایک سال میں کن زمرہ جات میں آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ کمیٹی نے آمدنی میں اضافہ کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت دی۔ ایوان کی کمیٹی کا آج آخری اجلاس تھا اور 31 مارچ تک کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کردے گی۔ کمیٹی کی میعاد 31 مارچ کو ختم ہورہی ہے۔ اِس درمیان میں ایک اجلاس منعقد ہوگا جس میں عہدیداروں کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔