درگاہ حضرت جہانگیر پیراںؒ کے غلہ کے ہراج پر تنازعہ

چیف منسٹر کا دفتر، وزراء اوررکن اسمبلی بھی سرگرم
حیدرآباد۔/30جنوری، ( سیاست نیوز) وقف بورڈ کے اُمور میں سرکاری اور سیاسی مداخلت کے سبب عہدیداروں کو آزادانہ اور غیر جانبدار طور پر کارروائی میں سخت دشواریاں درپیش ہیں۔ وقف بورڈ جہاں کروڑہا روپئے مالیتی اوقافی ادارے موجود ہیں خاص طور پر درگاہوں کے مسائل سے نمٹنے میں اعلیٰ عہدیداروں کو سیاسی مداخلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاسی اور سرکاری مداخلت کی تازہ مثال درگاہ حضرت جہانگیر پیراںؒ کے غلہ اور دیگر اشیاء کے ہراج سے متعلق ہے۔ مقامی بعض مجاوروں اور دیگر سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے افراد کی جانب سے غلہ اور دیگر اشیاء کے ہراج کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی حتیٰ کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ کئی ماہ تک وقف بورڈ کو ہراج سے روکا گیا اور ایک مرحلہ پر متعلقہ رکن اسمبلی نے وقف بورڈ کے دفتر پہنچ کر جبراً ہراج کو روک دیا۔ اس معاملہ میں ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر نے بھی نہ صرف مداخلت کی بلکہ چیف منسٹر کے دفتر کو اس تنازعہ میں شامل کردیا گیا۔ وقف بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں کو چیف منسٹر کے دفتر اور متعلقہ وزیر سے زبردست دباؤ کا سامنا تھا کہکسی بھی صورت میں ہراج کو روکا جائے تاکہ بعض مجاوروں اور سیاسی افراد کا فائدہ ہوسکے۔ وقف بورڈ نے اس معاملہ میں مکمل شفافیت سے کام لیتے ہوئے کسی بھی دباؤ کو قبول کرنے سے انکارکردیا۔ بورڈ نے عدالت میں بھی اپنے موقف کی مدلل پیروی کی جس پر ہائی کورٹ نے وقف بورڈ کے موقف کی تائید کی۔ سیاسی اور سرکاری دباؤ کے تحت غلہ اور دیگر اشیاء کے ہراج کو تقریباً چار مرتبہ ملتوی کرنا پڑا اور مسلسل پانچ ماہ کی جدوجہد کے بعد آخر کار وقف بورڈ کو کامیابی ملی اور ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق مکمل شفافیت کے ساتھ غلہ اور دیگر اشیاء کا ہراج مکمل کرلیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مقامی افراد اور بعض مجاور جنہیں سالانہ کافی آمدنی حاصل ہورہی تھی وہ ہراج کی مخالفت کررہے تھے۔ وقف بورڈ کے عہدیداروں نے جب کسی بھی دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا اس وقت ہراج میں حصہ لینے والوں کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ چونکہ سالانہ ہراج میں لاکھوں روپئے کی معاملت ہوتی ہے لہذا کوئی بھی ایک سال کے ہراج کو قبول کرنے تیار نہیں تھا۔ آخر کار وقف بورڈ نے تین ماہ کیلئے غلہ اور دیگر 4اشیاء کے ہراج کا اہتمام کیا جس سے بورڈ کو تقریباً 40لاکھ روپئے کی آمدنی ہوگی۔ بتایا جاتا ہے کہ ہراج کو روکنے کیلئے ہائی کورٹ سے ابتداء میں حکم التواء حاصل کیا گیا تاہم وقف بورڈ کے موقف کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے بورڈ اور متولیوں کے درمیان بعض اشیاء کو تقسیم کردیا۔ اسکے باوجود وقف بورڈ کو ہراج سے روکنے کوشش کی گئی۔ مقامی رکن اسمبلی نے حامیوں کی کثیر تعداد کے ساتھ ہراج کے دن پہنچ کر وقف بورڈ کے دفتر میں ہنگامہ کیا ۔ اس سلسلہ میں جب پولیس میں شکایت درج کرائی گئی تو کئی ریاستی وزرا نے مداخلت کی اور شکایت واپس لینے دباؤ بنایا۔ واضح رہے کہ درگاہ حضرت جہانگیر پیراںؒ سے سالانہ لاکھوں روپئے کی آمدنی ہوتی ہے۔ غلہ کے علاوہ دیگر اشیاء جو مجاوروں کے کنٹرول میں ہیں اس سے بھی خاصی آمدنی ہے۔ چونکہ مجاوروں اور مقامی افراد کو بغیر ہراج کے آمدنی کے حصول کی عادت ہوچکی ہے لہذا وہ درگاہ سے متعلق دیگر اشیاء جیسے چرم، ڈھٹی، لڈو وغیرہ کے ہراج کی مخالفت کررہے تھے۔ ہراج کی تاریخ سے عین قبل چیف منسٹر کے دفتر نے بھی ہراج کو منسوخ کرنے کی صلاح دی تاکہ مقامی افراد کو فائدہ ہوسکے۔ تاہم وقف بورڈ نے منشائے وقف اور وقف قواعد کی پاسداری کرتے ہوئے ہراج کو یقینی بنایا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وقف بورڈ کے معاملات میں روزانہ کس طرح سیاسی اور سرکاری سطح پر مداخلت کی جاتی ہے۔اس قدر سیاسی دباؤ کے باوجود وقف بورڈ کی جانب سے شفافیت کے ساتھ ہراج کا عمل مکمل کرنے کی عوام کی جانب سے ستائش کی جارہی ہے۔