میرا کالم مجتبیٰ حسین
آج کے پرآشوب دور میں جب کہ انسان کے سوائے ہر چیز کے دام بڑھتے چلے جارہے ہیں ہم اس قابل بالکل نہیں ہیں کہ خود اپنی پسند سے کوئی چیز خرید سکیں ۔ یوں بھی خرید و فروخت یا شاپنگ سے ہمیں ابتداء ہی سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ رہی کہ ہم سدا کے فراخ دل اور ہمیشہ ہی کے تنگ دست رہے ۔ فراخدلی کا یہ عالم رہا کہ نوجوانوں کے دنوں میں اپنی ہتھیلی میں خود اپنے دل کو سجائے آوازیں لگاتے پھرتے تھے ’’بھئی لے لو ہمارا دل لے لو ۔ واجبی دام۔ کوڑیوں کے مول ۔ جو لے اس کا بھلا اور جو نہ لے اس کا بھی بھلا‘‘ ۔ کسی نے پلٹ کر نہ پوچھا ’’میاں ذرا دکھانا تو اپنا دل آخر یہ ہے کیسا؟‘‘ ۔
دوسری طرف جب بھی ہم نے کسی کے دل کو اپنے قابو میں کرنا چاہا تو ہماری تنگ دستی نے خود ہمارا ہاتھ یہ کہہ کر پکڑ لیا کہ میاں چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے ۔ اسی لئے ہم دنیا کے بازار سے ہمیشہ سے گزرتے تو رہے ہیں لیکن کبھی خریدار نہیں بن سکے ۔ بعض مردم شناس احباب کا خیال ہے کہ ہم بازار میں کچھ خریدنے کے ارادے سے نہیں جاتے بلکہ خود کو بیچنے یا بک جانے کی آس میں جاتے ہیں ۔ بشرطیکہ کوئی غافل خریدار مل جائے ۔ ملکوں ملکوں گھومنے کے باوجود ہم نے کبھی کوئی چیز یا اشیائے تعیش وغیرہ بالکل نہیں خریدیں ۔ ہانگ کانگ کے ڈپارٹمنٹل اسٹورس میں بھی صرف تفریحاً یہ دیکھنے کے لئے چلے گئے کہ دیکھیں دنیا نے کیا کیا غیر ضروری اور فالتو چیزیں بنا رکھی ہیں ۔ حالانکہ ہانگ کانگ کے ڈپارٹمنٹل اسٹورس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں سے کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا ۔ دروغ برگردن راوی ایک صاحب ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور میں چیزیں خریدنے کے ارادے سے گئے ۔ کوئی چیز پسند نہ آئی ۔ مایوس ہو کر واپس جانے لگے تو اتفاقاً اسٹور کی سیلز گرل پر نظر پڑگئی اور وہ انہیں پسند آگئی ۔ نتیجہ میں موصوف نے ڈپارٹمنٹل اسٹور کے چکر لگانے شروع کردیئے یہاں تک کہ سیلز گرل سے بالآخر ان کی شادی ہوگئی اور یوں انہوں نے اپنے دولت خانے کو ہی ڈپارٹمنٹل اسٹور بنالیا ۔ چاہے کچھ بھی ہو شاپنگ کے معاملہ میں ہمارا شخصی تجربہ کبھی پان ، بیڑی ، سگریٹ ، تیل اور کنگھی سے آگے نہ بڑھ سکا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چیزوں کی فروخت کے معاملہ میں اچھی شکل و صورت کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔ یادش بخیر نوجوانی کے دنوں میں ایک معصوم غریب لڑکی ہمارے محلہ میں ’’منجل‘‘ بیچنے آیا کرتی تھی ۔ اس کی آواز اور خد و خال میں کچھ ایسی طرحداری ہوا کرتی تھی کہ ہم اس سے ’’منجل‘‘ ضرور ہی خریدتے تھے ۔ ایک لحاظ سے وہ مخدوم کی ’’بانکی تلنگن‘‘ سے بڑی حد تک مشابہ تھی جو اجنبی کو دیکھ کر اپنا گانا بند کردیتی تھی اور نتیجہ میں مخدوم کو ضرورت شعری کے تحت ایک لاجواب نظم لکھنی پڑی تھی ۔ یوں سمجھئے کہ منجل کی خریدی کے معاملہ میں یہ معصوم لڑکی ہمارے حق میں منجل کی برانڈ ایمبیسیڈر کا درجہ حاصل کرگئی تھی۔
ایک زمانہ تک چیزیں خود اپنی خوبیوں ، پائیداری اور افادیت کی بنا پر خریدی جاتی تھیں ۔ مگر جب زمانہ سفارشوں کا آگیا اور فن تشہیر نے ترقی کی اور کرتی ہی چلی جارہی ہے تو اچھی شکل و صورت والی حسین لڑکیوں اور وجیہ و شکیل خوبرو نوجوانوں کی مدد سے چیزوں کی فروخت کی گنجائش نکل آئی ہے ۔ اب فلمی اداکاروں ، ہیروئنوں ، کرکٹ اور ٹینس کے کھیل سے وابستہ مشہور و معروف ہستیوں کی سفارش پر چیزیں بکنے لگی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان ہستیوں کو اب اپنے پیشے سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی جتنی کہ ٹیلی ویژن ، اخبارات اور ہورڈنگس پر تصویروں میں ان کے مسکرانے اور اٹھلانے اور ادانتیں وغیرہ دکھانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ آپ کون سا صابن استعمال کریں گے اس کا مشورہ آپ کو ایشوریہ رائے سے مل جائے گا ۔ ٹوتھ برش کون سا استعمال کریں گے اس کے لئے مادھوری ڈکشٹ سے لے کر رانی مکرجی اور شلپا شیٹی مشورہ دینے کے لئے موجود ہیں ۔ سمینٹ ، پریشر کوکر ، مکھن ، سیل فون ، پنکھے ، ٹیلی ویژن سیٹ ،جوتے ، غرض کون سی ایسی چیز ہے جسے آپ خریدنے کے لئے نکلیں اور آپ کو سچن ٹنڈولکر ، عرفان پٹھان ، کٹرینہ کیف ، دھرمیندر ، ہیما مالنی اور بیسیوں ایسے ہی فنکار اپنے زرین مشوروں کے ساتھ آپ کو راستہ میں نہ مل جائیں ۔ اس خصوص میں مشورہ دینے والوں کی اتنی بہتات ہوتی ہے کہ ہم بالآخر کوئی بھی چیز نہیں خریدتے کیونکہ ہمارا مسلک صلح کل کا ہے اور ہم اپنے کسی بھی محبوب فنکار کا دل نہیں توڑنا چاہتے ۔ کسی ٹوتھ پیسٹ کے معاملہ میں ایشوریہ رائے کے مشورہ پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو اچانک مادھوری ڈکشٹ کی مسکراہٹ یاد آجاتی ہے ۔ رانی مکرجی کسی شئے کی سفارش کرتی ہیں تو شلپا شیٹی ہمارا دامن پکڑ لیتی ہے ۔ ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر والا معاملہ پیش آجاتا ہے ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ہمارے ایک دل پھینک دوست ایسے بھی ہیں جو ہرخوش شکل دوشیزہ کے مشورے کو دل و جان سے قبول کرلیتے ہیں ۔ ہمیں یاد ہے کہ پچاس برس پہلے انہوں نے آنجہانی گیتا بالی کے مشورے پر اپنے نہانے کے لئے ایک صابن کا انتخاب کیا تھا جس میں وہ بعد میں نمی ، مینا کماری ، نوتن اور نہ جانے کن کن پری چہروں کے کہنے کے مطابق تبدیلیاں کرتے رہے اور آج ان کی جلد کا یہ عالم ہے کہ جب تک خود سے اپنا تعارف نہ کرائیں پہچانے نہیں جاتے ۔ ’’دل پھینک‘‘ لوگ تو ہم نے بہت سے دیکھے ہیں لیکن ایسا ’’جلد پھینک‘‘ آدمی ہم نے کہیں نہیں دیکھا ۔ اصل میں ہمارا معاشرہ اب صارفین کا معاشرہ بن گیا ہے ۔ کنزیومرازم کا وہ بول بالا ہے کہ چیزیں بنانے والے اپنی چیزوں کو بیچنے کے لئے حسینان عالم کے مقابلے بڑے زور و شور کے ساتھ منعقد کرتے ہیں اور جب یہ حسینائیں منتخب ہوجاتی ہیں تو اپنی چیزوں کو ان دوشیزاؤں کے حسن کی آڑ میں بیچنا شروع کردیتے ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ فیشن ڈیزائنرس اپنے ملبوسات کی تشہیر کے لئے بڑے اہتمام سے فیشن شو آراستہ کرتے ہیں جن میں حسیناؤں کو ایسے لباس میں دکھایا جاتا ہے جس میں لباس کم سے کم اور حسیناؤں کا حسن زیادہ سے زیادہ نمایاں ہوسکے ۔ عنوان ملبوسات کا ہوتا ہے لیکن متن میں عریانی کے سوائے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ والا سلسلہ ہے ۔ صارفین کے معاشرے کے تقاضے اور اس کی باریکیاں اور نزاکتیں کم از کم ہماری تو سمجھ میں نہیں آتیں ۔ یقین مانئے اچھے چہروں کو دیکھتے دیکھتے اب ہماری آنکھیں پتھرانے لگی ہیں ۔ مانا کہ چیزیں بیچنے والی دوشیزائیں یقیناً خوش جمال ہوتی ہیں لیکن جو چیزیں وہ بیچتی ہیں وہ قطعاً خوش خصال نہیں ہوتیں ۔
بہرحال کنزیومرازم کے اس غلغلے اور حسن کی بہتات میں ہمیں ایک خوش آئند پہلو بھی نظر آیا ہے اور وہ یہ کہ پچھلے دنوں اخباروں میں الوال کے متوطن اور 84 سال کے ایک جوان رعنا کرشنا مورتی راؤ کی تصویر ان کے ایک بیان کے ساتھ شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ وہ بچپن ہی سے ’’منجن فاروقی‘‘ استعمال کرتے آئے ہیں اور یہ کہ آج بھی ان کے پورے بتیس دانت نہ صرف موجود ہیں بلکہ پوری طرح محفوظ بھی ہیں ۔ اس اعلان نے ہمیں اپنے ماضی کی کئی یادیں تازہ کردیں ۔ہمارے اس بیان کو اگر آپ کنزیومرازم کے پس منظر میں نہ دیکھیں اور ہمیں بھی کوئی مشہور و معروف ہستی تصور نہ کریں (جنہیں ایسے بیان دینے کا معقول معاوضہ دیا جاتا ہے) تو عرض کریں کہ جب سے ہم نے آنکھیں کھولی ہیں تب سے حیدرآباد کے کارخانہ زندہ طلسمات میں بننے والی دو چیزوں یعنی خود زندہ طلسمات اور منجن فاروقی کو بصد شوق استعمال کرتے آئے ہیں ۔ اگرچہ بچپن کی حدوں کو پھلانگنے کے بعد بوجوہ منجن فاروقی کے استعمال کو جاری نہ رکھ سکے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے گھر کی دیوار پر کسی خوش خط پینٹر نے جلی حروف میں ’’منجن فاروقی‘‘ کا اشتہار لکھ دیا تھا ۔ بھلے ہی ایک عمر کے بعد ہم نے منجن فاروقی کا استعمال تو ترک کردیا تھا لیکن اجنبیوں کو اپنے گھر کا پتہ سمجھانے کے لئے منجن فاروقی کے اس اشتہار کو استعمال ضرور کرتے تھے ۔
البتہ زندہ طلسمات کو ہم نے کبھی ترک نہیں کیا ۔ ہماری والدہ محترمہ کی خوبی یہ تھی کہ ہماری ہر بیماری کا علاج اس دوا میں ڈھونڈ لیتی تھیں ۔ چھینک آئی تو اسے پلادیا ، سر میں درد ہو تو اسے ماتھے پر لگادیا ، پیٹ میں گڑبڑ ہوئی تو اس کے چند قطرے ہمارے پیٹ میں پہنچا دئے ، زخمی ہوئے تو زندہ طلسمات کو زخم پر لگادیا ۔ رفتہ رفتہ یہ دوا ہمارے لئے ممتا کی نشانی اور علامت بن گئی ۔ جب ایک دوا ماں کی محبت اور شفقت بن جائے تو اس کے مجرب ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے ۔ اگرچہ ہماری والدہ کو گزرے ہوئے برسوں بیت گئے ہیں لیکن ان کی شفقت آج بھی ہمارے ساتھ شیشی میں بند رہتی ہے۔ حد ہوگئی کہ دو اہم ملازمتوں کے انٹرویو دینے کے لئے جانے لگے تو ہم نے نیک شگون کے طور پر زندہ طلسمات کے چار قطرے پی لئے اور آپ یقین کریں کہ دونوں جگہ ہمارا انتخاب ہوگیا ۔ اب آپ اسے دوا کی تاثیر سمجھیں یا ہماری ماں کی دعا ۔ نتیجہ میں یہ دوا ہماری زندگی سے کچھ اس طرح جڑ گئی کہ ہماری ابتدائی تحریروں میں جا بجا ہم نے اس دوا کو محاورے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ۔ ہمیں احساس ہی نہ ہوا کہ ہم انجانے میں ایک دوا کی تشہیر کررہے ہیں ۔ جب ہماری تحریریں ہندی میں چھپنے لگیں تو ہندی رسالوں کے مدیروں نے آگاہ کیا کہ ہم ایک دوا کی تشہیر کررہے ہیں جو مناسب نہیں ہے ۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ ہم دوا کی نہیں بلکہ اپنی ماں کی ممتا کی تشہیر کررہے ہیں ، مگر وہ نہ مانے اور دوا کو نکال دیا ۔ الوال کے کرشنا مورتی راؤ کی تصویر کو دیکھنے اور ان کے بیان کو پڑھنے کے بعد اب ہمیں یقین ہوچلا ہے کہ کنزیومرازم کے اس دور میں ہم جیسے ازکار رفتہ بوڑھوں کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ ہے کوئی نیک نفس صنعت کار جو سچن ٹنڈولکر ، شاہ رخ خان اور عامر خان کے ساتھ ساتھ ہمارا مکھڑا بھی اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے استعمال کرسکے ۔ آخر میں ایک دلچسپ تبصرہ بھی سن لیں ۔ ہم نے جب اپنے دوست اور منفرد دکنی شاعر حمایت اللہ کو 84 سالہ کرشنا مورتی راؤ کے پورے بتیس دانتوں کے صحیح و سالم رہنے کی اطلاع دی توبے ساختہ بولے …
گو ہاتھ کو جنبش نہیں دانتوں میں تو دم ہے