دامن پہ جن کے داغ ہیں، دھبے ہیں خون کے

رشیدالدین

جموں میں امیت شاہ کا ہندو کارڈ
داغدار وزراء … سپریم کورٹ کی اخلاقی نصیحت

داغدار قائدین اور داغدار سیاسی نظام جیسی اصطلاحات یقیناً جمہوری سیاسی نظام پر ایک بدنما داغ ہیں۔ وہ زمانہ نہیں رہا جب سیاست میں کسی داغدار شخص کے داخلہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ داغدار افراد سیاسی نظام کا جز لاینفک بن چکے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیاسی جماعتوں میں بے داغ افراد کے مقابلے داغدار قائدین کی اہمیت میں اضافہ ہوچکا ہے اور مجرمانہ سرگرمیوں کا ریکارڈ رکھنے والے اب تو دستوری عہدوں پر فائز کئے جانے لگے ہیں۔ آزاد ہندوستان میں دستور کے معماروں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ان کے بعد داغدار افراد دستور و قانون کی دھجیاں اڑادیں گے ۔ وہ قائدین آج کہاں ہیں جو کسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونا تو کجا صرف ریل حادثے پر اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دے دیئے تھے۔ آج تو صورتحال یہ ہے کہ جو جتنا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو، اس کی اس قدر پذیرائی کی جاتی ہے۔

سیاست کو مجرمانہ سرگرمیوں اور مجرمین سے پاک کرنے کے مسئلہ پر ہر پارٹی بڑھ چڑھ کر دعوے تو کرتی ہے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو تمام بغلیں جھانکنے لگتے ہیں ۔ انتخابات میں مجرمین کے حصہ لینے کو روکنے کیلئے الیکشن کمیشن نے بھی قدم اٹھائے لیکن حکومتوں کے عدم تعاون کے سبب اصلاحات برائے نام ہوکر رہ گئے۔ ہر الیکشن سے قبل صاف ستھرے کردار کے حامل افراد کو ٹکٹوں کی تقسیم میں ترجیح کے اعلانات کئے جاتے ہیں لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد سوال کریں تو سیاسی جماعتوں کا جواب ہوتا ہے کہ امیدواروں میں کلین امیج سے زیادہ جیتنے کی صلاحیت ضروری ہے۔ ریاستوں سے لیکر قومی سطح کی سیاست اور حکومتوں کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ مجرمانہ ریکارڈ کے حامل افراد کا بول بالا ہے۔حکومت میں شمولیت کے وقت یہ کہہ کر مجرمانہ ریکارڈ کے حامل افراد کی تائید کی جاتی ہے کہ ان پر الزامات سیاسی مقصد براری پر مبنی ہیں اور عدالت میں جرم ثابت نہیں ہوا۔ الغرض ’’مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق ملک کا سیاسی سسٹم داغدار ہوتا گیا اور عوام بے بسی کے ساتھ یہ نظارہ کرتے رہے۔ آخر کار سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور اس نے داغدار وزراء کو حکومت میں شامل نہ کرنے کی نصیحت کی۔ داغدار وزرا کی برطرفی کی اپیل کے ساتھ داخل کی گئی

درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پانچ رکنی بنچ نے پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت سے انکار کرتے ہوئے داغدار وزراء کے معاملہ کو وزیراعظم کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ عدالت نے وزیراعظم اور ریاستوں کے چیف منسٹرس کو مشورہ دیا کہ مجرمانہ ریکارڈ کے حامل افراد کو حکومت میں شامل نہ کریں۔ اگرچہ یہ سپریم کورٹ کی اخلاقی نصیحت ہے لیکن اس کے پس پردہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کرب ظاہر ہوتا ہے۔ جہاں تک کریمنالائیزیشن آف پولیٹکس کا سوال ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت دودھ کی دُھلی نہیں بلکہ تمام برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ریاستی حکومتیں ہوں کہ مرکز جس پارٹی کی حکومت رہی اس میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کو شامل کیا گیا۔ مرکز کی سابق یو پی اے حکومت میں بھی داغدار وزراء موجود تھے اور آج کی بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت بھی ایسے افراد سے خالی نہیں۔ بظاہر صاف و شفاف اور سفید پوش ان قائدین کے دامن پر لگے داغ بھلے ہی پارٹیوں کو دکھائی نہ دیں لیکن عوام کی نظروں سے بچ نہیں سکتے۔ لباس کی چکاچوند سفیدی بھی ان داغوں کو چھپا نہیں پائے گی۔ داغدار قائدین سے سماج اور سیاسی نظام کو آخر کب نجات ملے گی؟ سپریم کورٹ کا یہ مشورہ نریندر مودی کیلئے کسی امتحان سے کم نہیں جو انتخابات سے قبل سیاست کو مجرمین سے پاک کرنے ملک میں گھوم گھوم کر اخلاقیات کا درس دے رہے تھے۔ یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے خطاب پھر اس کے بعد مختلف ریاستوں کے عوامی جلسوں میں مودی نے اسی درس کا اعادہ کیا اور خود کو راجہ رام موہن رائے کی طرح سماجی مصلح کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ مجرمانہ ریکارڈ کے معاملہ میں نریندر مودی حکومت نے تمام سابق حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جس حکومت کے سربراہ کا دامن بے گناہوں کے خون سے داغدار ہو تو ان کی حکومت میں داغدار افراد کی موجودگی پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

وزیراعظم ہی نہیں برسر اقتدار پارٹی کے قومی صدر کا دامن بھی صاف نہیں۔ ان پر گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات اور فرضی انکاؤنٹرس کے سلسلہ میں الزامات ہیں۔ نریندر مودی اور امیت شاہ سنگین الزامات کے پس منظر کے ساتھ دہلی پہنچے اور بی جے پی کو عملاً یرغمال بنالیا چونکہ انہیں آر ایس ایس کی سرپرستی حاصل ہے لہذا اہم عہدوں تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں تھی۔ پارٹی کے جو سینئر و بزرگ قائدین ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے، انہیں ’’مارگ درشک‘‘ کے نام پر بی جے پی کے ’’اولڈ ایج ہوم‘‘ یعنی بیت المعمرین بھیج دیا گیا ۔ مودی کی 44 رکنی کابینہ میں 12 وزراء مختلف دفعات کے تحت مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ اس طرح 30 فیصد وزارت مجرمانہ ریکارڈ رکھتی ہے ، ان میں سے 8 وزراء پر سنگین الزامات ہیں۔ اوما بھارتی سب سے زیادہ 13 مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں جن میں 7 سنگین نوعیت کے ہیں۔ دیگر داغدار وزراء میں نتن گڈکری (4 ) ، اوپیندر کشواہا (4) ، دادا راؤ دانوے (4) ، ڈاکٹر ہرش وردھن (2) ، جنرل وی کے سنگھ (2) ، رام ولاس پاسوان (2) ، دھرمیندر پردھان (2) مقدمات کے علاوہ مینکا گاندھی ، نریندر سنگھ تومر ، جول اورم اور مظفر نگر فسادات کے ملزم سنجیو کمار بلیان شامل ہیں۔ کیا نریندر مودی سپریم کورٹ کی نصیحت کو قبول کرتے ہوئے داغدار وزراء کو کابینہ سے علحدہ کریں گے ؟

اگر ایسا کرنا پڑے تو پہلے وزیراعظم اور پارٹی صدر کو اپنے عہدے چھوڑنے پڑیں گے۔ سپریم کورٹ کی اخلاقی نصیحت کا مودی حکومت پر کچھ الٹا ہی اثر ہوا ہے۔ بابری مسجد شہادت کے ذمہ دار کلیان سنگھ کو گورنر راجستھان کا دستوری عہدہ تحفہ میں دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ کی نصیحت کے دوسرے ہی دن امیت شاہ نے مظفر نگر فسادات کے سلسلہ میں گرفتار کئے گئے سریش رانا کو اترپردیش اسمبلی انتخابات کی کمان سونپ دی۔ اطلاعات کے مطابق مہینت ادتیہ ناتھ جو فرقہ وارانہ منافرت کے ماہر ہیں، انہیں اترپردیش کے ضمنی انتخابات میں پارٹی کی انتخابی مہم کا انچارج مقرر کیا گیا۔ جس طرح گجرات فسادات میں الزامات کا سامنا کرنے والے امیت شاہ نے اترپردیش میں لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو کامیابی دلائی ، ٹھیک اسی طرح مظفر نگر فسادکے ملزم کو اترپردیش اسمبلی چناؤ کی ذمہ داری گئی ۔ یہ فیصلے بی جے پی کی ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ بی جے پی کی جن اہم شخصیتوں کے دامن پر جو داغ ہیں، اسے دنیا کی کسی فیکٹری کا صابن بھی صاف نہیں کرسکتا۔

آر ایس ایس کی سرپرستی میں بی جے پی چار ریاستوں کے مجوزہ چناؤ میں فرقہ وارانہ اساس پر ووٹ کی تقسیم کا جو منصوبہ رکھتی ہے اس کا اظہار امیت شاہ کے دور جموں کے موقع پر ہوا۔ جموں و کشمیر جہاں اسمبلی انتخابات قریب ہیں ، امیت شاہ نے فرقہ وارانہ زہر اگلتے ہوئے عوام کو مذہبی خطوط پر بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ جموں و کشمیر کے آئندہ چیف منسٹر ہندو ہونے اور عبداللہ و مفتی خاندانوں سے کشمیر کو نجات دلانے کی بات کرتے ہوئے امیت شاہ نے یہ ثابت کردیا کہ قومی یکجہتی کے اس گہوارے میں وہ نفرت کے سوداگر کی شکل میں آئے ہیں۔ جموں و کشمیر ہی کیا ملک کے کسی بھی حصہ میں ہندو مسلم کی اصطلاح میں بات کرنا قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کی روایات کو پامال کرنا ہے۔ جموں و کشمیر ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے علاوہ پاکستان سے جڑی سرحدی ریاست ہے۔ کئی اعتبار سے اس کا شمار حساس ریاست کی حیثیت سے ہوتا ہے ۔ وہاں امیت شاہ کا یہ بیان فرقہ واریت کے جذبات کو ہوا دینے کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے ؟ 87 رکنی جموں و کشمیر اسمبلی میں 44 سے زائد نشستوں کے نشانہ کے ساتھ بی جے پی آگے بڑھ رہی ہے جس میں جموں کی تمام 37 نشستوں پر کامیابی کا خواب دیکھا جارہا ہے

۔ اس حکمت عملی کے تحت کم وقفہ میں وزیراعظم نے دو مرتبہ اور امیت شاہ نے ایک مرتبہ جموں کا دورہ کیا ۔ شیخ عبداللہ اور مفتی محمد سعید کے خاندانوں سے نجات کا نعرہ لگانے والے امیت شاہ شاید یہ جانتے نہیں کہ ان خاندانوں کا ملک پر احسان ہے۔ ان خاندانوں نے کبھی بھی علحدگی پسند نظریات کی تائید اور ان سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ بلکہ ہندوستان سے اٹوٹ وابستگی کو برقرار رکھا۔ شیر کشمیر شیخ عبداللہ نے ریاست میں مسلم اکثریت کے باوجود تقسیم ہند کے نازک حالات میں بھی ہندوستان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی ۔ حالانکہ اس وقت حالات انتہائی نازک اور تقسیم کے اثر کے تحت عوام انتہائی جذباتی تھے۔ لیکن شیخ عبداللہ نے عوام کے جذبات کو قرار دینے کا کام کیا جس کے لئے ہندوستانی قوم ہمیشہ ان کی ممنون احسان رہے گی۔ ایسی شخصیت کو حب الوطنی کا صلہ 14 ماہ کی جیل کی صورت میں دیا گیا۔ امیت شاہ یہ بھی بھول گئے کہ اٹل بہاری واجپائی حکومت میں فاروق عبداللہ وزیر تھے اور ان کی پارٹی این ڈی اے میں شامل تھی ۔ جموں و کشمیر میں نفرت کی فصل اگانے ، امیت شاہ کا خواب تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا۔ بی جے پی کو بھولنا نہیں چاہئے کہ عام انتخابات کی کامیابی محض 31 فیصد ووٹوں سے ہوئی ہے۔ یو پی اے حکومت کے 10 سالہ دور کی ناکامیاں اور اسکامس کے درمیان نریندر مودی کی ڈائیلاگ بازی پر عوام نے بھروسہ کیا جس کا اثر ملک کے دیگر علاقوں کی طرح جموں پر بھی پڑا۔ لیکن مجوزہ اسمبلی انتخابات میں مکالمہ بازی نہیں چلے گی۔ ویسے بھی نریندر مودی کا جادو جو لوک سبھا انتخابات میں سر چڑھ کر بول رہا تھا ، اب اپنا اثر کھونے لگا ہے، جس کا ثبوت 4 ریاستوں کے 18 اسمبلی حلقوں کے حالیہ ضمنی چناؤ ہے جن میں مودی لہر بے اثر ثابت ہوئی ۔ تین ماہ کے دوران نریندر مودی نے عوام کو صرف سبز باغ دکھائے اور ایک بھی وعدہ پر عمل نہیں کیا گیا جس کے سبب ضمنی انتخابات میں عوامی مایوسی کا اظہار ہوا۔ بہار میں جنتادل یو ، آر جے ڈی اور کانگریس اتحاد کے بہتر مظاہرہ سے ثابت ہوگیا کہ لوک سبھا چناؤ میں سیکولر ووٹ کی تقسیم کا بی جے پی کو فائدہ ہوا تھا۔ داغدار افراد کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کی نصیحت پر شاعر نے کیا خوب کہا ؎
دامن پہ جن کے داغ ہیں، دھبے ہیں خون کے
وہ لوگ سرخرو ہیں حکومت میں آج بھی