داماد گیری

سید محمد افتخار مشرف
محترم قارئین کرام! آپ سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بچپن میں بچہ گیری، نوجوانی میں ہیرو گیری، ملک کی آزادی کے وقت گاندھی گیری پھر اس کے بعد غنڈہ گیری جو اب سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہے بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اب ملک کی سیاست میں غنڈہ گیری کے ساتھ ساتھ چمچہ گیری کا خوب عمل دخل ہے۔ بچپن کی بچہ گیری اور نوجوانی کی ہیرو گیری ہر انسان کی زندگی کے اہم یادگار لمحے ہوتے ہیں جس کو وہ اپنی ساری زندگی یاد کرکے گذار تا ہے بلکہ کچھ لوگ ان لمحات کو اپنی سوانح عمری میں قلمبند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے اس یادگار لمحات کو اپنے خاندان کے چھوٹے بڑوں ، دوست احباب کو سناتے رہتے ہیں کہ ہم بچپن میں ایسی ایسی شرارتیں کرتے تھے، دوسروں کو خوب ستاتے تھے اور بہت مزہ آتا تھا وغیرہ ۔ نوجوانی میں کالج اور یونیورسٹی کے دنوں میں ہیرو گیری کے قصے ہر انسان کویاد رہتے ہیں۔ یہ قصے اپنے ہم عصر دوستوں اور خاندان کے افراد کو خوب مزے لے کر سناتے ہیں۔

ہمارے بڑے بزرگوں نے ملک کی آزادی کی لڑائی میں گاندھی گیری کو اپناتے ہوئے ملک کو آزاد کرایا تاکہ ان کے بچے آزادی کا مزہ لیں۔ اپنی پسند کی حکومت بنائیں اور اپنے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کریں۔ بھلا ہو اس ملک کی سیاسی پارٹیوں کاکہ انہوں نے اپنے مفاد کی خاطر ڈاکوؤں ، قاتلوں، چور اُچکوں، تماشہ کرنے والوں، مسخروں ، غنڈوں کو اپنی سیاسی پارٹیوں میں شامل کرکے انہیں حکومت کا حصہ بنایا، جس کی وجہ سے آج ملک میں نئے نئے فتنے، اسکام، لوٹ مار وغیرہ چل رہی ہے۔ غنڈہ گیری زور پکڑ رہی ہے۔ اور پولیس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کیا ہمارے بڑے بزرگ اسی لئے اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنے ملک کو آزاد کرایاتھا؟۔

آج کا سیاسی ماحول بالکل الگ ہے، لوگ ذات پات، مذہب کے نام پر بٹ گئے ہیں۔ انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں، یہ سب ان سیاسی پارٹیوں کی کارستانی ہے جو لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کررہے ہیں۔ لڑا رہے ہیں، مارکررہیہیں، لوٹ رہی ہیں صرف اور صرف اپنے مفاد کی خاطر۔ آج اس ملک کے ہر شخص خاص طور پر نوجوانوں کواس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیئے اور ایسی سیاسی پارٹیوں کو سب کو مل کر سبق سکھانا چاہیئے تاکہ مستقبل میں پڑھے لکھے ایماندار، قابل، خدمت گذار اشخاص کا انتخاب یقینی اور یہ لوگ عوام کی تکالیف دور کریں اور ملک کی خدمت و ترقی کا حصہ بنیں۔ پتہ نہیں کیوں عوام پچھلے چھ دہوں سے ان ہی پارٹیوں کے امیدواروں کو منتخب کررہے ہیں جو آج تک عوام کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل تک نہیں کرسکے۔ وہی چہرے بار بار عوام کے سامنے بڑی بے شرمی سے ووٹ مانگنے کے لئے آجاتے ہیں اور بھولے بھالے عوام کو مختلف خواب دکھا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ ۔ عوام کو اب سمجھنا چاہیئے کہ وہ اپنے حق کا استعمال کس طرح کریں، اور وہ کیسی حکومت چاہتے ہیں۔ عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی کیلئے جو امیدوار ایماندار، دیانتدار، خدمت گزار ہوتا ہے اسی کو ووٹ دیں۔ خیر بات چل رہی تھی داماد گیری کی لیکن ہم نیتا گیری پر چلے گئے ۔ کیا کریں آج حالات ہی ایسے ہیں کہ خود بخود قلم اس موضوع پر لکھنے کا اصرار کرتا ہے۔

انسان اپنی عمر کے کچھ حصہ میں ضرور کسی نہ کسی کا داماد بنتا ہے اور شادی کے بعد ہم سبھی نے ( چند کو چھوڑ کر ) ضرور سسرال میں اپنی دامادگیری چلائی ہوگی۔ پتہ نہیں کیوں نوجوان شادی کے بعد جب سسرال میں قدم رکھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو’’ سوپر پاور ‘‘ سمجھنے لگتا ہے اور سسرال میں ان کی آؤ بھگت، ہر وقت مختلف لوازمات کے ساتھ کھانے پینے کا انتظام، ان کے رہن سہن کا بہترین انتظام وغیرہ وغیرہ سسرال والوں کی ذمہ داری ہے سمجھتاہے۔ اگر کہیں ذرا سی بھی بھول ہوجائے تو جناب کے مزاج میں تبدیلی آجاتی ہے۔ یہ کہاں کا رواج ہے؟ جب لڑکی بہو بن کر بیٹی بن سکتی ہے تو ’’ داماد ‘‘ بیٹا کیوں نہیں بن سکتا؟۔ ایسے دامادوں کی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہی داماد شادی سے پہلے اپنے گھروں میں بھیگی بلی بنے رہتے ہیں، سسرال کے ہر کام میں اپنی داماد گیری دکھاتے ہیں اور سسرال والوں کو ان کے ناز نخرے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
آج ہمارے ملک کے اکثر خاندانوں میں یہ رواج چل رہا ہے۔ خاص طور پر متوسط طبقہ کے مسلم خاندان اس سے زیادہ تر متاثر ہوتے ہیں۔ داماد گیری سے ہٹ کر جو رواج چل رہا ہے وہ ہے شادی کے بعد پہلے بچہ کی پیدائش کے موقع پر ہونے والے اخراجات کا ذمہ بھی لڑکی کے والدین پر ہوتا ہے بلکہ اکثر خاندانوں میں تو ہر بچے کی پیدائش پر ہونے والے اخراجات کا ذمہ سسرال والوں پر ہی ہوتا ہے اور پھر چھٹی، چھلہ وغیرہ کی ذمہ داری بھی لڑکے کے والدین کی ہی ہوجاتی ہے۔ یہ کہاں کا قانون ہے۔ بس یوں کہئے کہ لڑکی کی شادی کے بعد یہ تمام فرسودہ رسومات کی ذمہ داری لڑکی کے والدین پر ہی عائد ہوجاتی ہے۔ آج ہم تمام کو ان باتوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان بیجا رسومات کو بدلنا چاہیئے کیونکہ ان بیجا رسوم و رواج کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر کیوں ہم لوگ لڑکی کے والدین کو اس طرح کی رسومات کیلئے مالی مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں۔
آیئے ! آج ہم سب مل کر اس بات کا عہد کریں کہ ’ داماد گیری‘ کے علاوہ ان بے جا رسومات کیلئے لڑکی کے والدین پر بوجھ نہیں ڈالیں گے۔