محمد مبشر الدین خرم
ہندوستان عالمی دہشت گردی کے فروغ میں اضافہ کا مرتکب تو نہیں بن رہا ہے ؟ گزشتہ نصف صدی سے عالمی سطح پر فروغ پانے والی دہشت گردی میں اسرائیل کا کلیدی کردار ہوا کرتا تھا اور جہاں کہیں دہشت گردانہ واقعات یا پھر یہ صورتحال پیدا ہو کہ اندرون ملک خلفشار دیکھنے کو ملے تو بعض ذہن اسے اسرائیلی و امریکی سازش قرار دینے کی بھرپور کوشش کیا کرتے تھے اور ان کی یہ کوششیں بڑی حد تک کارگر بھی ثابت ہوتی رہیں چونکہ اسرائیل کا وجود ہی دہشت گردی کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے ۔ اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں سے ان کی زمین چھینتے ہوئے ان پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کیا اور اسرائیل کی ان کوششوں کی مختلف گوشوں سے کی جانے والی مذمت کو ختم کرنے کیلئے یہودی لابی کی جانب سے ان ممالک کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا گیا جو فلسطین کی حمایت کرتے رہے ۔ ہندوستان بھی ان ممالک کی فہرست میں صف اول کا ملک ہوا کرتا تھا جو فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھائی جاتی تھی لیکن بتدریج ہندوستان بھی اسرائیلی سازشوں کا شکار ہوتا چلا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے تجارتی و سفارتی تعلقات اس حد تک مستحکم ہوچکے ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے بغیر اپنا وجود تصور کرنے سے بھی خوفزدہ نظر آرہے ہیں کیونکہ اسرائیل سے سب سے زیادہ دفاعی تجارت ہندوستان کررہا ہے اور ہندوستان کی زرعی پالیسی مدون کرنے کے علاوہ زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے والی بڑی مملکت اسرائیل بن کر ابھر چکی ہے ۔
اسرائیل سے ہندوستان کے تعلقات کا تذکرہ عموماً ایسے مقامات پر ہوا کرتا ہے جو کہ تجارتی غرض و غایت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن حالیہ چند برسوں میں دفاعی تعلقات بالخصوص خفیہ ایجنسیوں کی تربیت کے معاملات میں ہندوستانی عہدیداروں کو اسرائیل میں تربیت کی فراہمی کے بعد یہ تعلقات مزید فروغ حاصل کرچکے ہیں لیکن اب یہاں جو مدعا پیش کیا جارہا ہے اس کا تعلق صرف اسرائیل کی عالمی دہشت گردی سے نہیں ہے بلکہ اس دہشت گردی میں اعانت کرنے والی طاقتوں کا بھی بڑا مسئلہ ہے جو بظاہر تو عالمی دہشت گردی کے خلاف متحدہ افواج کا حصہ ہیں مگر شاید وہ اس بات کو فراموش کرچکے ہیں کہ ان کے تجارتی تعلقات کا فروغ عالمی سطح پر دہشت گردی کے فروغ کا موجب بن رہا ہے ۔
داعش حالیہ عرصہ میں ایک ایسا لفظ بن کر ابھرا ہے جس سے دنیا بھر کے تقریباً تمام ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک میں مقتدر طبقہ لرزہ براندام ہے لیکن اس طبقہ کے ساتھ ساتھ بعض تجارتی و سرمایہ دارانہ نظام سے تعلق رکھنے والے بھی خوف و دہشت کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ مقتدر طبقہ کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ کہیں ان کے وطن سے تعلق رکھنے والے نوجوان داعش کا حصہ نہ بنیں اور وہ اس فکر سے نجات حاصل کرنے کیلئے کئی اقدامات کررہے ہیں جن میں سمینار ، کانفرنس ، اجلاس اور مختلف طریقوں سے نوجوانوں کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہندوستان بھی ان ہی ممالک میں سے ایک ہے جنہیں داعش کے خطرات لاحق ہے ۔ داعش تنظیم ہے یا نظریہ اس کا ابھی تک کوئی طبقہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ داعش کے ذمہ داران یا ہمدردوں سے تاحال کسی کے راست مذاکرات نہیں ہوپائے ہیں اور ہر کوئی جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں ان ہی بنیادوں پر فیصلے صادر کررہا ہے ۔ نوجوانوں کو اس جنگجو تنظیم سے وابستگی سے روکنے کیلئے مختلف اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن اس جنگجو تنظیم کے خاتمہ کیلئے سوپر پاور بھی کوئی عملی اقدام سے قاصر نظر آرہا ہے بلکہ سوپر پاور تصور کئے جانے والے امریکہ کی داعش کے خلاف سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوگی کہ امریکہ داعش کے نظریہ کے برخلاف نظریہ تیار کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے جبکہ تنظیم کے خاتمے کیلئے جنگی اقدامات میں دلچسپی نہیں دکھارہا ہے ۔
ہندوستان میں جو نوجوان داعش یا آئی ایس آئی ایس جیسے الفاظ کا انٹرنیٹ پر استعمال کرتے ہیں ان پر سخت نظر رکھتے ہوئے خفیہ ایجنسیاں یہ جاننے کی کوشش کررہی ہیں کہ فیس بک ، ٹوئٹر کے علاوہ دیگر سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر ان الفاظ کے ذریعہ کیا سرگرمیاں انجام دی جارہی ہیں اور اگر کوئی شخص یا اشخاص کی جانب سے داعش یا آئی ایس آئی ایس کے نظریہ کی حمایت کی جاتی ہے تو اس پر کڑی نگاہ رکھی جانے لگی ہے اور ضرورت پڑنے پر داعش کے ان ہمدردوں کو نہ صرف حراست میں لیا جارہا ہے بلکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ داعش کے یہ ہمدرد ہندوستان کی تباہی کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے اور ان کا نظریۂ خلافت ہندوستان میں نافذ کرنے کوشاں ہیں ۔ داعش سے ہمدردی کرنے والے نوجوانوں سے یہ سلوک تو کیا جارہا لیکن کیا ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں اس بات کو ماننے کیلئے تیار ہیں کہ خود ہندوستان میں دھماکو مادہ و اشیاء تیار کرنے والی کمپنیاں داعش کو دھماکو مادہ فراہم کررہی ہیں؟ اگر ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں اس بات سے لاعلم ہے تو پھر یہ آزاد ہندوستان کی بدترین خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی تصور کی جانی چاہئیے چونکہ اس ملک سے تیار ہوکر نکلنے والا دھماکو مادہ عالمی طاقتوں کو متنفر کرنے والی داعش کے ہاتھوں تک پہونچ رہا ہے اور ہمارے ملک کی ایجنسیاں خواب غفلت میں مخصوص طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو نشانہ بنانے میں مصروف نظر آرہی ہیں ۔ داعش کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے کی جانے والی منصوبہ بندیوں سے زیادہ اگر حکومت ہند کی جانب سے ان سات دھماکو مادہ تیار کرنے والی کمپنیوں سے سخت تحقیقات کا آغاز کیا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ سرزمین شام اور عراق میں معصوم لوگوں کی داعش کے جنگجوؤں کے ہاتھوں ہلاکت روکی جاسکتی ہے ۔
اسلحہ کے متعلق تحقیق کرنے والے عالمی ادارے کانفلیکٹ آرمامینٹ ریسرچ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں یہ بات واضح طور پر بتائی جاتی ہے کہ ہندوستان میں تیار کیا جانے والا دھماکو مادہ سرزمین شام پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ ادارہ کی جانب سے نہ صرف یہ دعویٰ کیا گیا ہے بلکہ تصویری شواہد کے علاوہ کمپنیوں کے نام بھی پیش کئے گئے ہیں جو داعش کو یہ دھماکو مادہ فراہم کررہے ہیں ۔ ان کمپنیوں میں تین کمپنیاں جو دھماکو مادہ تیار کرتی ہیں ان کا تعلق سرزمین حیدرآباد سے ہے ۔ دھماکو مادہ کے سرزمین شام پر استعمال کی اطلاعات کے ساتھ ہی سکیورٹی ایجنسیوں کو چوکنا ہوتے ہوئے جن کمپنیوں کا نام رپورٹ میں شائع ہوا ہے ان کمپنیوں کے مالکین سے پوچھ تاچھ کرنی چاہئیے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بیشتر کمپنیاں یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ ان کے پاس درآمدات و برآمدات کے لائسنس موجود ہیں اور دو کمپنیوں کی جانب سے تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ ترکی اور لبنان جیسے ممالک میں اپنے گاہکوں کو دھماکو مادہ سپلائی کررہے ہیں ۔ کیا یہ کمپنیاں نہیں جانتیں کہ ترکی یا لبنان میں ان کے گاہک کون ہیں اور خریدا جارہا دھماکو مادہ کن مقاصد کے تحت استعمال کیا جارہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ہندوستان سے ہی یہ دھماکو مادہ داعش کو حاصل ہورہا ہے بلکہ دیگر کئی ممالک ہیں جن سے وہ دھماکو مادہ اور درکار اشیاء خرید رہے ہیں لیکن ہندوستان ان ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر پہونچ چکا ہے ۔ پہلے نمبر پر جہاں ترکی پر یہ الزام ہے کہ وہ داعش کو دھماکو مادہ و ہتھیار فراہم کررہا ہے تو اب ہندوستان کی سات علحدہ کمپنیوں کے نام رپورٹ میں منظر عام پر آچکے ہیں جن میں تین کا تعلق حیدرآباد اور ایک کا تعلق ناگپور سے بتایا جاتا ہے ۔
رپورٹ میں جن ہندوستانی کمپنیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں گلف آئیل کارپوریشن ، سولار انڈسٹریز ، پریمیر ایکسپلوزیوس ، راجستھان ایکسپلوزیوس اینڈ کیمیکلس ، چامونڈی ایکسپلوزیوس ، اکنامک ایکسپلوزیوس ، آئیڈیل انڈسٹریل ایکسپلوزیوس کے علاوہ نوکیا سولیوشنس اینڈ نیٹ ورکس انڈیا شامل ہیں ۔ حکومت ہند اگر واقعی داعش کی سرگرمیاں سے متنفر ہے اور اس کے خاتمہ کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو ان کمپنیوں کے ذمہ داران سخت تحقیقات کرتے ہوئے کمپنیوں کے گاہکوں کے متعلق تفصیلات حاصل کرتے ہوئے ان تک رسائی حاصل کرے تاکہ عالمی سطح پر مچائی جانے والی تباہی کو روکنے میں اپنے کردار کا احساس کروایا جاسکے لیکن حکومت کی جانب سے ایسا کئے جانے کی توقع کرنا فضول ہے ۔ چونکہ شاید ہندوستان میں بھی ایک مخصوص فکر کے حامل مقتدر طبقہ کو اسرائیل کی پالیسی بہت زیادہ پسند آچکی ہے اور وہ بھی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کو بدامنی کاگہوارہ بنانے کا متمنی ہے ۔
گجرات فسادات 2002 ء کے دوران بھی استعمال کئے گئے دھماکو مادے کے متعلق کئی شبہات ظاہر کئے گئے تھے اور اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان فسادات میں اسرائیل میں تیار کردہ کیمیکل کا استعمال ہوا اور بعض گوشوں کی جانب سے حیدرآباد کی کسی کمپنی کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا جس نے دھماکو مادہ فراہم کیا تھا ۔ اس کے علاوہ مکہ مسجد ، دلسکھ نگر ، شہر میں ہوئے جڑواں دھماکوں (لمبنی پارک ، گوکل چاٹ) اور اجمیر شریف کے دھماکوں میں مادے کی مماثلت کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا ۔ گوکل چاٹ اور لمبنی پارک دھماکے کے فوری بعد ایک اطلاع یہ بھی سامنے آئی تھی کہ جو دھماکو مادہ استعمال کیا گیا وہ درحقیقت ناگپور کی کسی ایکسپلوزیو کمپنی سے حاصل کیا گیا تھا اور بیشتر دھماکوں میں وہی مادہ استعمال میں لایا گیا تھا ۔
عالمی سطح پر بالخصوص ہندوستان میں جن مسلم تنظیموں کی جانب سے داعش کے اقدامات کی سرزنش کی جارہی ہے وہ باضابطہ یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ داعش درحقیقت اسرائیل اور امریکہ کی پیدا کردہ قوت ہے جو کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے تیار کی گئی ہے ۔ داعش کے اقدامات کا اسلام سے تعلق نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر جو کچھ اطلاعات موصول ہورہی ہیں وہ سچ ہے تو اس کی بنیاد پر ان واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے مگر اب جو اطلاع کانفلیکٹ آرمامینٹ ریسرچ کی رپورٹ کے ساتھ منظر عام پر آئی ہے اس سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اسرائیل و امریکہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی کچھ ایسے عناصر ہیں جو داعش کے فروغ کیلئے نفرت پھیلانے اور نوجوانوں کو اکسانے میں مصروف ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جو لوگ داعش کے ہاتھوں دھماکو مادہ پہونچا رہے ہیں وہ بھی کہیں ایک سازش کا حصہ تو نہیں کہ ہندوستانی نوجوانوں کو یہ تاثردیا جائے کہ داعش درحقیقت انتہائی طاقتور تنظیم ہے اور اس سے وابستگی ان کی نجات کا باعث بن سکتی ہے ؟
@infomubashir,
E-Mail : infomubashir@gmail.com