ظفر آغا
آخر وہی ہوا جو ہونا تھا، ساری دنیا کو اپنی دہشت سے دہلانے والی خود ساختہ اسلامی حکومت یعنی داعش اب عراق میں دم توڑ رہی ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق موصل ہوائی اڈے پر عراقی فوج کا قبضہ ہوچکا ہے۔ شہر کے زیادہ تر علاقوں پر بھی عراقی فوج حاوی ہوچکی ہے۔ موصل آہستہ آہستہ خود ساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے اور آہستہ آہستہ عراق میں جنم لینے والی اور اپنے آپ کو اسلامی حکومت کہنے والی ریاست کا شیرازہ بکھرتا جارہا ہے۔ یہ وہ حکومت ہے جس کے قیام کا اعلان آج سے چند برس قبل ابوبکر البغدادی نے عراق کے دوسرے سب سے اہم اور بڑے شہر موصل کی ایک مسجد سے کیا تھا۔ البغدادی کے حامیوں نے ایک جنگ میں عراقی فوج کو موصل میں پسپا کرکے شہر پر اپنا قبضہ جمالیا اور دیکھتے ہی دیکھتے البغدادی کے ماننے والوں نے عراق اور شام کے ایک بڑے علاقے کو اپنے قبضے میں کرلیا اور اس سارے علاقے پر انہوں نے اپنی ایک خود ساختہ اسلامی حکومت قائم کرلی ایسے واقعات دنیا میں اکثر ہوتے رہتے ہیں لیکن چند دن خبروں میں رہنے کے بعد لوگ ایسی حکومتوں کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن البغدادی اور ان کی اسلامی خلافت نہ صرف برسوں مسلسل خبروں میں چھائی رہی بلکہ اس چھوٹی سی خود ساختہ ریاست نے دنیا کو دہلادیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ البغدادی اور اس کے ہمنواؤں کی پالیسی محض دہشت اور نفرت پر مبنی تھی۔ اس حکومت کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ اس کے فوجی خود کو جہادی کہتے اور برسرعام لوگوں کا سر قلم کرکے اس کے وحشیانہ مناظر کی انٹرنیٹ کے ذریعہ اپنی ویب سائٹ پر تشہیر کرتے تھے۔
صرف اتنا ہی نہیں یہ جہادی یورپ کے مختلف شہروں میں معصوم لوگوں کے ہجوم پر خودکش حملہ کرکے درجنوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی دہشت سے القاعدہ جیسی تنظیموں کو بھی مات دے دی تھی اور 9/11 کے دہشت گرد حملے کے بعد البغدادی اسامہ بن لادن سے بھی بڑا نام بن گیا تھا۔ لیکن یہ ابوبکر البغدادی تھا کون، اور پھر یکایک دہشت کا اتنا بڑا امین کیسے بن گیا کہ جس کے نام سے واشنگٹن اور پیرس جیسے مراکز دہل جاتے تھے۔ البغدادی موصل شہر کا ایک معمولی باشندہ تھا جس کے بارے میں یہ خبریں ہیں کہ وہ بغداد کی ایک چھوٹی سی مسجد میں پیش امام کے فرائض انجام دیا کرتا تھا۔ جب عراق پر امریکی فوج نے حملہ اور قبضہ کیا تو ان دنوں غالباً 2006 میں اس کو امریکی فوج نے کسی شبہ کے تحت گرفتار کیا تھا اور اس کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ وہاں اس کی ملاقات القاعدہ کے افراد سے ہوئی جنہوں نے اس کے دل میں مغرب کے خلاف نفرت کا چراغ روشن کردیا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد البغدادی نے القاعدہ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا اور وہ ان کی تنظیم کے ساتھ مل کر عراق پر امریکی قبضہ کے خلاف سرگرم ہوگیا۔ لیکن 2012 میں جب شام میں بشارالاسد کے خلاف خانہ جنگی پھوٹ پڑی تو دنیا بھر کے جہادی عناصر شام میں سرگرم ہوگئے۔ عراق کی القاعدہ کا بھی فوکس شام ہوگیا اور اسوقت البغدادی عراق سے شام منتقل ہوگیا جہاں القاعدہ نے کافی بڑے شاہی علاقے پر اپنا قبضہ جمالیا۔ چونکہ اسوقت اس کے خلاف امریکہ اور چند عرب ریاستیں بھی سرگرم تھیں اس لئے شام میں سرگرم القاعدہ جیسی جہادی تنظیموں کو ان ممالک کی بھی ڈھکی چھپی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس درمیان جب شام میں عراقی القاعدہ سرگرم تھی اس کے سربراہ ایک امریکی فوجی ہوائی حملے میں مارے گئے، اس کی موت کے بعد ابوبکر البغدادی عراقی القاعدہ کا سربراہ مقرر ہوا اور بس پھر اس کے بعد سے البغدادی نے ابھی حال تک بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ البغدادی نے شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کے بعد اپنی توجہ شام سے ملے ہوئے عراقی علاقے پر مبذول کردی اور جلد ہی اس کے فوجیوں نے عراق کی سرزمین پر بھی اپنا قبضہ جمانا شروع کردیا ( اس طرح 2014 میں جون کے مہینے میں موصل پر قبضہ کے بعد موصل کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے خطبہ کے دوران ابوبکر البغدادی نے باقاعدہ ایک اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کردیا۔1920 کی دہائی میں ترکی خلافت کے زوال کے بعد یہ دنیا میں پہلی اسلامی خلافت تھی جس کے قیام نے دنیا کو چونکا دیا۔ صرف اس خلافت کا اعلان ہی چونکانے والا نہیں تھا بلکہ اس کے اقدام بھی دہلا دینے والے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر سے مسلم نوجوان جہاد کے نام پر البغدادی کی حکومت میں شامل ہونے لگے اور ان جہادیوں کا سیاسی نشانہ مغرب تھا جس کے خلاف البغدادی اور اس کے ہمنوا ایک عجیب و غریب نام نہاد جہاد میں شامل ہوگئے۔ یوں تو یہ جہاد مغرب کے خلاف شروع ہوا تھا، لیکن چند سو مغرب کے معصوموں کی موت کے بعد البغدادی کا جہاد خود مسلمانوں کے خلاف شروع ہوگیا۔ وہ شام ہو یا عراق ان دونوں جگہوں پر البغدادی نے ہزاروں معصوم مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتاردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف مغرب بلکہ تمام عرب حکومتیں بھی البغدادی کی خلافت کے خلاف صف آراء ہوگئیں اور اب یہ عالم ہے کہ البغدادی موصل کے ایک چھوٹے سے علاقے میں گھرچکا ہے اور اس کی دہشت کی خلافت عراقی فوج کے قبضہ میں آتی چلی جارہی ہے۔ لیکن موصل میں اپنی خلافت کے قیام کے بعد سے اب تک البغدادی عالمی سیاست کا ایک وحشی کردار بن کر سرخیوں میں چھایا رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا البغدادی کے خاتمہ سے دنیا سے دہشت گرد سیاست کا خاتمہ ہوجائے گا؟ یا پھر البغدادی کے بعد کوئی دوسرا البغدادی پیدا ہوجائے گا۔؟
اس سوال کا جواب مغربی نیاد اور عالم اسلام دونوں کو تلاش کرنا ہے، مغربی دنیا کو اس لئے کہ اگر امریکہ عراق پر حملہ کرکے وہاں اپنی دہشت کا ننگا ناچ ناچتا تو البغدادی جیسا دہشت گرد جہادی قطعاً پیدا نہیں ہوتا۔ یعنی البغدادی اور اس کی دہشت گرد سیاست کا بانی عراق پر امریکی حملہ تھا۔ اس لئے امریکہ اور مغرب کو یہ طئے کرنا ہے کہ جہادی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اس کو اپنی فوجی دہشت ختم کرنا لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو بھی یہ طئے کرنا ہے کہ جہاد کے نام پر اٹھنے والی ہر صدا کو لبیک کہنا خود مسلمانوں کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے اس لئے دہشت پر مبنی جہادی سیاست سے گریز کیا جائے۔ پچھلی ایک دہائی میں اسامہ بن لادن اور البغدادی جیسے خود ساختہ جہادی کرداروں نے ساری دنیا میں اسلام کو نعوذ باللہ دہشت کا پیغام بنادیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج امریکہ میں مسلم ممالک سے آنے والوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگ رہی ہے۔ اس دور میں مسلمان دنیا بھر میں دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ دنیا میں امن کا پیغام دینے والے اسلام کے لئے دہشت گرد جہاد سے جڑی دوسری کوئی اور لعنت نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے اب جہاد کا نعرہ بلند کرنے ولی ہر اسلامی تحریک سے عالم اسلام کو منہ موڑ لینا چاہیئے اور پاکستان جیسے ممالک جو دہشت گردی کو اپنی پالیسی مانتے ہیں ان پر دباؤ ڈال کر دنیا سے البغدادی کے ساتھ ساتھ ہر جگہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہیئے تاکہ اسلام اور مسلمان دونوں پھر سے سرخرو ہوسکیں۔