دنیا کا ہر خطہ کسی نہ کسی طرح سے مشکلات کا شکار بنا ہوا ہے، کئی خطوں میں امن و امان برقرار نہ ہونے کے باعث حکمراں طبقہ عوامی اعتماد سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ جو لوگ امن و امان کو درہم برہم کرنے کے مرتکب بنتے جارہے ہیں، عوام انہیں مسیحا تصور کرنے لگے ہیں، حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات سے عدم اطمینان کا اظہار کرنے والی مملکتیں داخلی امور میں مداخلت کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ جن لوگوں کو اپنی سرحدوں کی حفاظت اور حکومت کی برقراری کا یقین باقی نہیں ہے، وہ لوگ دوسروں پر نشانہ سادھتے ہوئے یہ پیغام دنیا کو دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم تو ان حالات سے خوفزدہ نہیں ہیں چونکہ جن سے انہیں خطرہ ہے، ان کا نشانہ درحقیقت کوئی اور ہے۔ جو حکمراں طبقہ یہ تصور کر رہا ہے کہ وہ دنیا کا رخ دوسری جانب موڑتے ہوئے اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہورہا ہے، اسے اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ مستقبل قریب میں جن گلی کوچوں کے وہ ’’ملک‘‘ کہلاتے تھے، انہی گلی کوچوں میں ان کیلئے مشکلات پیدا ہونے والی ہیں۔
مصر، شام ، عراق، فلسطین، لیبیا، جنوبی افریقہ کے علاوہ تیونس و دیگر ممالک میں جاری بغاوت کی صورتحال سے مغرب کو لاحق خطرات میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مغربی ممالک شورش سے متاثرہ ممالک کے داخلی امور پر خصوصی نظر رکھے ہوئے ہیں، لیکن انہیں وقت بروقت حالات سے آگہی حاصل ہونا دشوار نظر آرہا ہے چونکہ مغربی دنیا میں پہلی مرتبہ اس بات کو نوٹ کیا جارہا ہے کہ مغرب بالخصوص گوری رنگت والے ان باغیوں کے حامی بنتے جارہے ہیں جو مختلف ممالک میں جنگی جنون کے ساتھ مغربی ممالک اور ان کے حامیوں کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی داعش میں شمولیت کی اطلاعات نے نہ صرف برطانیہ کو خوفزدہ کر رکھا ہے بلکہ امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک خوف و ہراس کے عالم میں حقائق سے آگہی کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جزائرۃ العرب میں حکمراں طبقہ کی جانب سے یہ کہا جانا کہ داعش مغربی ممالک کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے چونکہ داعش کی جانب سے جو کارروائیاں کی جارہی ہیں ، وہ مغرب کو للکارنے والی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی نظر میں مسلمانوں کو ظالم کے طور پر پیش کرنے والی دکھائی دے رہی ہیں۔
جزائرۃ العرب میں موجود ممالک کے ساتھ عجمی ممالک کے تعلقات بہتر رہے ہیں لیکن بیشتر عربی و عجمی ممالک بالخصوص مسلم ممالک کے درمیان تعلقات بعض معاملات پر کشیدہ رہے ہیں لیکن داعش کا عراق اور شام میں عروج نے مغربی ، عربی و عجمی ممالک کو ایک صف میں لاکھڑا کیا ہے اور داعش کے خلاف تمام ممالک ایک آواز میں اس کے خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ داعش کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں کسی بھی طرح درست قرار نہیں دی جاسکتیں لیکن جو صورتحال رونما ہوتی جارہی ہے ، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جزائرۃ العرب میں موجود بعض ممالک نے داعش کو اپنا حریف تصور کرتے ہوئے سرحدوں کی حفاظت کیلئے لاکھوں ریال خرچ کرنے شروع کردیئے ہیں لیکن داعش کایہ کہنا ہے کہ ہم ظالموں کے گلی کوچوں میں بستے ہیں۔ تمام ممالک بالخصوص حکمراں طبقہ کو خوفزدہ کئے ہوئے ہیں۔
روس کے خلاف امریکی جنگ میں امریکہ نے جن لوگوں کا استعمال کیا تھا، وہ لوگ ایک لمبے عرصہ تک خود امریکہ کیلئے درد سر بن چکے تھے اور اس گروہ نے نہ صرف امریکہ کو پریشان کیا بلکہ کئی ممالک میں اپنے وجود کا احساس دلانے کیلئے سینکڑوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارد یا گیا ۔ امریکہ کی تیار کردہ فوج جب مقصد کی طرف پلٹ آئی تو امریکہ سے اس کی دشمنی بڑھتی گئی اور اس حد تک بڑھی کہ اس میں ایک شخص کو دو گز زمین بھی میسر نہیں آئی بلکہ اس گروہ کے نظریات کے حامل لوگوں کے خلاف آج بھی ’’ضرب عضب‘‘ کے نام سے وزیرستان کے علاقوں میں آپریشن جاری ہے لیکن جس نظریہ کے خاتمہ کیلئے یہ آپریشن کیا جارہا تھا، اسی نظریہ کے ساتھ داعش نے عراق میں اپنے وجود کا احساس دلاتے ہوئے شام تک اپنی سرحدوں کو وسعت دینے کے عمل کا آغاز کردیا۔ امریکہ کی جانب سے داعش کے خلاف جنگی جنون کا اظہار کیا جانا حسب توقع ہے لیکن داعش کے مختصر مدت میں اس قدر طاقتوں ہونے کے متعلق کوئی اطلاعات تاحال منظر عام پر نہیں آرہی ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ گروہ نہ صرف معاشی اعتبار سے طاقتور ہے بلکہ اس گروہ کے پاس جنگی صلاحیتوں کا بھی ذخیرہ موجود ہے۔
قطر اور ترکی پر دہشت گردوں کی مدد کا الزام لگانے والے ممالک نے سرفہرست مملکت اب تک شام ہوا کرتی تھی، جو یہ الزام عائد کیا کرتی تھی کہ قطر اور ترکی کی جانب سے کٹر پسند نظریات کے حامل گروہ کو امداد فراہم کی جاتی ہے جس کے ذریعہ وہ شام کی سرحدوں میں شورش پیدا کرتے ہوئے عوام کو حکومت کے خلاف ورغلا رہے ہیں لیکن ان دونوں ممالک پر شام کی طرح الزامات عائد کرنے میں گزشتہ چند یوم سے اسرائیل بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ قطر اور ترکی کی جانب سے کی جانے والی امداد کے باعث دنیا میں بدامنی پھیلتی جارہی ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات کا اعتراف کر رہی ہیں کہ حکمراں طبقہ کے مظالم کے خلاف جدوجہد بغاوت کی شکل اختیار کر رہی ہے اور اس بغاوت کے دوران بدامنی پھیلانے کے علاوہ حکومت کے خلاف سرگرم طاقتوں کو اس بات کا موقع حاصل ہوا ہے کہ وہ عوام کو اپنی ہی حکومت کے خلاف میدان جنگ میں اتاردیں۔
لیبیا میں کرنل قذافی کی موت کے بعد جو کچھ حالات پیدا ہوئے اس سے دنیا اچھی طرح واقف ہے لیکن حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات نے مغربی دنیا کے رونگٹے کھڑے کردئے ہیں چونکہ لیبیا میں ہی دو سال قبل امریکی سفیر کو شدت پسندوں نے ہلاک کردیا تھا اور اب لیبیا کے ہی علاقہ تریپولی سے 12 ہوائی جہاز کے غائب ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ہوائی حادثات جو اس سال میں کافی زیادہ ہوئے ہیں لیکن ان حادثات میں ایک طیارہ تاحال دستیاب نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے باقیات کی کوئی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ جنگی تجربہ کے حامل افراد کا ماننا ہے کہ اگر واقعی 12 طیارے غائب ہیں تو ان طیاروں کا استعمال کسی بھی طرح دہشت گردانہ کارروائیوں کیلئے ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 12 طیاروں کو غائب کرتے ہوئے انہیں چھپائے رکھنا بہت ہی مشکل امر ہے۔ داعش سے دشمنی کی بنیادی وجوہات پر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ داعش نے جن حالات میں عراق کے شہروں پر کنٹرول حاصل کیا ، اس کے فوری بعد جنوبی افریقہ ، صومالیہ ، شام کے علاوہ دیگر مملکتوں نے حکومت کے خلاف سرگرم باغیوں کی جانب سے داعش کی قیادت کو قبول کئے جانے کے باعث مغربی قوتیں فوری داعش کا خاتمہ یقینی بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں چونکہ مختلف ملکوں میں اگر یہ نیٹ ورک پھیل جاتا ہے تو ایسی صورت میں دنیا میں قیام امن ناممکن ہونے کا خدشہ ہے۔
داعش کی کارروائیوں کی مخالفت کرنے والوں میں ہر طبقہ و نظریہ سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار شامل ہیں لیکن اس کے باوجود بھی نوجوانوں میں داعش کی مقبولیت کم نہیں ہورہی ہے بلکہ مختلف ممالک حتیٰ کہ ہندوستان سے بھی نوجوان داعش کے گروہ کے ہمراہ جنگی کارروائیوں کا حصہ بننے کیلئے روانہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جوکہ ان کے مستقبل کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہے لیکن اس صورتحال کے دوران جب ایک ویڈیو کا تذکرہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ عوام تک پہنچا تو نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان ، بنگلہ دیش ، برما اور چین ان سب ممالک کے حکمراں طبقہ کے نیندیں حرام ہوگئیں لیکن ہندوستان کو امریکہ نے یہ کہتے ہوئے تسلی دی ہے کہ برصغیر ہند میں القاعدہ کے وجود کی کوئی علامت نہیں ملتی ۔ القاعدہ کی جانب سے ڈاکٹر ایمن الظواہری کے ویڈیو کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ ایک کلپ میں ہندوستانی القاعدہ کے قیام کے متعلق اطلاع نے ملک کی سیکوریٹی ایجنسیوں کو حرکت میں لادیا لیکن ان سیکوریٹی ایجنسیوں کی حرکت اس وقت فوری بند ہوگئی جب امریکہ نے انہیں اطمینان دلادیا کہ القاعدہ کا ہندوستان میں وجود نہیں ہے۔
دنیا میں قیام امن کیلئے یہ ضروری ہے کہ نہ صرف دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے بلکہ ظلم کے خلاف چلائی جانے والی تحریکوں کی ذمہ دار مملکتوں کی جانب سے سرپرستی کا آغاز کیا جائے ۔ ظالم حکومت کے خلاف تحریک بغاوت ہوسکتی ہے لیکن ظلم کے خاتمہ کیلئے چلائی جانے والی تحریک کی حمایت کرنا ان ممالک کی ذمہ داری ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ان کی حکمرانی کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اگر خود کو طاقتور سمجھنے والی مملکتیں ظالموں کے خلاف مظلوموں کی حمایت کرتی ہیں تو یقیناً دنیا میں ایک دن امن قائم ہوگا مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جو ظالم کی پشت پناہی کے ذریعہ مظلوم کو نشانہ بناتے ہوئے دنیا کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ درحقیقت ظلم کرنے والے ظالم یہ ہیں جن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ ظلم و تشدد کی حمایت کسی بھی صورت میں نہیں کی جا سکتی لیکن جب ظالم کے خاتمہ کے نام پر معصوم عوام کو نشانہ بنایا جانے لگتا ہے تو ایسی صورت میں انسانیت کے علمبرداروں کو آواز کو ا ٹھانی ہی پڑتی ہے۔ داعش کی کارروائیاں اور امریکہ کی جانب سے داعش کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں دونوں ممکن ہے درست ہوں لیکن دونوں کی جانب سے معصوم عوام کو جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے وہ انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔