دارالترجمہ کا قیام

ڈاکٹر منیرالزماں منیرؔ(شکاگو)
جامعہ عثمانیہ کے قیام کے سلسلہ میں جو تجاویز پیش کی گئی تھیں ، ان کے ساتھ ساتھ اس امر پر بھی غور کیا گیا کہ ایک ایسا ادارہ بھی قائم کیا جائے جہاں نصابی اور کتابی اغراض و مقاصد کی تکمیل ہو اور جہاں مختلف علوم و فنون کی کتابوں کا جو یونیورسٹی کے امتحانات کیلئے نصاب میں شامل تھیں، اردو زبان میں ترجمہ ہو۔
جن حالات میں جامعہ عثمانیہ کے قیام کے سلسلے میں کوششیں کی جارہی تھی ویسے ماحول میں مولوی عبدالحق ، پنڈت کشن راؤ ، مولوی مرتضیٰ اور حافظ محمد مظہر نے حاکم وقت میر عثمان علی خاں کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک دارالترجمہ کے قیام کی سفارش کی جسے من و عن قبول کرتے ہوئے سر رشتۂ تالیف و تراجم کے قیام کی منظوری دیدی گئی۔
اس طرح جامعہ عثمانیہ کے قیام سے تقریباً ایک سال قبل ایک شاہی فرمان کی روشنی میں جو 14 اگست  1917 ء کو جاری ہوا تھا، 16 ستمبر 1917 ء کو دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا جس کے ناظم اول کی حیثیت سے بابائے اردو مولوی عبدالحق مقرر ہوئے ۔ مولوی عبدالحق کے بعد جن نامی گرامی شخصیتوں کا انتخاب عمل میں آیا ان میں سید محی الدین ، حمید احمد انصاری ، محمد عنایت اللہ ، محمدالیاس برنی اور ڈاکٹر ایشورناتھ ٹویا (رجسٹرار عثمانیہ یونیورسٹی) شامل ہیں ۔ دارالترجمہ کے ناظم ادبی کی حیثیت سے علامہ نظم طبا طبائی اور پھر مابعد شبیر حسین خاں جوش ملیح آبادی اور ناظم مذہبی کی حیثیت سے مولوی صفی ا لدین اور عبداللہ عمادی مقرر کئے گئے۔
1924 ء کے اوائل میں جوشؔ حیدرآباد آئے (’’حیدرآباد میں بیر ونی شعراء‘‘ مرتبہ پروفیسر سید جعفر  ص : 243 ۔ مقالہ نگار ہاشم حسن سعید) جس کا اور مقاصد کے علاوہ اصل مقصد روزی روٹی  تھا۔ حیدرآباد پہنچ کر جوش نے سب سے پہلے مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد سے ملاقات کی ۔ کچھ دن بعد انہیں دارالترجمہ میں ملازمت مل گئی ۔ دارالترجمہ سے جوش تقریباً دس سال تک وابستہ رہے ، جہاں انہیں عبداللہ خاں عمادی ، نظم طباطبائی اور مرزا محمد ہادی رسواء کی صحبت سے بڑا فائدہ پہنچا جس کی تصدیق خود جوش نے کی ہے:
’’میری یہ بڑی نمک حرامی ہوگی اگر میں اس امر کا اعتراف نہ کروں کہ شعبہ دارالترجمہ کی وابستگی نے مجھ کو بے حد علمی فائدہ پہنچایا اور خصوصیت کے ساتھ علامہ عمادی ، علامہ طباطبائی اور مرزا محمد ہادی رسواء کے فیضان صحبت نے مجھ بے سواد کو میرے جہل پر مطلع کر کے مجھ کو ذوق مطالعہ پر مامور کیا‘‘۔
(یادوں کی برات ، ص : 175 و نیز شاعر آخرالزماں جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر فضل امام 1982 ء ص : 21 )
ادارہ کے وجود میں آنے کے بعد نواب حیدر یار جنگ نظم طباطبائی ، مولوی ابوالخیر مودودی ، مولوی عبداللہ عمادی اور مولوی سید ابراہیم ندوی جیسے باکمال اور صاحب علم و فن حضرات کا مترجمین کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا جن کا کام عربی اور فارسی کی مستند کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا، ترجمہ کا اصل مقصد اہم اصطلاحات وضع کرنا تھا جو ان ہی حضرات سے ممکن تھا۔
متذکرہ بالا مستقل مترجمین کے علاوہ بعض ایسے اسکالرس اور باشعور ذی مغز دانشوروں کی خدمات بھی حاصل کی گئیں، جو زبان پر قدرت کاملہ رکھتے تھے ۔ پروفیسر ہارون خاں شروانی ، پروفیسر  ضیاء الدین انصاری، ڈاکٹر یوسف حسین خاں ، ڈاکٹر منور علی ، عبدالباری ندوی ، علامہ حکیم کبیر الدین ، رشید احمد ، عبدالمجید صدیقی ، میجر فرحت علی ، مسعود علی محوی ، اشرف الحق اور احسان احمد کے علاوہ بیشتر اکابرین قابل ذکر ہیں ۔ ان قابل قدر ہستیوں کی بیش بہا خدمات کے دو نتیجے نکلے۔ ایک تو یہ کہ اردو زبان کا دامن وسیع اور کشادہ ہوگیا جو کل تک سوائے شعری سرمایہ کے نشری سرمایہ سے محروم تھا جس میں دیگر زبانوں کے بیشتر نایاب کتابیں ترجمہ ہوکر شامل کی گئیں تو دوسرے یہ کہ دارالترجمہ کے قیام کی بدولت ایک نیا ادبی ماحول پیدا ہوا جس کی بدلوت اردو میں علوم و فنون پر سینکڑوں کتابیں منتقل ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو لٹریچر کے ذخیرے میں بھی قابل لحاظ اضافہ ہوا۔ اس طرح چند ہی برسوں میں اردو زبان بھی دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں شمار کئے جانے کے لائق ہوگئی۔
دارالترجمہ کے قیام کا ایک اور اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ہندوستانیوں کو مغربی ممال کے علوم و فنون کے ساتھ ساتھ وہاں کی ترقی پسند تحریکوںا ور ترقی پذیر قوتوں سے واقف کرنا اور ان میں ان ہیں کی طرح شعور پیدا کرناتھا ۔
اس طرح اس شعبہ کے قیام سے لوگوں میں علمی و ادبی ذوق کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت بھی ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے بڑے شعراء ادباء کے علاوہ ذوق سلیم رکھنے والوں سے حیدرآباد کی فضاء سازگار ہوئی جن میں سے چند قابل ذکر نام درج  ذیل ہیں۔
صفی اورنگ آبادی ، امجد حیدرآبادی، یگانہ چنگیزی ، نظم طباطبائی ، عزیز یارجنگ ولا ، مرزا ہادی، سورا، رضی الحسن کیفی، حسرت صدیقی، حکیم وزیر علی جوش ، ہارون خاں شروانی، خلیفہ عبدالحکیم ، عبدالباری ندوی ، قاضی عبدالغفار، ضیاء گورگانی، مرزا فرحت اللہ بیگ ، عبدالوہاب عندلیب، مولانا سید مناظراحسن گیلانی اور شمس اللہ قادری وغیرہ۔
عوام الناس کی مادری زبان اردو تھی لیکن سرکاری زبان فارسی تھی ، اس لئے ملازمین کواپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی میں کافی مشکلات پیش آرہی تھیں۔ یہ مسئلہ ان کی اپنی دسترس سے باہر تھا کہ فوری سرکاری احکام کی تعمیل ہو ۔ کسی قائل کو لفظ لفظ پڑھ کر اور بعد غور و خوض کسی ایک نت یجہ پر پہنچ کر انہیں آگے کوئی اقدام کرنا پڑتا تھا ۔ گویا یہ امر کافی وقت طلب تھا۔ شہر سے لیکر مواضعات اور پھر اضلاع کے دفاتر میں بھی کام کی عدم تکمیل پر سارا سرکاری نظام سرمایہ کاری میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔ بالآخر ملازمین کی اجتماعی جدوجہد پر سرکار نے 1288 ھ میں ایک گشتی نکالی۔
’’نظا عدالت کی رائے ہو تو وہ گواہوں یا اہل معاملہ سے اظہار اردو میں قلمبند کریں‘‘۔ (تزک محبوبیہ جلد اول ص : 28 )
اس حکمنامہ سے ایک پیچیدگی یہ پیدا ہوگئی تھی کہ عدالت کے علاوہ دیگر دفاتری کام بھی فارسی کے بجائے اردو میں کیوں نہ انجام دیئے جائیں۔ 1292 ھ میں جب یہ مسئلہ چھڑا تب اردو زبان کے استعمال کی قید ، عدالت سے اٹھادی گئی اورپھر محکمہ مال و بندوبست میں بھی اردو کے مکمل استعمال کی اجازت دیدی گئی۔
1301 ھ میں جب یہ دیکھا گیا کہ دفاتر میں دو علمی ہوگئی ہے اور امثلہ میں فارسی اور اردو مخلوط ہوجاتی ہے اور کوئی دفتر فارسی میں مراسلت کرتا ہے اور کوئی اردو  میں کسی ناظم عدالت کا فیصلہ تمام تر اردو میں ہوتا ہے تو کسی کا فارسی اور اردو سے مخلوط ، اس دو علمی کو دور کرنے اور نقائص کو منانے کیلئے ایک مخصوص گشتی 1301 ھ ۔ (1884 ء جریدہ غیر معمولی سرکار عالی مورخہ 22 ربیع الثانی 1301 ھ) میں جاری ہوئی اور اس میں تفصیل کے ساتھ تمام امور کا اظہار کیا گیا اور اب تمام دفاتر مکمل طور سے اردو میں منتقل ہوگئے۔
مختلف اور مستند کتابوں کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ شمال میں سر سید احمد خاں کی تحریک جب اپنے عروج پرتھی تب ریاست حیدرآباد کے ذی شعور افراد اردو زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ جن اکابرین  نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ دلچسپی لی ان میں نواب ارسطو جاہ بہادر اور نواب سکندر جاہ بہادر کے علاوہ نواب شمس الامراء اور کشن پرشاد شاہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ نواب مختار الملک ، سرسالار جنگ اور نواب شمس المراء کے اسماء گرامی اس لئے خصوصیت کے حامل ہیں کہ ان ہی کی کدوکاوش ، شخصی دلچسپی اور راست نگرانی میں دارالعلوم اور مدرسہ فخریہ کا قیام عمل میں آیا ۔ اول الذکر درسگاہ کا وجود ہی آگے چل کر دارالترجمہ اور جامعہ عثمانیہ کے قیام میں نقش اول ثابت ہوا۔