سید منصور آغا (نئی دہلی)
سپریم کورٹ کی ایک دورکنی بنچ نے 7 جولائی کو وشوا لوچن مدان کی اس عرضی کو خارج کردیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ دارالقضا،دارالافتاء کو شرعی فیصلوں اور فتوؤں کے اجراء ، قضاء و اِفتاء کی تعلیم وتربیت پر پابندی عائد کردی جائے۔ عرضی گزار کا کہنا تھا کہ یہ متوازی عدالتی نظام ہے۔ اس نے بدنام زمانہ ’’عمرانہ معاملہ ‘‘اور دو دیگر معاملوں کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دی تھی کہ فتوؤں سے شخصی آزادی پامال ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت نے بتایاکہ دارالقضا ء کے پاس قوت نافذہ نہیں ہے، وہ اپنے فیصلوں کو عدالتی فیصلوں کی طرح نافذ نہیں کراسکتا۔ اس کے فیصلوں کو قبول کرنا اختیاری ہے، اس لئے اس کو متوازی عدالتی نظام نہیں کہا جاسکتا۔اسی طرح فتویٰ کو قبول کرنا بھی اختیاری ہے۔ ایسا ہی موقف یوپی اورمدھیہ پردیش کی سرکاروں نے بیان کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میںاس موقف کو تسلیم کیا اور کہا ہے کہ دارالقضا ء مصالحتی یا ثالٹی ادارے ہیں۔ ان سے لوگوں کو کم خرچ میں انصاف ملتا ہے۔ ان میںفریقین اپنی مرضی سے جاتے ہیں۔ اگرکوئی فریق فیصلے کو تسلیم نہ کرے تواس پر کوئی جبر نہیں،اور نہ عدالت میں جانے پر روک ہے۔ مقدمہ میں مرکزی حکومت، کئی ریاستی سرکاروں کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ، امارت شرعیہ، دارلعلوم دیوبند کو بھی فریق بنایا گیا تھا اور ان کی طرف سے بھی تقریباً یہی موقف ظاہر کیا گیا۔
عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں ، جو 2,500 سے بھی کم الفاظ پر مشتمل ہے اس بنیاد پر کہ یہ متوازی عدالتی نظام نہیں ،ان کو غیرآئینی یا غیرقانونی قراردینے کی استدعا کو ٰخارج کردیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ ان مقصد نیک ہے۔ ان کی حیثیت ثالث یا مصالحت کنندہ کی ہے جو فریقین کے مذہب کی بنیاد پرکام کرتے ہیں ۔عدالت نے دوٹوک الفاظ میں کہا ’’مذاہب ، بشمول اسلام میں بے قصور کو سزا نہیں دیتے‘‘۔
فیصلہ میں عمرانہ معاملہ کا ذکرقدرے تفصیل سے آیاہے۔ ایک اخبار نویس کے سوال پر دارالعلوم دیوبند نے فتوا جاری کرنے میں جس ناعاقبت اندیشی کامظاہرہ کیا تھا ،اس پر عدالت نے بڑی دردمندی سے گرفت کی ہے اور قاضی اور مفتی کو یہ صائب مشورہ دیا ہے کہ انفرادی معاملات میں جب تک کوئی متعلقہ فریق خود رجوع نہ کرے، فتویٰ جاری نہیں کیا جانا چاہئے۔ البتہ اجتماعی امورمیں مسئلہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی غیرمتعلق فرد کسی ایسے معاملے میں فتویٰ پوچھتا ہے، جس کا اثر دوسرے لوگوں پر پڑتا ہے تو قاضی اور مفتی کو غورکرلینا چاہئے اور دیکھ لینا چاہئے کہ سائل کی نیت اور مقصد کیا ہے اورکیا ایسا فتوی جاری کرنا جس سے کسی کی زندگی متاثر ہوسکتی ہے ، غیر متعلق فرد کے پوچھنے پر جاری کرنا قرین ثواب ومصلحت ہوگا۔
یہ ایک معقول مشورہ ہے۔ اگر اس اُصول پر عدالتوں میں بھی عمل کیا جائے توان بھی بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہی کیس لیجئے۔ عرضی گزار وشوالوچن مدان قطعی ایک غیرمتعلق شخص ہے۔ شرعی عدالت کے کسی فیصلہ یا کسی مفتی کے فتوے سے عرضی گزار کا کوئی معاملہ متاثر ہونے والا نہیں۔ بظاہر اس کا تعلق کسی ایسے گروپ سے بھی نہیں جو مسلم خواتین کو غم گسار ہو۔ اگر مقدمہ رجسٹر کرتے وقت یہ اصول پیش نظر رہتا تویہ عرضی پہلے ہی مرحلے میں خارج ہوجاتی ، عدالت کا قیمتی وقت بچ جاتا اور اس کیس کی آڑ میں جو بے سروپا مہم میڈیا میں اٹھی ہے ، وہ نہ اٹھتی۔فاضل جج کے اس مشورہ پر امید ہے کہ دارالافتاء توجہ دیں گے۔ اس کی روشنی میں عدالتوں کو بھی یہ ہدایت جاری ہونی چاہئے کہ مقدمہ رجسٹر کرتے وقت عرضی گزارکا معاملہ سے تعلق اور اس کی نیت بھی پرکھ لیا کریں۔ مدان اس ذہنیت کے حامل معلوم دیتے ہیں جس کا منشاء ہے کہ مسلمانان ہند شرعی قوانین سے برگشتہ ہوجائیں، قانوناً ان کا نفاذ تو کیا ان کے بارے میں صحیح شرعی نقطہ نظر بھی سامنے نہ آئے۔
عدالت نے انسانی حقوق پر زد پڑنے کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یہ پہلو قدرے پیچیدہ ہے۔ جن حقوق انسانی کا حوالہ عموماًدیا جاتا ہے ان کی اساس مذہب بیزار عقلیت پسندی پر ہے۔ ان میں ہمارے معاشرے کی اخلاقی قدروں کا مطلق لحاظ نہیں کیا جاتا۔ مثلاہماری تہذیب اور ہمارے مذاہب میں بغیر شادی جنسی روابط کی کوئی گنجائش نہیں، ہمارے نزدیک جو چیز حرام اور گناہ ہے انسانی حقوق کے جدید علمبردار اس کے قائل نہیں اور کہتے ہیں کہ بس باہم رضامندی ہونی چاہئے۔ اسی اصول پر ہم جنس پرستی کی وکالت کی جاتی ہے اورماں، بہن اور بیٹی تک کے ساتھ منھ کالا کرنے کو روا سمجھا جاتا ہے۔ اسلام اس طرح کی بے حیائی اور بے غیرتی کو، فاسد انسانی حقوق کے حوالے سے قبول نہیںکرسکتا۔ اسلام نے 1400سال پہلے انسانی حقوق کا جو چارٹر انسانیت کو دیا ہے، اس کے مقابلے یہ جدید چارٹر ہیچ ہیں۔ جو اسلام کو سمجھتا ہے وہ افضل کو چھوڑ نہیں سکتا۔
اس کیس میں عمرانہ معاملے کا حوالہ بڑا تکلیف دہ ہے۔ بیشک اس معاملہ میں دیوبند سے چوک ہوئی ہے۔ایک حساس معاملہ پر جن مفتی صاحبان نے یہ فتنہ سامان فتوا جاری کیا شاید ان کی حس لطیف مردہ ہوچکی ہے۔جب تک شرعی قانون شہادت سے جنسی تعلق ثابت نہ ہوجائے ، حرمت مصاحرت کے فتوے کاجواز نہیں۔ رہاایک عورت کا الزام عائد کرنا، اس کو بھی قبول کرنے سے پہلے جانچنا پرکھنا تھا۔جو الزام ایک معمرشخص پرلگایا گیا ،وہ مشتبہ ہے۔یہ غلطی تو ہوئی۔ لیکن جہاں تک قرآن کی آیت مبارکہ تعلق ہے جو ایسی عورت کو مرد کیلئے حرام کرتی ہے جس سے اس کے باپ نے جنسی تعلق قائم کیا ہو، جس کا ذکر فیصلے میں بھی آیا ہے ،وہ ایک حتمی حکم ہے۔ اسلام کیا، کوئی بھی باغیرت انسان اس صورت کو گوارہ نہیں کر سکتا کہ ایک ہی عورت باپ اور بیٹے دونوںکے بستر کی شریک بن جائے۔ البتہ اس حکم کے اطلاق کے لئے ثبوت شرعی لازم ہے۔
دارالعلوم کو عدالت کویہ بھی بتادینا چاہئے تھا کہ اسلام میں بشرط ثبوت یا قبولیت زنا کی سزا رجم ہے، اور کیونکہ ملکی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ،اس لئے جوفتویٰ دیا گیا اس میںصرف فسخ نکاح کا ذکر ہے، رجم کا نہیں۔یہ ملکی قانون کی رعایت کی وجہ سے ہے۔ جبری زنا کے معاملہ میں تواب ہمارے ملک کا قانون بھی سزائے موت تجویز کرتا ہے۔ ہمارا دین باہم رضامندی سے زنا کے مرتکب کو بھی سخت سزا تجویز کرتا ہے۔عمرانہ معاملے میںبظاہر لگتا ہے کہ متاثر ہ خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے لیکن اس کا دوسرا اور غالب پہلو یہ ہے کہ الزام جھوٹا ہے تو پھر پورے خاندان کی جو رسوائی ہوئی اور شوہر کے والد کے ساتھ جو زیادتی ہوئی، وہ بھی کچھ کم نہیں۔
نرسوں کی واپسی
عراق کے اس خطے سے جس پر اب داعش کا قبضہ ہے 46ہندستانی نرسوں کی بحفاظت واپسی ایک اہم واقعہ ہے۔ نئی اعلان شدہ مملکت دولت اسلامیہ کے ارباب حل و عقد مستحق مبارکباد ہیں انہوں نے دشمنان اسلام کو اتہام تراشی کا موقع نہیں اور ان نرسوں کا بھی شکریہ جنہوں نے وطن واپسی پر کھلے دل سے اعتراف کیا کہ ان کے ساتھ داعش کے نوجوان فوجی رضاکاروں نے کوئی زیادتی نہیں۔ ا ن کے ساتھ اچھی طرح پیش آئے، ان کو اغوا کرکے نہیںرکھا گیا تھا بلکہ ان کی حفاظت کی تدبیر کی گئی تھی۔ داعش کے رضاکاروں نے ان کو سخت مشکل حالات میں بھی میدان جنگ سے نکال کر اربیل پہنچایا جہاں سے وہ بحفاظت وطن واپس آگئیں۔ حکومت ہند نے ہندستانیوں کو وطن واپس لانے کے لئے مطلوبہ انتظامات کئے اس لئے واپسی آسان ہوگئی۔ ہرچند کہ یہ آپریشن اس کے مقابلے میں معمولی ہے جو کویت پر عراقی حملے کے وقت اس وقت کے وزیر خارجہ اندرکمار گجرال نے کردکھایا تھا۔ وہ خودکویت چلے گئے تھے حالانکہ جنگ کے شعلے پوری طرح بھڑکے ہوئے تھے۔ اور ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو وہاں سے نکال لائے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے نرسوں نے واپسی پر جوآپ بیتی بیان کی اس پر میڈیا میں کوئی چرچا نہیںہوئی۔ ذرا غور کیجئے اگر ایک بھی واقعہ کسی طرح زیادتی کا ہوجاتا تو اسلام کو بدنام کرنے کے لئے کیا کچھ زور بیان نہ دکھایا جاتا۔
صفدر ناگوری
سیمی کارکنوں پرقائم سینکڑوں بے بنیاد مقدموں کی فہرست میں ایک کیس مدھیہ پردیش کے ضلع رائے گڑھ میں بھی 2008ء میں قائم کیا گیا تھا، جس میں سیمی کاسابق صدر صفدر ناگوری، ان کے بھائی قمرالدین کے علاوہ عامل پرویز، شبلی اور محمد علی کو ملزم بنایا گیا تھا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں قصبہ برسنگھ گڑھ اور نواح میں فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے کے لئے پوسٹر تقسیم کئے تھے۔ فروری میں یہ خبرآئی کہ ملزمان نے اپنا جرم قبول کرلیا ، حالانکہ قبول صرف اتنا کیا گیا وہ وہاں گئے تھے ،مگر غیرقانونی سرگرمی کا الزام غلط ہے۔ استغاثہ نے ان کے خلاف آٹھ گواہ پیش کئے اوران آٹھوں نے پولیس کی کہانی سے عدم واقفیت کا اظہار کیا جس کی بناء پر عدالت نے ان سب کو بری کردیا۔
دہشت گردی کے الزام میںمسلمانوں کو ملوث کرنے کے لئے ایک ایک نوجوان کو درجنوں معاملات میں ملزم بنایا گیا۔ ناگوری پر بھی کئی مقدمات قائم کئے گئے جن میں سے ایک یہ تھا۔ ابھی وہ اندور کی جیل میں ہیں۔ اب تک درجنوںکیسوںمیں سیمی کے سینکڑوں ملزمان کے خلاف مقدمات فرضی ثابت ہوچکے ہیں۔ مگر سابقہ سرکار اس پر بلاجواز پابندی کو طول دیتی رہی۔ پابندی کے خلاف جو عرضیاں سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہیںامید ہے کہ ان پر فیصلہ جلد ہوجائے گا۔ 3مئی کو چیف جسٹس آر ایم لودھا کی بنچ نے یہ حکم صادر کیا ہے ان سب کو یکجا کرکے14اگست کو ایک تین رکنی بنچ کے روبرو پیش کرنے کا حکم چیف جسٹس آر ایم لودھا، 3 مئی کو دے چکے ہیں۔ اُمید کی جانی چاہئے کہ اب اس معاملے کا فیصلہ ہوجائے گا۔