وہ فقط دو گز زمیں میں قید ہوکر رہ گیا
جو یہ کہتا تھا یہاں سب کچھ ہمارا ہے میاں
دادری قتل
نریندر مودی حکومت میں یہ ایک تباہ کن فرقہ پرستانہ رجحان ہے کہ جس کا جہاں جی چاہتا ہے مجمع لگاکر اپنا خونی کھیل کھیلتا ہے۔ دارالحکومت دہلی کے مضافات میں واقع بشاڈا گاؤں کے مسلمان بیف کھانے کی افواہوں پر ایک مسلم شخص کا قتل کرنے کے واقعہ سے خوف زدہ ہیں۔ اپنا گاؤں ترک کرنا چاہتے ہیں۔ گائے کا گوشت کھانے کی افواہوں کو بنیاد بناکر مسلم شخص کو زدوکوب کرنا اور اس کو ہلاک کردینا نہایت ہی گھناؤنی بربریت انگیز کارروائی ہے جس پر آج ریاستی و مرکزی سطح پر سیاسی تماشہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلم خاندانوں کی بے بسی پر سیاست کرتے ہوئے یوپی کی حکمراں پارٹی سماج وادی پارٹی اور مرکز کی بی جے پی نے قومی سطح پر اپنے حکمرانی کے فرائض کو افسوسناک رُخ دینے کی کوشش کی ہے۔ پولیس کے رول کو ہمیشہ مشکوک سمجھا گیا ہے۔ یہی پولیس دادری قتل واقعہ کی ہر زاویئے سے تحقیقات کررہی ہے۔ یہ پتہ چلایا جارہا ہے کہ آیا ہجوم کی کارروائی منصوبہ بند تھی۔ مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے پجاری نے گائے کا گوشت کھانے کی نشاندہی کرتے ہوئے مسلم خاندان کو برہم ہجوم کے سامنے کھڑا کردیا جبکہ پولیس میں درج ایف آئی آر میں گوشت کھانے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ برآمد کردہ گوشت گائے کا ہے۔ مہلوک شخص محمد اخلاق اور ان کے 22 سالہ فرزند دانش کو جس بے دردی سے زدوکوب کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرقہ پرستوں نے یہ کارروائی منظم طریقہ سے انجام دی۔ ہجوم کی مارپیٹ سے 50 سالہ اخلاق نے دم توڑ دیا تو 22 سالہ دانش شدید زخمی ہوا۔ گریٹر نوئیڈا کے ضلع گوتم بدھ نگر کے قریب موضع بشاڈا کے چند مسلم خاندان اس واقعہ کے بعد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ان کی بروقت امداد کرنے کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ دہلی سے قریب ہونے کے باوجود مرکزی حکومت نے خاطیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مؤثر حکم نہیں دیا۔ جب پولیس کا یہ دعویٰ ہے کہ گاؤکشی کا واقعہ حملہ آوروں کی جانب سے عائد کردہ الزامات کے سوا کچھ نہیں ہے تو پھر پولیس کو خاطیوں کے خلاف فوری سخت قدم اُٹھانا چاہئے۔ جس موضع کی آبادی راجپوتوں، مسلمانوں اور پرجانپتی (او بی سی) طبقہ پر مشتمل ہے وہاں کوئی منظم گروپ کام نہیں کررہا ہے تو پھر اس طرح کا واقعہ کیوں رونما ہوا۔ اس سوال کی تہہ تک جانا پولیس کا کام ہے جو نوجوان گروپ کی شکل میں جمع ہوکر اپنی طاقت دکھانا چاہتے تھے۔ ان کی سرپرستی کون کررہا تھا۔ یہ موضع قومی دارالحکومت ریجن کے تحت آتا ہے تو مرکزی حکومت کو اس واقعہ کا سخت نوٹ لینا چاہئے۔ دادری اور اس کے پڑوسی علاقوں میں گاؤکشی کی افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف بروقت کارروائی نہ کرنے سے شرانگیزی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس واقعہ سے چند دن قبل ہی چند ہندوؤں نے احتجاج کیا تھا تو پولیس نے اس کا نوٹ کیوں نہیں لیا اور افواہوں کی جانب توجہ نہ دینے کی وجہ سے مقامی عوام کو اُکسانے والوں کے حوصلے بڑھ گئے اور اُنھوں نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلایا۔ ایسے واقعات مودی حکومت کے لئے نئے نہیں ہیں لیکن ایک سیکولر ملک کو یوں ہی فرقہ وارانہ آگ میں جھونک دیا جاتا رہا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔ مرکز کی مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے اضطراب کو محسوس کرے۔ اس کی حکومت میں مسلمانوں کا قتل عام معمول کی بات بن جائے تو سیاسی تعصب سے پیدا ہونے والی خرابیاں بھیانک رُخ اختیار کرسکتی ہیں۔ ہندوستان اس وقت کئی نامساعد اور ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہے۔ اس کا اندازہ نہیں کیا جارہا ہے۔ قومی معیشت مسلسل دکھاوے کی سیاست کی جھولی میں جھول رہی ہے۔ مہنگائی اور کرپشن مودی حکومت میں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایسے میں عوام کے سامنے قتل اور فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو پھر جرائم کے واقعات کو روکنا حکومت کے لئے مشکل مرحلہ بن جائے گا۔ اقتدار کی تقسیم کا ایجنڈہ آر ایس ایس کے ہاتھ میں چلا گیا ہے تو ملک کی دفاعی و سلامتی کی صورتحال نازک پن سے دوچار ہوجائے گی۔ ابھی وقت ہے کہ ملک کی سیکولر پارٹیاں اپنے وجود کا احساس دلاکر حالات پر قابو پانے کی مشق کریں۔
ماحولیات پر حرکیاتی منصوبہ
ہندوستان میں فضائی آلودگی کے علاوہ آلودگی کے کئی دیگر مسائل ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود 2020 ء تک ماحولیات کو بہتر بنانے والے اقدامات کرتے ہوئے سال 2030 ء تک 33 تا 35 فیصد آلودگی کو کم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ عالمی سطح پر ماحولیات کو بہتر بنانے کے لئے جو پیمانہ ترتیب دیا گیا اس کے مطابق ہندوستان کو کافی محنت کرنی پڑے گی۔ تاہم برقی پیداوار میں صاف ستھری برقی پیدا کرنے کے عمل کو تیز کردیا جائے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم ہوگی کیوں کہ دھویں کی وجہ سے آلودگی کا سنگین خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ دھویں سے درخت اور جنگلاتی علاقہ سکڑ رہا ہے۔ فضاء میں پائے جانے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کردیا جائے تو انسانی صحت کے ساتھ سرسبز و شادابی کے ماحول کو بھی زندگی ملے گی۔ اس وقت ہندوستان میں ترقیات کے لئے جو کام انجام دیئے جارہے ہیں اس میں تاخیر کئے بغیر ماحولیات کا لحاظ رکھتے ہوئے فیکٹریوں اور دیگر کارخانوں سے نکلنے والے فضلاء کی نکاسی کا بندوبست کرنا اور ان فیکٹریوں سے خارج ہونے والے دھویں کی مضرت رسانی والے عنصر کو کم کرنا ضروری ہے۔ کاربن کے کم سے کم اخراج کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ موٹر سازی کے عمل میں عصری تکنیک استعمال کی جائے۔ ہندوستان میں موٹر گاڑیوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہونے سے کاربن کے اخراج کی مقدار میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے ماحولیات کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے۔ ہندوستان نے عالمی ادارہ UNFCCC کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں یہی عہد کیا ہے کہ وہ کاربن کے اخراج کی مقدار کو کم کرنے کے لئے متبادل اقدامات کرے گا۔ ملک بھر میں صنعتوں کا جال پھیلا ہوا ہے اگر یہاں سے گرین انرجی پیدا کی جائے اور فضلاء کے اخراج سے قبل فاضل یا گندہ پانی کی صفائی کے پلانٹ کی مدد سے آلودہ ہونے سے بچایا جائے تو کاربن کے اخراج اور آلودگی میں کمی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ آج ساری دنیا میں آلودگی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اور یہ آنے والے نسلوں کے لئے سنگین مسئلہ بنے گی اس لئے جنگی خطوط پر اقدامات ضروری ہیں۔