خیالات کی ندرت فکر کی وسعت اور جذبے کی شدت ڈاکٹر سلیم عابدی کی غزل کو لائق مطالعہ بناتی ہیں

سید جلیل ازہر
ادب کی دنیا میں علاقہ تلنگانہ کی سرزمین بہت زرخیز ہے ۔ یہاں اہل علم کی کثیر تعداد موجود ہے ۔ دور جدیدیت ہمارے شعراء جوہر کانپوری ہو کہ منور راناؔ غزلیں سنوانے میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ حالات حا ضرہ پر اشعار کے ذریعہ اپنی کاوشوں کا اظہار بیباکی سے کر رہے ہیں۔ غزل اردو شاعری کی بڑی محبوب و مقبول صنف ہے ۔ چار پانچ اشعار کہہ کر غزل کا قالب کھڑا کرلینا مشکل کام نہیں ہے ۔ غزل کہتے کہتے بہت سے شعراء کی عمر گزر جاتی ہے لیکن وہ اپنا رنگ قائم کرپاتے ہیں نہ آہنگ ۔ غزل کا رشتہ عوام سے ہے، جو شاعر عوام کی پسند نہ پسند سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، ان کے موضوعات اور مسائل کو غزل کے پیرہن میں پیش کرسکتا ہے ۔ وہ کامیاب شاعر ہے اور اس کی غزل بھی کامیاب ہے۔ اس معیار پر جناب سلیم عابدی کی غزلیں کھری نظر آتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کے بڑے بڑے شاعروں کے شہ نشین سے بین الاقوامی شعراء کرام نے یہ کہہ دیا کہ ہندوستان کا مرکز دلی ہے تو اردو کا مرکز حیدرآباد ہے ۔ ریاست میں اردو باصلایت شعراء و شاعرات کی کمی نہیں لیکن ہمارے شعراء کرام کو وہ مقام شاعری میں نہیں مل پایا جس کے وہ حقدار ہیں جبکہ ادیبوں کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ قوموں پر جب برا وقت آتاہے تو یہ ادیب ہی ہے جو اس ڈوبی نبض کو زندہ کرتا ہے۔ نئی روح پھونکتا ہے جیسے سلیم عابدی اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں  ؎
ہر گھڑی مجھ کو گناہوں کا خیال آتا ہے
میرے گھر مال جو آتا ہے حلال آتا ہے
اپنی اوقات سے ہٹا نہیں سیکھا ہم نے
انگلیاں اٹھنے سے عزت کا سوال آتا ہے
ڈاکٹر سلیم عابدی ایم فل ، پی ایچ ڈی جن کا مجموعہ کلام ’’ندائے حیات ‘‘ کے مطالعہ کے بعد راقم الحروف نے اس غزل کے شاعر پر کچھ لکھنے کی جسارت کی ہے ، اس لئے کہ انہیں کئی مشاعروں میں شریک ہونے کا انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ملک کے نامور شعراء کرام خمار بارہ بنکوی ، منور رانا ، کیفی اعظزی ، راحت اندوری جیسے شعراء کے ساتھ کل ہند مشاعروں میں شرکت کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں جبکہ ا کثر یہ دیکھا گیا کہ ایک کامیاب شاعر کبھی کامیاب ناظم مشاعرہ نہیں ہوسکتا لیکن اس مثال کو ڈاکٹر سلیم عابدی نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ غلط ثابت کردیا ۔ اس لئے کہ انہوں نے کئی مشاعروں میں غزل سناکر داد حاصل کی تو کئی موقعوں پر نظامت کے ذریعہ سامعین کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان کی فکر اور سوچ ان اشعار میں ملے گی۔
ستم والے ستم کو عشق کا حاصل سمجھتے ہیں
ستم کو ہم مگر اک پیار کی منزل سمجھتے ہیں
کوئی ساحل پہ طوفاں کے تصور سے پریشاں ہے
مگر اک ہم ہیں جو طوفاں کو بھی ساحل سمجھتے ہیں
ڈاکٹر سلیم عابدی کے مجموعہ کلام ’’ندائے حیات‘‘ کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جناب کی غزل کوئی مسلسل تلاش و جستجو کی شاعری ہے ۔ ذات کی تلاش ، کائنات کی تلاش ، معیار کی تلاش منزل کی تلاش اور اس تلاش میں ان کے قدم مسلسل رواں دواں ہیں جس کے نتیجے میں وہ آج کے روح فرسا حادثات قدروں کی شکست تہذیبوں کے زوال اور انسان کی بے چارگی کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے۔
بلندیوں پہ ہیں پنچوں پہ کھوج ہے میری
ہے فکر یاروں کو ہر دم مجھے گرانے کی
جناب سلیم عابدی رہتے محبوب نگر میں ہیں لیکن شہر سے دور ہوتے ہوئے بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے والے محبان وطن اپنے قلم کے ذریعہ قومی زبان اردو کی خدمت کرتے رہیں تو یہ بہت بڑی خدمت ہے ۔ سلیم عابدی کے کلام میں پیغام ہے ، زندہ رہنے کیلئے اور بہت نہ ہارنے کیلئے وہ سمجھتے ہیں کہ راہ میں آنے والی مشکلات کے باو جود اپنے حوصلے کو بلند رکھنا چاہئے ۔ اس لئے کہ حوصلہ ہار جانے والے لوگ کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔ اس طرح جو لوگ اپنے کردار کو داغ دار کرلیتے ہیں ، وہ اپنے لئے بھی اور اپنے رفقاء کیلئے بھی رسوائی کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عابد نے کردار اور حوصلے کو اپنے کلام میں بڑی اہمیت دی ہے۔
ہے یہ اندازہ مجھے کتنا خطا وار ہوں میں
میرے مالک تری رحمت کا طلبگار ہوں میں
تونے بخشا ہے فقری میں بھی مسند کا نشہ
ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ زردار ہوں میں
حوصلہ کی بات آتی ہے تو ان کے جذبات اور احساسات کا اندازہ ان اشعار میں ملتا ہے۔
زہر میں ڈوبا ہوا جشن منانے والو
ذہن میں شہر کی بربادی کا منظر رکھنا
اپنے حالات سے لڑنے کا سلیقہ سیکھو
تم کو جینا ہے تو دل میں نہ کوئی ڈر رکھنا
سلیم عابدی کی شاعری میں عشق کی جادوگری بھی ہے اور حقائق کے سنگلاخ سے ٹکرانے کا عزم بھی ہے ۔ انقلاب کی زد میں آیا ہو زمانہ اس نسل کو رشتوں کا جو کرب دے رہا ہے ۔ اس پر غم و غصے کا اظہار بھی ہے ، انسانیت کا احترام بھی ۔
کبھی ساغر کبھی ساقی کی آنکھوں سے میں پیتا ہوں
بڑے کم ظرف ہیں جو تشنگی کی بات کرتے ہیں
شرافت کے تقاضوں نے کیا مجبور یوں ہم کو
ہم اکثر دشمنوں سے دوستی کی بات کرتے ہیں
میری دعائیں ہیں کہ ڈاکٹر سلیم عابدی اردو شاعری کو انمول خزانے سے تزئین کریں۔ میں ان کی روز افزوں ترقی کیلئے دعا گو ہوں۔