ڈاکٹر مجید خان
خیالات حاضرہ کا جائزہ لیں تو کس طرح؟ اِن کو بھانپنے میں روایتی عقل سلیم گھٹنے ٹیک دے رہی ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے نئی حکومت کارفرما ہے۔ اس کے اب تک جو کارنامے ہم نے دیکھے ہیں اُن میں بعض لاجواب ہیں۔ جس طرح سے میں نے گزشتہ مضمون میں ذکر کیا تھا کہ مرکزی حکومت یعنی نریندر مودی اپنے قلم کی ایک جنبش سے سارے عوام کو اپنے صداقت ناموں کے نقول پر نوٹری یا Notary گزیٹیڈ عہدیداران کی دستخطوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ کتنی بڑی راحت عوام کے لئے ہے اُس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔ منسٹروں وغیرہ پر پابندیوں کے تفصیلات کے تعلق سے میں لکھ چکا ہوں، عوامی نمائندہ کی رشوت خوری پر الیکٹرانک ذرائع سے نظر رکھی جائے گی۔ یہ صرف اس لئے کہ نریندر مودی حکومت اس ملک کو انفرادی رشوت خوری سے پاک کرنا چاہتی ہے۔ اقرباء پروری، ذاتی ملکیت میں اضافہ، تبادلوں، تقررات اور اپنے زیراثر وزارت کے اثر و رسوخ سے اپنے ایجنٹوں اور دلالوں کے جال سے ملک کی معیشت کو برباد کرتے ہوئے خود مستفید ہونا اب مشکل ہوگا۔ ان سب اصلاحی انقلابی اقدامات سے ظاہر ہے ملک معاشی طور پر مستحکم ہوگا اور اس کا فائدہ عوام ہی کو ہوگا جس کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔ مثلاً سرکاری ملازمین کی بہتر کارکردگی، نقل و حمل، سڑکوں سے لے کر ریلویز وغیرہ کے کام میں سدھار، تیز رفتار ریل گاڑیاں، پانی اور بجلی کی بہتر سپلائی، بہتر صحت عامہ اور علاج اور اسی طرح کے کئی فلاحی کاموں کیلئے پیش قدمی دکھائی دے رہی ہے۔ اس حد تک تم ہم مانتے ہیں کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔
مگر مسلمانوں کیلئے مشکل کے دن آنے والے ہیں۔
اس کو سمجھنے کیلئے مودی کی بنیادی شخصیت، اُن کے غور و فکر اور اُن کی نظریاتی فکر، خیال پرستی اور اُن کی خاص گروہ سے وابستگی اور ہندو بنیاد پرستی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہی اُصولوں کی فضاء میں وہ پرورش پائے ہیں۔ ہندو راشٹرا مودی کا عقیدہ ہے۔ گجرات میں تو اُن کی حکومت ناقابل تسخیر ہوکر رہ گئی ہے۔ 2002 ء کے گجرات کے فسادات کے بعد سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ مودی اب کھلے عام ایسی غلطی کبھی نہیں کریں گے۔ مگر ان فسادات کے بعد ایک بات جو سب لوگ جاننے لگے ہیں کہ مودی ہندو قوم پرور ہیں اور اُنھیں غیر ہندوؤں سے نہ تو کوئی ہمدردی ہے نہ لگاؤ۔ دو مہینوں میں یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے اور آئندہ چند ماہ میں ان کے عزائم اور واضح ہوجائیں گے۔
جیسا کہ میں نے پچھلے مضامین میں لکھا ہے مودی 2000 سالوں کی غلامی سے ملک کو پاک کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ مغلیہ دور کے پہلے جو بھارت تھا اُس طرح کا بھارت یہ بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی ہندو راشٹرا جس میں اونچے طبقے کے ہندوؤں کو فوقیت حاصل رہے گی۔ علانیہ یہ نہیں کہتے لیکن اشارتاً کنایتاً ان خیالات کا اظہار ہوجاتا ہے۔ ان کا واحد مقصد تمام ہندوؤں کو متحد کرنا ہے۔ اس قسم کا اتحاد گوکہ عملاً ممکن نہیں ہے مگر اُن کی مسلم مخالفت یا دشمنی کی حکمت عملی جو گجرات سے شروع ہوئی اب سارے ہندوستان میں پھیل چکی ہے۔ گجرات میں تو وہ علی الاعلان مسلم دشمن پالیسی پر عمل پیرا رہے اور اپنی پکڑ کو سخت مضبوط کرلیا۔ اُن کا ایک ہی آسان کامیابی کا فارمولہ ہے اور وہ ہے ہندو اکثریت کو سب پر غالب آنا چاہئے۔خیر اپنی واضح اکثریت کے ساتھ وہ دہلی میں ایک مغرور فاتح کی طرح مسلط ہوگئے ہیں اب کوئی طاقت انھیں اکھنڈ بھارت بنانے سے روک نہیں سکتی۔ اُن کی نظر اب یوپی، بہار اور مغربی بنگال اور اڈیشہ جیسی ریاستوں پر ہے جو کارڈ بورڈ کے محلوں کی طرح گرسکتے ہیں۔ ٹامل ناڈو اور کیرالا کے تعلق سے تو کچھ کہنا مشکل ہے مگر آندھرا اور تلنگانہ کو خطرہ ضرور ہے۔کرناٹک تو ہمیشہ سے ایک موقع پرست ریاست رہی ہے اور وہ سیاسی تھالی میں بیگن کی طرح ہے۔ صرف مہاراشٹرا کی سیاست ہی مودی کو چیلنج کرسکتی ہے۔
حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور اس میں مسلمانوں کا موقف خاص طور سے سیاسی اور پھر سماجی کمزور پڑتا جارہا ہے۔ ہندوستان میں رہنا ہو تو دوسرے درجے کی قومیت کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آرہا ہے۔
امیت شاہ، مودی کے دست راست ہیں اور مسلمانوں کے خلاف سارے ہندوؤں کو متحد کرنا اُن کا کامیاب انتخابات جیتنے کا حربہ ہے۔ یوپی کے فسادات ان تمام تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہیں۔ ہر روز ایک نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ موہن بھاگوت کا خطرناک بیان کہ ہندوستان میں رہنے والے سب ہندو ہیں کافی شور میڈیا میں پیدا کیا مگر وہ اب اتنے طاقتور ہوتے جارہے ہیں کہ اُن کو کسی قسم کی مخالفت کی پرواہ نہیں ہے۔
مگر مودی خاموش ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب ایک سوچی سمجھی، بہت ہی منظم مربوط حکمت عملی ہے۔ روز بروز جارحانہ ہوتی جارہی ہے۔ مودی کی حکمت عملی الگ ہے۔ وہ ایک رشوت سے پاک ہندوستان اور نظم و نسق کا بہترین نمونہ پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگ وہ تکالیف محسوس نہ کریں جن کے وہ تقریباً 60 برسوں سے عادی ہوگئے تھے۔
مودی ایک کامیاب ہندو مت کے مبلغ ہیں اور اُن کے ہتھیار عصری ٹیکنالوجی مثلاً سوشیل میڈیا سے لیس ہیں۔ ایک بار وہ جب سارے ہندوستان پر حکومت کرنے لگ گئے تو آر ایس ایس کے وچار قوم کے وچار دھارا ہوجائیں گے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کا کوئی وزن نہیں ہوگا۔ وہ ہندو راشٹرا کی رعایا میں شمار کئے جائیں گے۔ اکثریت کے رحم و کرم پر اقلیتوں کو زندگی گزارنی پڑے گی۔
مدرسوں اور اقلیتی تعلیمی اداروں پر پابندی لگائی جائے گی اور اُن کی خصوصی شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوں گے کیونکہ حکومت انہی کی ہوگی۔ ہندوستان میں شہروں میں رہنے والوں کی نفسیات دیہاتوں میں رہنے والوں کی نفسیات سے جدا ہے۔ دیہاتوں میں مسلمان بچے انجانے طور پر ایک ہندو ماحول میں پرورش پائیں گے کیونکہ بہتر تعلیمی سہولتیں سرکاری مدارس میں ہوں گے جو ہندو راشٹرا کے اُصولوں پر چلائے جائیں گے۔
اس کے بعد میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کیا عام مسلمان کا موقف آج بھی پہلے درجے کے شہریوں کی طرح ہے۔ سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات پر غور کریں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ میں ایک انتہائی مگر ممکنہ مستقبل کے حالات کی طرف اشارہ کررہا ہوں اور یہ غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ اچھا ہو غلط ثابت ہوں۔ مگر ہم کو چاہئے کہ غیر جذباتی انداز میں ’’خیالات حاضرہ‘‘ کا مختلف زاویوں سے مسلسل جائزہ لیتے رہیں۔
مودی کے کئی عزائم ہیں۔ اُن کے خیالات کی پرواز کا کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا۔ شعلہ بیانی میں وہ غالباً واجپائی صاحب سے بھی آگے ہیں۔ اب دیکھئے پرتپاک انداز میں نواز شریف سے ملتے ہیں مگر ہندوستانی مسلمانوں کو عیدالفطر کی مبارکباد تک بھی نہیں دیتے۔
اس معمولی عمل کی گہری نفسیات پر غور کیجئے۔ اُن کے خیالات اور اُن کی زبان اُن کی دولت ہے۔ ظاہر ہے اُن کو مشورہ دیا گیا ہوگا کہ عید کی مبارکباد دینا ایک خوشگوار روایت ہے، مگر مودی کیسے اپنے قیمتی الفاظ مسلمانوں پر رائیگاں کریں گے۔یعنی اُس شخص میں انسانی ہمدردی جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ سنگ دل ہے۔ مودی نے اڈوانی، جسونت سنگھ وغیرہ کا جو حشر کیا وہ سب دیکھ رہے ہیں۔
مودی کی شخصیت ہمہ رخی ہے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمدردی سے کامیاب حکومتیں نہیں چلائی جاسکتیں۔ اُن کی شخصیت کے کئی ذیلی شخصیتیں ہیں۔ مثلاً وزیراعظم کیلئے جو کامیاب شخصیت کی ضرورت ہے وہ استعمال کرتے ہیں۔ ہندو راشٹرا کے نظریاتی اُصولوں پر عمل کرنے کیلئے علحدہ شخصیت کی ضرورت ہے کسی سے کوئی پریم، محبت، لگاؤ یا مروت نہیں ہے۔
یہ میرے خیالات حاضرہ ہیں مگر ساری دنیا کے موجودہ حالات پر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک مضبوط جمہوریت میں جہاں پر بڑی حد تک غیر جانبدار میڈیا موجود ہے ایسے حالات ممکن ہو پیدا نہ ہوں۔
مودی کی نفاست پسندی نہ صرف اُن کے لباس میں ہے بلکہ خیالات میں بھی ہے۔ اُن کی سوچ میں شکوک کی گنجائش نہیں ہے۔ مگر ایسی شخصیات اپنے اطراف نہ صرف جانباز اور وفادار مہرے پیدا کرلیتی ہیں بلکہ اپنے آمرانہ رویے سے مشیروں مخلص افراد کی صحبت سے احتراز کرنے لگتی ہیں۔ جو اُن کی تنہائی کو بڑھاتا ہے۔
اور سب سے دور کرتا جاتا ہے۔
ان تمام مسائل کا جائزہ لینے کے بعد مسلمانوں اور مذہبی اداروں کے سربراہان کو خاص طور سے وہ جو دور دراز مقامات پر ہیں یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اپنے اپنے حلقوں میں ذی اثر غیر مسلم حضرات کی ایک جماعت بنائیں جو آپ کو سماجی آہنگی میں مدد دے اور آپ کی ہمدرد ہو ان کو اچھا مقام دیجئے ان کی قدر کیجئے۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ غیر مسلم احباب کے حلقے کو وسیع سے وسیع تر کریں تاکہ تعصب کم ہو۔