خِفّت یا عارضہ

ڈاکٹر مجید خان
ڈاکٹری علاج میں عظیم انقلابات آرہے ہیں ۔ ڈاکٹروں کی قلت اور مریضوں کی بہتات کی وجہ سے مریضوں اور ان کے رشتے داروں کو اہم معلومات دستیاب نہیں ہورہی ہیں ۔ تعلیم یافتہ لوگ google سے جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،مگر غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں۔ بسا اوقات صرف کیفیت سننا ، تحقیقی امتحانات کروانا اور نسخہ لکھنا ہی ڈاکٹر کا فرض بن جاتا ہے ۔ بیک نظر مریض اور اس کے رشتہ داروں کی تشویش کو سمجھنا اور ان کو اہم معلومات کا پہنچانا ایک ضروری عمل ہے ،جس کو اکثر ڈاکٹر نظر انداز کرتے ہیں ۔ میرا طرز عمل مسلسل بدلتا رہتا ہے ۔میں یہ مانتا ہوں کہ مریض اور اس کے رشتے داروں کو صحیح صورتحال کا علم ہونا چاہئے ۔ نہ صرف یہ علاج کیلئے ضروری ہے بلکہ گھر پر مسلسل دیکھ بھال کا اہم جزو ہے ۔

اب میں یہاں پر اپنے دواخانے کے خاص مریضوں کی تفصیلات بیان کرنا چاہوں گا ،جس سے کم از کم کچھ حد تک میری حجت سمجھ میں آئے گی ۔ کئی موضوعات پر میں نے کتابچے انگریزی میں تیار کئے ہیں اور یہ انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں ۔ انگریزی میں اس لئے شائع کیا ہوں کہ گھر میں کوئی نہ کوئی تو انگریزی سے واقف ہوگا ہی ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلسل اخبار ’’سیاست‘‘ میں تو ہر اتوار کو میرے مضامین چھپتے ہی ہیں ۔ میرے قدیم احباب ماہرین نفسیات جو میرے ساتھ کام بھی کرچکے ہیں افسوس کرتے ہیں کہ انہیں بھی میری تقلید کرنا چاہئے تھا مگر کر نہ سکے ۔

اب بھی میں مسلسل اپنے ماتحتین کو تاکید کرتا ہوں کہ اپنے مشاہدات کو قلمبند کریں ،مگر ہو نہیں رہا ہے ۔ بے چینی ایک ایسا عام مرض ہے جس کو ہم دور ہی سے پہچان لیتے ہیں اور سب سے پہلا سوال ایسی کیفیت کے بارے میں کرتے ہیں مگر بیچارے رشتے دار اس کو ایک ایمرجنسی ہی سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ اس عام منظر کو الفاظ میں ڈھالنا کتنا مشکل ثابت ہورہا ہے وہ میں ہی جانتا ہوں ۔ یہ کیفیتیں بڑھ رہی ہیں ،اس لئے ان کے تعلق سے لوگوں کی آگہی ضروری ہے ۔

علی الصبح پریشان رشتے دار ادھیڑ عمر کے بظاہر مہذب مریض کو دواخانے لے آتے ہیں ۔ عزت دار رشتہ دار ، سنجیدہ اولاد اور فکر مند زوجہ ۔ کئی رشتے دار جن کے چہروں سے ان کی نیکی ، دینداری اور پارسائی عیاں ہوتی ہے ۔ اپنے عزیز رشتہ دار کی علالت کی خبر سن کر دوڑے دوڑے دواخانے کو آتے ہیں مگر ہمارے مہاشے مریض ہیں جو دنیا و مافیہا سے بے خبر ۔نہ توکسی کے سلام کا جواب دیتے ہیں نہ کسی سے ہاتھ ملاتے ہیں نہ مسکراتے ہیں ۔ سارے رشتہ دار بے چین ہوجاتے ہیں کہ ان کے اتنے صحتمند رشتہ دار کو آخر کیا ہوگیا ہوگا ۔ دماغی مرض سمجھ کر ہمارے پاس دوڑے آتے ہیں ۔
مریض کو کسی بات کا ہوش نہیں ۔ کرتا ایک طرف تو پائجامہ دوسری طرف ۔ اگر ان کو سعادتمند نوجوان رشتہ دار نہ روکیں اور سنبھالیں تو نہ جانے کہاں غائب ہوجائیں گے ۔ سب سے پیچھا چھڑا کر بھاگنے پر تلے ہوتے ہیں ،جیسے کہ کوئی ان کو زبردستی روک رہا ہو ۔ سیدھے چل نہیں سکتے ، رشتہ دار ان کو سنبھال رہے ہیں ۔ اس کشمکش میں سارا جسم پسینے میں شرابور ہوجاتا ہے ۔ مجال کہ کسی ڈاکٹر کو قریب آنے دیں ۔ گھر والے پریشان ہیں کہ اچھا خاصا انسان آخر کس بلا کا شکار ہوگیا ہے ۔ جب مریض سے تفصیلی کیفیت ملنے کے آثار نظر نہیں آتے ہیں تو رشتہ داروں سے پوچھا جاتا ہے تو موصوف بیچ میں دخل دیتے ہیں اور اناپ شناپ بکنے لگتے ہیں جس کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر ۔ بے خیالی کی باتیں کرتے ہیں ۔
پھر دھڑام سے وہ گرجاتے ہیں اور مرگی نما دورہ شروع ہوتا ہے ۔ ہاتھ پیر مارنے لگتے ہیں ۔ زبان کتر جاتی ہے خون بہنے لگتا ہے ۔ پیشاب قطع ہوجاتا ہے ۔ رشتے دار اطمینان کی سانس لیتے ہیں کہ کم از کم تشخیص تو ہوگئی اور اب مرگی کی بیماری کا علاج شروع ہونا چاہئے ۔ بیوی کہتی ہے کہ پہلی مرتبہ دورہ آیاہے ۔ زیادہ عمر میں جو دورے آتے ہیں اکثر وہ دماغ میں رسولی کی وجہ سے ہوا کرتے ہیں ۔ اس کا شبہ ہوا مگر جب ہوش آیا تو ہیجانی کیفیت عود کر آتی ہے اور مریض کئی لوگوں کے پکڑنے سے بھی بے قابو ہوجاتا ہے ۔
مریض کی کم از کم نبض ، دل کی حرکت اور بلڈ پریشر تو لینا ضروری ہوتا ہے تاکہ بے چینی کی کوئی مناسب دوا دی جاسکے مگر اس دھینگا مشتی کی حالت میں گولی کھلانا بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ لہذا خواب آور انجکشن دینا ان حالات میں ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ بغیر ان کا ای سی جی اور بلڈ پریشر دیکھے نیند کا انجکشن دینا مصیبت مول لینا ہے ۔ رات بھر کی جد وجہد کے بعد جب سکون کا انجکشن اندھا دھند دیا جاتا ہے تو یکلخت دل کی حرکت بند ہوسکتی ہے اور لینے کے دینے پڑجاتے ہیں ۔ پورے رشتہ دار اصرار کرتے ہیں کہ فوری انجکشن دیا جائے ۔ دوسرے دواخانے جانے کا مشورہ دیاجاتا ہے تو قابل قبول نہیں ہوتا ۔ خطرناک کیس کے علاج اور اس کے ممکنہ مضر نتائج کے قبول نامے پر بھی دستخطیں بلاجھجک کردیتے ہیں ،کیونکہ وہ خود بھی تھک چکے ہوتے ہیں اور صرف چند گھنٹے سونا چاہتے ہیں ۔

ہم روزانہ ایسے کیسس مسلسل دیکھا کرتے ہیں اس لئے ہمارے لئے کوئی تعجب خیز مسئلہ نہیں ہوتا ۔ یہ سمجھئے کہ مریض بحرانی کیفیت میں چلا گیا اور اکثر ایسی کیفیت تیز بخار کی حالت میں ہوا کرتی ہے ، مگر ان مریضوں میں بخار کی کیفیت بھی نہیںہوتی ،بلکہ ٹھنڈی کیفیت ہی رہا کرتی ہے ۔ نہ صرف ہاتھوں میں رعشہ بلکہ پورا جسم متحرک ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے چلنا مشکل ہوجاتا ہے اور جسم کا توازن برقرار نہیں رہتا ۔ اب اس حالت میں نیند کا انجکشن دیا جائے اور دل کی حرکت بند ہوجائے تو سب یہ کہتے ہیں کہ انجکشن کی وجہ سے موت ہوگئی اور الزامات اور قانونی چارہ جوئی کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے ۔ اس لئے مریض کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں کو تو اس مرض کے تعلق سے سمجھانا ضروری ہوگیا ہے جس کے لئے میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔
مگر ہم پورے اطمینان کے ساتھ اپنی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں اور معتبر رشتہ داروں کو صف اول میں کھڑا کرکے تفصیلات کرید کرید کر پوچھتے ہیں تو خاطر خواہ جواب یہی ملتا ہے کہ اچھے خاصے تھے کام پر جارہے تھے مگر دو دنوں سے نیند ختم ہوگئی ۔ بے قراری اور اضطراب شروع ہوگیا ۔ غذا حتی کہ پانی تک بند ہے ۔ آج تک کبھی بیمار نہیں ہوئے ۔ کبھی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑی ،اس لئے ہم نہیں جانتے کہ ان کو بلڈ پریشر ، یا دل کی بیماری یا پھر ذیابیطس کی شکایت ہے یا نہیں ۔
ہم ایک ہی سوال پوچھتے ہیں ۔ شراب کا استعمال کتنے دنوں سے بند ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہیکہ سب کو سانپ سونگھ گیا ۔ معتبر حضرات قریبی گھر والوں کی طرف استفساری اور الزام بھری نظروں سے دیکھتے ہیں تو بیوی آگے آکر دلیرانہ انداز میں کہتی ہے کہ وہ تو چھوڑ کر زمانہ ہوگیا ہے ۔ اب تو اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ آپ براہ مہربانی فی الوقت کی کیفیت کا علاج کریں ۔ پڑھی لکھی اولاد کے سر دوسروں کے سامنے شرمندگی سے نگوں ہوجاتے ہیں ۔ متقی اور پرہیز گار لوگ پیچھے چلے جاتے ہیں ۔ جب یہ پوچھا جاتا ہیکہ کتنے دنوں سے یہ پینا موقوف کردئے ہیں تو صحیح جواب نہیں دیا جاتا ۔ بہرحال کافی کوششوں کے بعد یہ پتہ چلتا ہیکہ صرف آٹھ دن سے ۔
اب جب ہم ان سے کہتے ہیں کہ یہ پرانے شرابی ہیں اور سالہا سال چھپ چھپ کر شراب پینے کی وجہ سے جگر متاثر ہوچکا ہے اور خون میں زہریلا مادہ پیدا ہورہا ہے جس کی وجہ سے یہ کیفیت ہوتی ہے ،جو مہلک ثابت ہوسکتی ہے ،تو ان لوگوں کو یقین نہیں آتا ۔

وہ سب لوگ شراب کی علت کو مخفی رکھنا چاہتے ہیں اور صرف ان کی ناقابل برداشت بے حسی کا وقتی علاج چاہتے ہیں ۔ صرف یہ چاہتے ہیں کہ بے خوابی اصل وجہ ہے اور نیند کا انجکشن دے دیا جائے تو وہ ٹھیک ہوجائیں گے ۔ شراب کے استعمال کے تعلق سے سب کو علم ہوجائے تو رشتے دار نہیں آئینگے ۔
ہمارے علاج کیلئے ضروری ہوتا ہیکہ شراب کی عادت کی تفصیلات پہلے پوچھی جائیں یعنی کتنے سالوں سے استعمال جاری ہے ، کتنی پیتے ہیں ، کیا پیتے ہیں ، کیا صبح سے پینا شروع کرتے ہیں یا صرف شام میں ۔ اکیلے پیتے ہیں یا پھر دوست احباب کے ساتھ ۔ اس طرح کی تفصیلی تفتیش علاج کیلئے ضروری ہے مگر جاننے والے تفصیلات بتانے سے کتراتے ہیں ۔
یہ ایک انتہائی سنگین سماجی مسئلہ بنتا جارہا ہے ۔ مضمون کو طوالت نہ دینے کیلئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ خواہشمند حضرات اس موضوع پر مزید تفصیلات اردو انگریزی اور تلگو میں کتابچہ بلامعاوضہ چند دنوں کے بعد سٹی نرسنگ ہوم سے حاصل کرسکتے ہیں ۔