خوشگوار صبح ہونے کو ہے

سعید حسین
شام ڈھلنے کا کتنا حسین منظر تھا صبح سے تھکا ہارا سورج شام ہوتے ہوتے مغرب میں ڈوبنے کی طرف رواں دواں تھا اور رات کے شروع ہونے کا ابتدائی منظر آسمان میں سنہری دھوپ اور اندھیرے کا امتزاج بہت دلکش منظر پیش کررہا تھا۔ذیشو اس حسین منظر کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی وہ بڑی گہری سوچ میں غرق تھی۔ ذیشو کے مکان کا وسیع اور خوبصورت لان جس میں ہمہ اقسام کے پھول اور پھل لگے ہوئے تھے۔ لان کے ایک کونے میں ایک خوبصورت سا ٹی ٹیبل بڑے سلیقہ سے رکھا ہوا تھا۔ لان کی دوسری طرف ایک خوبصورت سا جھولا تھا جس میں وہ اپنے دل کے ٹکڑوں کو بٹھا کر جھلاتی رہتی ہے اور ان انمول جگر کے ٹکڑوں کو گانے گا کر لوریاں سنا کر کھانا کھلایا کرتی ہے۔اچانک ذیشو کے بدن میں جھرجھری پیدا ہوئی اور وہ ماضی کے تخئیل سے نکل کر حال کی فکر میں کھو گئی اور اپنے ماضی اور حال کے جھولے میں جھکولے کھا رہی تھی وہ اپنے حال اور مستقبل کی کشمکش اور گہری سوچ میں غرق چکی تھی۔

میں اچانک مین گیٹ سے لان سے گذر کر ذیشو کی طرف آکر خاموش اس خوبصورت منظر کا لطف لے رہا تھا۔ اتنی فکر مند ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے چہرہ سے اپنی پریشانی اور فکر مندی کو چھپانے کی کوشش کررہی تھی۔ اس کیفیت میں بھی وہ بڑی حسین لگ رہی تھی‘ میں پیچھے سے جا کر اپنے دونوں ہاتھوں کو ذیشو کی آنکھوں پر رکھ دیتاہوں۔ میرے ہاتھوں کی گرمی سے ذیشو کے جسم میں ایک حرارت سی دوڑ گئی اس نے اپنے نرم اور گداز خوبصورت ہاتھوں سے میرے ہاتھوں کو ہٹانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
کہنے لگی کون‘ میں خاموش رہا وہ چلانے لگی کس بدتمیز نے مابدولت کو چھونے کی گستاحی کی ہے۔ جانتے ہو اس کی سزاء کیا ہوگی۔ ہاں میں جانتا ہوں اس جرم کی سزاء عمر قید ہے اور میں اسی سزاء کا مستحق ہوں۔ جب ذیشو کے کانوں میں میری آواز رس گھولنے لگی اس نے مضبوطی سے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے تھام لیا وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھی اور اس لمحے کو وہ پو ری طرح اپنی ذات میں چھپا لینا چاہتی تھی۔ میں نے کہا جانِ من اس خطاکار کو اب سزاء نہیں دوگی وہ میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر پلٹ کر میری آنکھوں کو گھورنے لگی۔ وہ کتنا حسین منظر تھا۔ ان آنکھوں میں کتنا پیار تھا۔ ٹھنڈک تھی پیاس تھی۔ تمنا تھی اور ایک آس تھی۔ وہ دھیرے سے میرے ہاتھوں کو چومنے لگی۔میرے جسم میں برق سی دوڑنے لگی میں دل ہی دل میں بہت خوش تھا۔ خاموشی کو توڑتے ہوئے اس نے کہا کب آئے ہو میں تو اپنے تاریک ماضی میں گم تھی مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ آپ کو انتظار کرنا پڑا۔ میں نے کہا تم کسی گہری سوچ میں غرق تھی میں نے تمہیں اس وقت ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے کہا کیوں کھڑے ہو آؤ میرے قریب بیٹھ جاؤ میں اس قابل نہیں کہ آپ کے قریب بیٹھوں۔ اس نے کہا ‘کیا مطلب یہ کیسی باتیں کررہے ہو۔ تمہارے لئے تو میرے گھر کے اور دل کے دروازے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں جب چاہو جس وقت چاہوآسکتے ہو۔ تم میرے اپنے ہو۔ میں نے کہا پھر تم اس رشتہ کو کوئی نام کیوں نہیں دیتی۔ اس نے مسکرا کر اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا ہے وہ بھی کیا دلکش منظر تھا۔ اچانک بارش کی بوندیں گرنی شروع ہوتی ہیں۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ذیشو کے دوپٹہ سے اٹھکھیلیاں کھیل رہے ہیں اور دوپٹہ بار بار شانہ سے نیچے ڈھلک رہا ہے سینہ کا حسین زیروبم دعوت نظارہ دے رہا ہے میں اس حسین نظارہ میں کھو جانا چاہتا ہوں پھر میں نے کہا تیز بارش ہونے کے آـثار ہیں۔ چلو اندر بالکنی میں بیٹھ کر ہم بارش کا نظارہ کریں گے اور اس دو آتشہ شراب کو قطرہ قطرہ پئیں گے۔ ذیشو نے کہا مجھے بارش اچھی لگتی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس بارش میں مدہوش ہوجاؤں۔ اور اس دلکش منظر کو اپنی آنکھوں کے ذریعہ دل اور دماغ میں چھپالوں۔

مزا برسات کا چاہو میری آنکھوں میں آبیٹھو
سفیدی ہے سیاہی ہے شفق ہے ابرباراں ہے
میں نے کہا تم بارش میں پوری طرح بھیگ چکی ہو اور بھیگنے سے تمہارے بالوں سے بارش کی بوندیں موتی کی طرح ٹپک رہی ہیں میں چاہتا تھا کہ ان موتیوں کے انموں قطروں کو اپنے ہونٹوں سے اتارلوں جو میرے لئے آب حیات سے کم نہیں ہے۔ میں ذیشو کا ہاتھ تھام کر ذینے کی سیڑھیاں بار کرکے کمرے کے دروازہ سے بالکنی کی طرف جارہا ہوں اچانک ذیشو کا دوپٹہ دروازہ کی اوٹ میں اٹک جاتا ہے اور ذیشو کے شانوں سے علیحدہ ہوجاتا ہے وہ میرا ہاتھ چھڑا کر اپنا دوپٹہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ اس کی ناکام کوشش ہے اور دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ چھپانے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔ میں پوری طرح اس دوپٹہ کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ لیتا ہوںاور وہ شرماتی ‘ بل کھاتی‘ جھجکتیمجھ سے کہتی ہے کہ پلیز مجھے میرا دوپٹہ واپس کردو ورنہ میں چلاؤں گی۔ میں نے کہا شوق سے چلاؤ یہاں میرے علاوہ تمہیں بچانے والا کوئی نہیں ہے پھر وہ کہتی ہے للہ پلیز مجھے میرا دوپٹہ دیدو آپ بہت اچھے ہیں ۔ اچانک کمرے میں ذیشو کی ماں نمودار ہوتی ہے اور کہتی ہے یہ اجنبی کون ہے اور تم نے یہ اپنا کیا حلیہ بنارکھا ہے۔ اس کو میں نے تو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ذیشو  میرا تعارف اپنی ماں سے کراتی ہے ۔ مما یہ کمال ہیں میرے کالج کے ساتھی کیا آپ انہیں اتنا جلدی بھول گئیں۔ یہ وہی کمال ہیں جن کے لئے پاپا مجھ سے ہمیشہ ناراض رہا کرتے تھے اور آپ چاہتے ہوئے بھی پاپا کو ہمارے اس رشتہ کو کوئی نام دینے میں ناکام رہیں کیونکہ کمال ایک غریب اور یتیم لڑکا تھا۔ تب ذیشو کی ماں نے کہا اچھا یہ وہی کمال ہے جو ہمیشہ تمہارے ساتھ بیٹھ کر اپنا ہوم ورک مکمل کیا کرتا تھا گھنٹوں تم لوگ اسٹیڈی روم میں گپ شب میں  مصروف رہتے تھے۔ لیکن یہ تو بہت مونا اور بوڑھا ہوگیا ہے۔ کمال بڑے ادب سے ذیشو کی ماں کو سلام کرتا ہے اور خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھ جانا ہے۔
چائے سے تواضح کے بعد ذیشو کی ماں نے کمال سے پوچھا اتنے دن کہا رہے؟ کیا کررہے ہو؟ شادی کرلی۔ اتنے میں ذیشو بات کاٹتے ہوئے کہتی ہے۔ مما آپ کو تو پتہ ہے ہم ایک دوسرے کو کتنا چاہتے تھے۔ پاپا کو کمال کی شرافت اور قابلیت پر تو ناز تھا۔ اعتراض تھا تو صرف غربت پر جس کی وجہ سے پاپا کو ہمارا یہ رشتہ منظور نہ تھا۔ چنانچہ ایک محنتی اور ایماندار ڈرائیور کے لڑکے سے میرا رشتہ جوڑنے کی بجائے ایک خود غرض عیار لالچی اور بے ایماں آفیسر کے نکمے اور نااہل لڑکے سے میری شادی کردی۔ جو شادی کے بعد سے پاپا کی موت تک اس گھر کی ہر چیز کو مال غنیمت سمجھ کر برتتا اور خرچتا رہا اور میں پاپا کی خوشی کی خاطر بے بس اور مجبور اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ گھونٹ گھونٹ پیتی رہی۔

ذیشو کو ٹوکتے ہوئے ذیشو کی ماں نے کہاں یہ اب کہاں ہے اور کیا کررہا ہے۔ تب ذیشو نے کہا مما میری شادی کے بعد یہ مایوس ہوکر بحرین چلاگیا۔ میری ایک سہیلی کے رابطہ میں رہا کرتا تھا میری خیر خیریت ہمیشہ معلوم کرنا تھا۔ وہ یہ سمجھ کر میں اس شادی سے خوش ہوں جو پاپا کہ خوشی کی خاطر میں نے دکھاوے کا چولا پہن رکھا تھا۔ کسی پر بھی اس کا اظہار ہونے نہ دیا اور کمال میرے پیار میں دیوانے کی طرح آج تک اپنی شادی نہیں کرپایا۔ لیکن احسن سے میرا اطلاق ہونے کی میری سہیلی کے ذریعہ جوں ہی اس کو اطلاع ملی وہ فوراً مجھ سے ملنے کے لئے میرے آفس پر آپہنچا۔ ہم پچھلے ایک مہینے سے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں مما آپ پوچھ رہیں تھیں نا کہ طلاق کے باوجود بھی تیرے چہرہ پر کچھ خوشی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ میرے چہرہ پریہ خوشی کے آثار کمال کے کمال کی وجہ سے ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ بغیر کسی شرط کے میرا ہاتھ تھامنے کے لئے تیار ہے۔ میں نے کہا کہ میرے دوبچے ہیں کمال نے کہا کہ یہ ہمارے بچے ہیں تم ان کی فکر مت کرو۔ میں نے تم سے دور رہ کر جو دولت کمائی ہے۔ ان دو بچوں کے آگے اس کی قیمت میرے نزدیک کچھ بھی نہیں۔ ذیشو کی ماں کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ اتنے میں تانیہ اور ثانیہ گھر میں داخل ہوتے ہیں اور کمال آگے بڑھ کر ان انمول ہیروں کو اپنی باہنوں میں لے لیتا ہے۔