خوشگوار ازدواجی زندگی کیلئے آپسی حقوق کی ادائیگی ضروری

طلاق کا معاملہ اسلام کو بدنام کرنے کی سازش، بیدر میں تربیتی اجتماع سے جناب اقبال الدین انجینئر کا خطاب
بیدر۔29؍اکتوبر۔( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز)اسلام ہمدردی اور لطف و محبت کی تعلیم دیتاہے ۔ اسلام عفو درگزر اور خدمت خلق کی تعلیم دیتاہے۔ اسلام اخوت و محبت اور انسانیت کی تعلیم دیتاہے آج ہمیں ان تعلیمات کو عام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ان خیالات کااظہار اقبال الدین انجنئیر نے قادریہ گراونڈ بیدر سے’’ شریعت پر عمل آوری ،باعث خیر ‘‘کے عنوان پر خواتین کے تربیتی و اصلاحی اجتماع سے اپنے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ شائستہ ،خوش اخلاق ،عمدہ اوصاف اور اچھے طور طریقے سے آراستہ کرنا آج وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ تب ہی لڑکیوں کے اندر ایمان و عقیدہ کی پختگی ، اسلام سے گہرا تعلق ،بامقصد زندگی کا شعور و فہم پیدا ہوتاہے۔ قرآن ہمیں اہل و عیال کو خیر خواہی اور ادب سکھا کر جہنم کی آگ سے بچانے کی تعلیم دیتاہے ۔کسی والد نے اپنی اولاد کو عمدہ اخلاق اور اچھی تربیت سے بہتر اور قیمتی کوئی تحفہ نہیں دیا۔محترمہ بہاجت فاطمہ نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ خاندان ہی اسلامی معاشرے کی بنیادہے۔شریعت کا مقصد نفس کی تربیت ہے، تاکہ نفس کو ایک ضابطہ اور قاعدے کا پابند بنایا جائے۔ امور خانہ داری میں مہارت پیدا کرنا ہر لڑکی کیلئے سماجی، دینی اور صحت کے نقطہ نظر سے ضروری ہے۔ تاکہ شادی کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے معاون بن سکیں۔ اور خوشگوار خاندانی زندگی گذار سکیں۔ خواتین کو آزادی نسواں کی تحریک سے متاثر ہوکر اپنے آپ کو گھریلو کام کاج سے مستثنی نہیں سمجھنا چاہیئے۔ شادی کے بعد شوہر اور بیوی پر لازم ہے کہ اپنے فرض اور ذمہ داری کو اداکریں۔ نرم گرم حالات میں دونوں ایک دوسرے کی نفسیات کو سمجھیں۔سورہ بقرہ ۱۸۷۰میں ہے ’’بیویاںتمہارے لئے لباس ہیں اور تم بیویوں کیلئے لباس ہواور سورہ آل عمران ۱۹۵میں ہے۔تم آپس میں ایک دوسرے کے جزو ہو ۔ میاں بیوی کے درمیان تعلق کا یہ پہلو جب نگاہوں میں نہیں ہوتاہے تب چھوٹی چھوٹی بات بلا وجہہ مسئلہ بننے لگتی ہے اور طلاق کی نوبت آتی ہے جبکہ دنیا میں سب سے بُری چیز طلاق ہے۔ اگرکوئی جائزشکایت ہے تو اُس کو دور کریں۔ ورنہ خاندان کے کسی خیر خواہ کو بلا کر اُس سے اپنا مسئلہ حل کروالیں ۔پھر بھی اختلاف باقی رہے تو خاندانی پنچ مقرر کریں۔ اور اُن کے فیصلے کو مانیں جس کا ذکر سورہ نساء  35  میں اسطرح ہے۔ اگر تمہیں دونوں کے درمیان کش مکش کا علم ہو تو تم ایک حکم مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے مقرر کردو؟اگر دونوں کی نیت اصلاح حال کی ہوگی تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردیگا۔ طلاق اس وقت کیلئے ہے جب شادی ختم کرنے کی ضرورت پیش آجائے ۔طلاق کا ذکر سورہ بقرہ229  میں اس طرح ملتاہے۔ ’’یاتو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔ طلاق دینے کا طریقہ تو یہ ہوناچاہیئے دوبڑوں کی موجودگی میں ایک طلاق دیں۔ تب ہی عدت شروع ہوجاتی ہے۔ اور تین ماہ کے بعد مرد وعورت دونوں کے تعلقات پوری طرح ختم ہوجاتے ہیں۔ عدت کے دنوں تک عورت کا نان و نفقہ مرد کے ذمہ رہتاہے۔ اگر عدت کے دوران بیوی سے صلح ہوگئی تو پھر سے نیا رشتہ شروع ہوجائے گا۔ عدت کے بعد صلح ہوئی تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرلے سکتے ہیں۔ ایک طلاق دینے سے آئندہ ان جیسے امکانات کا راستہ کھلا رہتاہے۔ اور اگر ان امکانات کا خیال نہ بھی ہوتو بھی علیحدگی صرف ایک طلاق سے مکمل ہوجاتی ہے۔ اکھٹے تین طلاق دینا گناہ ہے لیکن طلاق ہوجاتی ہے اُس کے بعد میاں بیوی میں یکجائی کاراستہ پوری طرح بند ہوجاتاہے۔جوصرف حلالہ سے ہی جڑ سکتاہے اور وہ اتفاقی ہو ۔ ورنہ رسول اللہ ؐ نے سخت وعید فرمائی ہے، اور عدت کے بعد کیلئے مرد سے گزارہ وغیرہ لینا ایسا ہی ہے جیسے کسی اجنبی غیرمردسے اپنا گزارہ لیاجائے بہتر یہی ہے کہ مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرناچاہیئے ۔اس دنیا سے لمبی چوڑی امیدیں وابستہ نہ کریں۔ بلکہ آخرت کی تیاری کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیئے۔ کیونکہ جنت کی خوشیوں کو کوئی بھی چھین نہیں سکے گا۔ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ آج طلاق کا معاملہ جو اٹھا ہے وہ مسلم عورت کی ہمدردی کیلئے نہیں اُٹھا بلکہ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو نیچا دکھانے کیلئے اُٹھا ہے ۔ اس لئے اس چیلنج کا مقابلہ بیدارمغزی،حکمت اور سیاسی بصیرت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ جس کیلئے ہم میں صبر ہو ،تدبر ہو اورمعاملہ فہمی ہو۔ بے صبری کے ساتھ جلدی نتائج حاصل کرنے کیلئے بہت سے ایسے سطحی کام کئے جاسکتے ہیں جن سے ایک وقتی ہلچل برپا ہوجائے ،لیکن اس کا حاصل اس کے سوانہیں ہے کہ کچھ دنوں تک فضاء میں شور رہے اور پھر ایک صدمے کے ساتھ سارا کام اس طرح برباد نہ ہو کہ مدت ہائے دراز تک دوبارہ اس کا نام لینے کی بھی کوئی ہمت نہ کرسکے۔